آج کل مارکسزم اور کمیونزم کو ’’جھوٹا‘‘ اور ’’ناکارہ‘‘ نظامِ فکر قرار دینے والے حضرات نٹشے جیسے بیمار فلسفی کے ساتھ ساتھ ارسطو، سپنوزا اور دیگر فلسفیوں کے کئی اقوال اور تعبیروں کو درست مانتے ہیں۔ یہ بھی عجیب بات ہے کہ وہ خود شاید ہی کبھی مارکسزم اور کمیونزم کے پیروکار رہے ہوتے ہیں۔ دراصل اُنھوں نے اپنے ایتھیزم (الحاد پرستی) اور موقع پرستانہ لبرل ازم کی وجہ سے خود کو مارکسسٹ سمجھ لیا ہوتا ہے۔
مارکس ازم شاید واحد نظام فکر ہے جو کہیں آسمانوں یا پاتال میں ’’اصلی‘‘ اور ’’سچی‘‘ شکل میں موجود نہیں۔ مارکسزم سماج کو سمجھنے کی ایک سائنس ہے۔ مارکس نے ہمیں سمجھایا کہ معاشرے کا ایک بنیادی سماجی ڈھانچہ ہوتا ہے جس میں ذرائع پیداوار، طریقۂ پیداوار آتے ہیں۔ اِس کی بنیاد پر ایک بالائی ڈھانچہ بنتا ہے جس میں آپ کے عقائد، روایات، رسوم، اخلاقیات اور کلچر وغیرہ آتے ہیں۔ طریقۂ پیداوار میں تبدیلی سے اخلاقی اصول اور زندگی گزارنے کے طریقے بھی بدل جاتے ہیں۔
مارکس نے انسانی تاریخ میں چار طریقۂ پیداوار بتائے: شکار اور خوراک اکٹھی کرنا، غلامی، جاگیرداری اور سرمایہ داری۔ ان سب مدارج میں انسانی شعور کا تعین بنیادی ڈھانچے سے ہی ہوتا ہے۔ مارکس نے اپنے دور میں یورپ کے سر پہ کمیونزم کا بھوت منڈلاتے ہوئے دیکھا۔ وہ اپنی کتاب سرمایہ کی پہلی جلد مکمل کرنے کے بعد مر گیا، اور باقی دو جلدیں اُس کے قریبی دوست اینگلس نے لکھی تھیں۔ پھر سرمایہ داری نظام نے اپنے تضادات کو حل کرنے کے طریقے ڈھونڈے اور مارکس کی بیان کردہ توضیحات یا اندازے درست ثابت نہ ہوئے۔ سائنسوں کو اِس سے نقصان نہیں پہنچتا، بلکہ وہ قطعی ناکارہ ہو جاتیں یا پھر نئے توانا انداز اختیار کرتی ہیں۔
لیکن مارکسزم ہمیں تاریخ کو سمجھنے کی ایک کنجی عطا کر گیا۔ آج آپ جتنی بھی سماجی تنقید کرتے ہیں، اور socio-economic جیسی اصطلاحات استعمال کرتے ہیں تو دراصل مارکسزم کی ہی روشنی استعمال کر رہے ہوتے ہیں۔ بیسویں صدی کے بہت بڑے فلسفی دریدا کے بقول اب دنیا پر کمیونزم کا نہیں بلکہ مارکسزم کا بھوت منڈلا رہا ہے۔
دریدا کے لیے دیوارِ برلن گرنے کمیونزم کی موت کے بعد مارکس کا بھوت اور بھی زیادہ بامعنی بن گیا ہے۔ وہ مارکس سے کمیونزم کی بجائے ذمہ داری کا فلسفہ میراث میں حاصل کرنے کی بات کرتا ہے۔ اور ذمہ داری ایک ایسی چیز ہے جو لبرلز اور الحاد پرستوں کو شدید ناپسند ہے۔ یہ دونوں دھڑے اصل میں بہت قریب ہیں اور صرف سوال اُٹھانے کی آزادی چاہتے ہیں، لیکن اکثر اِنھیں یہ بھی نہیں معلوم ہوتا کہ سوال اٹھانا کس چیز پر ہے۔ وہ جواب بھی نہیں دینا چاہتے، کیونکہ اپنی ‘‘آزادی‘‘ اُنھیں ذمہ داری لینے سے روکتی ہے۔ سارتر نے کہا تھا کہ آزادی کسی چیز ’’سے‘‘ نہیں بلکہ کسی چیز ’’کے لیے‘‘ ہوتی ہے۔ لبرل ازم والوں کو یہ نہیں معلوم کہ اُنھیں آزادی کس ’’سے‘‘ چاہیے، کیونکہ وہ خود اُس کا حصہ بنے بیٹھے ہیں۔ اور وہ کس ’’کے لیے‘‘ چاہیے کا تو تصور بھی کرنے سے عاجز ہیں۔
ذمہ داری کے فلسفے میں آپ سب سے پہلے خود کو جوابدہ ہوتے ہیں۔ اپنا فکری جہان اِسی کی روشنی میں ترتیب دیا جا سکتا ہے۔ لیکن زیادہ تر لوگ ایک نئے جہان کی تشکیل کے متحمل نہیں ہو سکتے، لہٰذا فرار پسندی کی راہ اختیار کرتے ہیں۔ مارکس کا بھوت اُنھیں بہت تنگ کرتا ہے۔ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ انسان اپنی ہستی کا تعین نہیں کرتے، بلکہ اس کے برعکس ان کا سماجی وجود ان کے شعور کا تعین کرتا ہے۔
لبرل ازم اور سوشلزم
مناظرے کی ایک خوبی یہ ہوتی ہے کہ ہم کبھی دوسرے کی بات نہیں سنتے، بلکہ اپنی اگلی بات یا دلیل سوچتے رہتے ہیں۔ ہم اُس موضوع یا نام نہاد دلیل کی طرف لانا چاہتے ہیں جس پر ہم سمجھتے ہیں کہ ہمیں پوری طرح دسترس ہے۔ لیکن معاملہ زیادہ دلچسپ اُس وقت ہوتا ہے جب دونوں فریق ہی دسترس نہ رکھتے ہوں۔
غالباً جوزف پرودھوں نے کارل مارکس کے فلسفے پر ایک کتاب لکھی تھی: Philosophy of Poverty، تاکہ مارکس کے خیالات کو غربت کا فلسفہ ثابت کر سکے۔ جواب میں مارکس نے کتاب لکھی: Poverty of Philosophy۔ یہ ہوتا ہے علمی مناظرہ جو آج بھی ہماری یادداشت اور تاریخ میں باقی ہے۔
جاری گفتگو میں اپنا لُچ فرائی کرتے ہوئے میں تین چار نکات پیش کرنا چاہوں گا:
ہمارے لیفٹ کی یہ خوبی رہی ہے کہ اُنھوں نے ہمیشہ اپنے مطالعہ کو چند کتابچوں سے آگے نہیں بڑھایا۔ شاید ہی کسی نے کبھی داس کیپیٹل پڑھی ہو گی۔ کم از کم میں کسی ایسے کو نہیں جانتا۔ وہ ہمیشہ اشتراکیتِ راشدہ کی بات کرنے لگیں گے، نہ کہ مارکس ازم کی۔ ان کے ذہن میں سرمایہ داری کا تصور وہی ہے جو انیسویں صدی کے آخر میں لینن نے بیان کیا (اور دارالاشاعت ترقی کے کتابچوں کی بدولت اُن تک پہنچا)۔
دوسری طرف لبرل ہیں جو غیر ذمہ داری کو انسانی آزادی سمجھتے ہیں۔ لبرل سوچنے اور بات کہنے کی آزادی چاہتا ہے، لیکن اُسے یہ نہیں معلوم کہ کہنا کیا ہے! وہ سوال اٹھانے کی آزادی مانگتا ہے، جواب دینے کی عقل نہیں۔ یہی لبرل ازم پوسٹ ماڈرن ازم کی بھی شکل اختیار کر کے موجود کو جسٹیفائی کرتا ہے۔
لیکن انفرادی، گروہی یا اجتماعی سطح پر ایک اچھی دنیا تو سبھی کو چاہیے۔ نہیں؟ چلیں فرض کر لیا کہ واقعی چاہیے، تو ذرا سوچیں کہ اگر آپ ایک بہتر دنیا کا تصور پیش کریں، تو بتائیں کہ اُس کی بنیاد کس اصول پر ہو گی؟ ایسا کر کے دیکھ لیں، آپ سوشلسٹ تصور کے قریب تر ہی ہوں گے۔
مارکسزم آپ کو موجود (given) کو جسٹیفائی کرنے کی نہیں، سمجھنے کی کنجی عطا کرتا ہے۔ جب آپ socio-economic یا socio-political حوالے سے بات کرتے ہیں، طبقات کی بات کرتے ہیں، مذہب کے کردار کی بات کرتے ہیں، تو مارکسزم ہی اُگل رہے ہوتے ہیں۔
آپ کو ول ڈیورانٹ پسند ہے، کارل ساگان پسند ہے، کیرن آرم سٹرانگ پسند ہے، وغیرہ وغیرہ، لیکن وہ تو ’’لبرل‘‘ نہیں۔ وہ چیزوں کو ایک پلیٹ فارم پر کھڑے ہو کر دیکھتے ہیں، ورنہ وہ کچھ بھی نہ دیکھ پاتے۔
دیکھیں، بات اتنی سی ہے کہ کوئی مہابیانیہ یا محیطِ کُل نظریہ موجود نہ ہونے کا پرچار آج کا مہا بیانیہ یا غالب نقطۂ نظر ہے (جس نے پوسٹ ماڈرن ازم کا لبادہ بھی اوڑھا)۔ جونہی آپ کسی کو مخاطب کرتے ہیں، تو کسی نے کسی مہا بیانیے کے مطابق چل رہے ہوتے ہیں۔ ایک لبرل اور ایک نام نہاد سوشلسٹ ایک دوسرے کو مخاطب کرتے وقت اس سماجی پیرامیٹرز سے باہر نہیں ہوتے، تو پھر وہ خود کو تاریخی عمل سے جدا کر کے کیسے دیکھ سکتے ہیں؟
اگر بحث کرنی ہے تو اُس سے پہلے ٹھوس کام ہونا چاہیے۔ مارکسزم کیا ہے؟ تاریخی مادیت کیا ہے؟ جدلیات اور مارکسزم کیا ہے؟ اِس بارے میں کام کرنے کی ضرورت ہے۔ لبرل ازم کی فرار پسندی اور سوشلزم کی دقیانوسیت کی بجائے مارکس ازم ہی آپ کو یہ ہمت دے سکتا ہے۔