آرٹیفیشل انٹلجنس  اور انقلابی تبدیلیاں
انیس 1996 میں چیس گرینڈ ماسٹر کیسپروف اور ڈیپ بلیو آمنے سامنے آئے۔ یہ انسان اور مشین کے درمیان ذہانت کا پہلا چیلنج تھا
چین اگلے دس برس میں امریکہ کو اے آئی کے ہر میدان میں پیچھے چھوڑ دے گا۔
تقریباً دس لاکھ سال سے بھی پرانی بات ہے کہ کسی انسان نے کسی شکار کی طرف رات کی تاریکی میں ایک پتھر کھینچ کر مارا اندھیرے میں یہ پتھر کسی چٹان سے ٹکرا گیا اور اس ٹکرانے سے روشنی کی کرنیں پھوٹیں، یہ سب نے دیکھی۔
انسان نے آگ دریافت کر لی تھی۔ لیکن ساتھ ہی انسان کی زندگی میں ایک کمپرومائز بھی آ چکا تھا۔ یہ آگ اس کے لیے اب سب کچھ تھی۔ اسے سردی سے بچاتی تھی، اس کے لیے جانوروں کے اچانک حملوں سے بچاؤ تھی، سخت گوشت کو دانتوں سے توڑنے او ہضم کرنے کی تکلیف سے بچانے لگی تھی، یعنی آگ پر گرم اور نرم کیا ہوا گوشت چبانا اور کھانا آسان ہو گیا تھا۔ انسانی دماغ کے بڑا ہونے میں آگ نے بہت اہم کردار ادا کیا کیونکہ اب انسان کی زیادہ انرجی خواراک کو چبانے اور ہضم کرنے پر نہیں لگتی تھی جس کی وجہ سے بہت سی انرجی اب اس کے برین میں نیورانز کی ڈیلوپمنٹ پر اور دماغ کا سائز بڑا ہونے کی طرف جانے لگی۔۔ مطلب آگ انسان کے لیے اس وقت تک کی سب سے بڑی دریافت تھی لیکن اس کے ساتھ کمپرومائز یہ تھا کہ ادھر یہ کنٹرول سے باہر ہوئی اور ادھر سب کچھ بھسم۔ یہ بستی اجاڑ دے گی، جنگل جلا دے گی، ہستے بستے انسان ہڑپ کر جائے گی۔ آج تک جلے ہوئے کا کوئی شافی علاج دریافت نہیں ہو سکا۔ اسی لیے آگ کی دریافت اور استعمال ایک کمپرومائز بھی تھا، جس میں آگ ضرورت اور لٹکتی تلوار دونوں ہی تھی آگ کے بعد انسان نے مزید کیا کچھ ایجاد اور دریافت نہیں کیا۔ زبان، لینگوئج ایجاد کی، لکڑی اور لوہے کو ڈھالنا سیکھا، ہتھیار بنائے، سٹیم انجن سے سپیس شٹل تک سب بنایا لیکن وہ کسی چیز سے آگ جتنا خوفزدہ دوبارہ نہیں ہوا۔۔۔۔
یہاں تک کہ ہم آرٹیفیشل انٹیلی جنس کے دور تک آ گئے۔
جی ہاں اے آئی
اے آئی بھی جدید انسان کی آگ جیسی دریافت ہے۔ اور اے آئی کی کہانی بھی بہت دلچسپ ہے۔ آٹومیشن جو کہ اب ماڈرن اے آئی میں ڈھل چکی ہے، اس کا آغاز قدیم مصری، عراقی اور چینی تہذیبیوں میں ہوا کیونکہ ان تینوں جگہوں سے ایسی گھڑیاں ملیں ہیں جو انسانی مداخلت کے بغیر سورج کی روشنی سے وقت بتاتی تھیں۔ انھیں ہم پہلی آٹومیشن اے آئی مشینز بجا طور پر کہہ سکتے ہیں۔ ان کا سادہ سا لیکن جینئس اصول تھا۔ وہ یہ کہ قدیم لوگ صحرا میں یا کسی بھی ہموار جگہ پر جہاں سورج کی روشنی پڑتی ہو، وہاں ایک “سن ڈائل” رکھ دیتے تھے جو کہ ایک گول یا نیم دائرے کی شکل میں ایک ٹرے ہوتی تھی جس کے سنٹر میں نوے کے اینگل پر ایک سیدھی لکڑی یا کیل جڑی ہوتی تھی جسے آپ ڈائل کہہ سکتے ہیں۔ اس پتھر یا لکڑی کی ٹرے پر ترتیب سے اسی طرح نشانات ہوتے تھے جیسے آج کی گھڑیوں میں ہوتے ہیں۔ اب ہوتا یہ تھا کہ جیسے جیسے سورج حرکت کرتا تھا، ڈائل کا سایہ بھی حرکت کرتا جاتا تھا۔ سایہ نیچے کے نشانات پر حرکت کرتا جاتا تھا جس سے پتا چل جاتا تھا کہ وقت کیا ہوا ہے۔ اس سادہ سی میشن میں کسی کو بار بار مداخلت نہیں کرنا پڑتی تھی یہ ڈائل مصر میں مزدوروں کی مزدوری کا وقت طے کرتا تھا۔ ان کے اوقات کا تعین کرتا تھا۔ مصر کی ویلی آف کنگز سے اس کے آثار ملے بھی ہیں۔
قارئین سمیرینز یعنی عراق کے رہنے والے، وہ لوگ تھے جنھوں نے پہلی بار سن ڈائل کو بارہ گھنٹوں میں تقسیم کیا، اور یہ تقسیم آج بھی اسی طرح استعمال میں ہے۔ دن کو دس کے بجائے بارہ حصوں میں انھوں نے اس لیے تقسیم کیا کہ وہ گنتی ہی بارہ کے سسٹم پر کرتے تھے۔ وہ ایسے کہ اپنے دائیں ہاتھ کے انگوٹھے سے اِسی ہاتھ کی چار انگلیوں کی ہر پور کو گنتے تھے۔ تو یہ بارہ ہوئے۔ لکھنے کا رواج تو ابھی عام نہیں ہوا تھا، سو یہی ہاتھ کا سادہ کیلکولیٹر ان کو روز کی جمع تفریق کے لیے کافی تھا۔ ایک ہاتھ مطلب بارہ، دو ہاتھ مطلب چوبیس۔ ویسے آج بھی ہم جو ایک درجن دو درجن کا سسٹم بعض جگہوں پر پھل وغیرہ کی خریدوفروخت میں استعمال کرتے ہیں، تو یہ اسی قدیم ہاتھ کی انگلیوں پر حساب کتاب کے دور کی یادگار ہے۔

 سن ڈائل اے آئی میں انسان کی پہلی اہم آٹومیشن انوینشن تھی۔ لیکن اس میں مسئلہ یہ تھا کہ جب بادل، بارش یا ابر آلود موسم ہوتا تو یہ ڈائل کام نہیں کر سکتا تھا۔ کیونکہ اسے تو ہر وقت سورج کی روشنی چاہیے تھی۔ اس کا حل پھر الیگزینڈریا میں، مصر میں ایک فلسفی “ٹسی بئیس” نے نکالا۔ ٹسی بئیس نے دن اور رات کسی بھی حالت میں وقت معلوم کرنے کے لیے سورج کی جگہ پانی کے استعمال کا آئیڈیا دیا۔ یہ خیال اسے اپنے باپ کی حجام کی دکان پر پڑے ہوئے ٹب سے ٹپ ٹپ گرتے پانی کو دیکھ کر سوجھا تھا۔ اس نے ایسا سادہ مگر جینئس آٹومیشن سسٹم بنایا کہ جیسے جیسے پانی نیچے والی فلاسک میں گرے گا، وہ اوپر موجود لکڑی کے نشان کو حرکت دیتا رہے گا۔ اس سے دن اور رات میں کسی بھی لمحے درست وقت معلوم کیا جا سکتا تھا۔  انہی چھوٹی چھوٹی چھلانگوں کے ذریعے بیسیویں صدی میں انسان نے اوزار بناتے بناتے، پاور لومز بناتے بناتے، یہی مکینکل ایکوئپمنٹس کو، پروگرامنگ سے کوڈنگ سے ڈیزائن کرنا شروع کر دیا۔ اس جگہ جب سائنسی ترقی پہنچی تو سائنس فلاسفرز کو ایک خوف ستانے لگا کہ اگر یہ ٹکنالوجی پروگرامنگ اور آٹومیشن، اے آئی وغیرہ غلط ہاتھوں میں چلی گئی تو کیا ہو گا؟
 غلط ڈائریکشن میں چلی گئی تو کیا ہو گا؟ اگر یہ خود کار ہو گئی، تو کیا ہو گا؟
انسان کے ہاتھوں سے ہی اس کا کنٹرول ہی نکل گیا تو کیا ہو 

 گیری کیسپرو، آزربائیجان میں پیدا ہونے والا ایک ایسا جینیس چیس گرینڈ ماسٹر تھا کہ اس نے اپنی زندگی میں دو ہزار چار سو میچز کھیلے اور صرف ایک سو ستر کے قریب ہارا یعنی اس کا وکٹری ریٹ نائنٹی تھری پرسنٹ تھا۔ وہ اتنا جینئس تھا کہ ایک ایک وقت میں کئی ٹیبلز پر ایک ساتھ کھیل کر بھی جیت جاتا تھا۔ انیس سو پچاسی سے دوہزار تک وہ ورلڈ چیمپن رہا۔
شطرنج کے عظیم کھلاڑی کو چیس ماسٹر کہتے ہیں۔۔۔ گیری کیسپرو گرینڈ ماسٹر تھا۔
جس دور میں کیسپرو ورلڈ چیمپن تھا ان دنوں آئی بی ایم کمپیوٹرز کا طوطی بولتا تھا۔ آرٹیفیشل انٹیلی جنس پر انیس سو ساٹھ کی دہائی سے کام رک چکا تھا۔ کیونکہ پروگرامرز ملینز آف ڈالرز اس ٹکنالوجی کی ڈیویلپمنٹ پر خرچ کر کے بھی کوئی فائدہ مند پراڈکٹ تیار نہیں کر پا رہے تھے۔ یعنی کوئی پرافٹ ایبل پروڈکٹ نہیں بن سکی تھی۔ سو ایسے میں جب باقی کمپنیز تھک چکی تھیں، آئی بی ایم نے اس ویکیوم میں آرٹیفیشل انٹلیجنس پر کام شروع کیا۔ انھوں نے اے آئی کی پہلی گیمز بنانا شروع کیں۔ یہ چھوٹی چھوٹی گیمز تھیں، جو انسانوں کے مقابلے میں کمپیوٹر کی طرف سے کھیلی جاتی تھیں یعنی گیم میں ایک طرف انسان ہوتا تھا دوسری طرف کمپیوٹر یعنی اے آئی
آپ کو یاد آ رہا ہو گا کہ چھوٹی چھوٹی بورڈ گیمز میں جب آپ اکیلے کھیلتے تھے تو کمپیوٹر ایک کھلاڑی بن جاتا تھا اور اس میں ہم خود یہ بھی طے کر سکتے تھے کہ وہ کس لیول کی ڈیفیکلٹی ہمیں دے گا۔۔۔ ایزی، مڈ یا ایکسپرٹ لیول کی۔
تو اس میں یہ عام دیکھا جاتا تھا کہ مشکل لیول پر نیا کھلاڑی تو ہار جاتا تھا، لیکن اچھا کھلاڑی کسی بھی ہارڈ لیول پر کمپیوٹر کو ہرا دیتا تھا۔
سو یہ طے تھا کہ مشین کبھی انسان سے آگے نہیں نکل سکتی۔ ذہانت میں انسان ہمیشہ مشین سے آگے رہے گا یہ انسان کا گھمنڈ تھا غرور تھا اس کا۔
مشین کے پیچھے رہنے کی وجہ یہ تھی کہ کمپیوٹر کو کسی بھی ایکسپرٹ کے لیول کا ڈیٹا پراسیس کرنے کے لیے جتنی سپیڈ اور ڈیٹا چاہیے تھا، وہ نہیں ہوتا تھا۔جیسے کہ چیس کھیلتے ہوئے ایک اچھا کھلاڑی اپنے مدمقابل کی تین یا چار یا پانچ مووز سوچ کر کھیلتا ہے، جبکہ کمپیوٹر کے لیے اس وقت یہ ناممکن تھا۔ پھر انسان کھیلتے ہوئے دوسرے انسان کی پچھلی غلطیاں بھی ذہن میں رکھتا ہے، کہ میرا مدمقابل کہاں کہاں غلط کھیلا تھا اور کھیل کے کس داؤ میں یہ کمزور ہے۔ ظاہر ہے اس وقت کی پروگرامنگ میں یہ صلاحیت نہیں تھی، کمپیوٹر یہ سب نہیں کر سکتا تھا۔
 ہاں اگر اسے یہ سب کرنا تھا تو اسے بھی اپنے مدمقابل کی ایک ایک موو یاد رکھنا تھی، پھر اس ڈیٹا کو اس طرح پراسیس کرنا تھا کہ اسے پتا ہو کہ پچھلی بار اس نے کیا غلطی کی تھی، یعنی پاسٹ ایکسپیرینس بھی اس کے پاس ہو۔ پھر وہ ایک وقت میں چال چلتے ہوئے، انسانی دماغ سے کہیں زیادہ مووز کو سوچ کر سب سے مشکل چال چلے۔
یہ سب کرنے کے لیے اسے جتنا زیادہ ڈیٹا چاہیے تھا، اسے آج ہم بگ ڈیٹا کہتے ہیں۔ اور اس ڈیٹا کو پراسیس کرنے کے لیے جو میکنزم چاہیے اسے ڈیپ تھنکنگ کہتے ہیں۔ تو آئی بی ایم نے بگ ڈیٹا اور آرٹیفیشل انٹیلی جنس کی مدد سے اپنی چیس گیم کو بہتر بنانا شروع کیا۔ تا کہ وہ گیری کیسپریوف سے مقابلہ کر سکے۔
نوے کی دہائی میں ایسے مقابلے ہونے لگے جن میں کیسپروف ایک طرف اور دوسری طرف ڈیپ تھنکنگ بگ ڈیٹا روبوٹ “ڈیپ بلیو” ہوتا۔
ا 1996 فلیڈلیفیا، امریکہ میں کیسپروف اور ڈیپ بلیو آمنے سامنے آئے۔ یہ انسان اور مشین کے درمیان ذہانت کا پہلا ایسا چیلنج تھا جسے ہم بلاشبہ ایک تاریخ ساز لمحہ کہہ سکتے ہیں۔ کیونکہ یہ ایکوئشن کہ مشین کبھی انسان کو ذہانت میں نہیں ہرا سکتی، چیلنج ہو گئی تھی۔ کیسپروف اور آئی بی ایم کے ڈیپ بلیو کیمپیوٹر میں چھ راؤنڈز ہوئے چار کیسپروف نے جیتے اور دو ڈیپ بلیو نے۔یعنی انسان مشین سے جیت گیا۔ لیکن یاد رکھیں دو راؤنڈز ہارا بھی تھا۔ اور یہ پہلی بار ہوا تھا۔۔۔
ایک سال بعد آئی بی ایم نے مزید کام کیا ٹکنالوجی کو امپرو کیا۔ مشین لرننگ کو ڈیپ تھنکنگ کو اور ڈیپ کیا گیا۔ بگ ڈیٹا کا بہتر استعمال کیا گیا اور 1997 میں دونوں میں دوبارہ میچ ہوا۔ اس بار ڈیپ بلیو نے کیسپروف کو خوب چیلنج دیا اور کیسپروف نے بھی ڈیپ بلیو کو ایسا چیلنج دیا کہ اس کا پروسیسر بار بار ہیٹ اپ ہو جاتا تھا۔ یہاں تک کہ اسے کئی مرتبہ ری سٹارٹ کرنا پڑا۔ مگر ہوا یہ کہ آخری راؤنڈ میں صرف انیس مووز کے بعد کیسپروف نے کھیل سے ریزائن کر دیا۔ اس نے شکست تسلیم کر لی۔
تاریخ میں پہلی بار ایک مشین نے ذہانت میں انسان کو شکست دے دی تھی۔ یہ ایک واٹر شیڈ مومنٹ تھا۔ کیسپروف نے تسلیم کیا کہ اب کمپیوٹر مجھ سے زیادہ مووز کیلکولیٹ کر کے کھیلتا ہے، سو وہ جیت سکتا ہے۔
انسان، مشین سے ہار گیا تھا۔
انسان کا یہ گھمنڈ ٹوٹ چکا تھا کہ مشین کتنی بھی ایڈوانس ہو جائے، سوچنے اور پریڈکٹ کرنے کی صلاحیت میں ذہانت میں انسان سے آگے نہیں نکل سکتی۔
لیکن چائنیز اس گیم اور اس نتیجے پر ہنستے تھے۔چائنیز کو اس پر یقین نہیں تھا۔ وہ کہتے تھے کہ شطرنج تو ایک آسان گیم ہے۔ آٹھ بائی آٹھ لائنز کی۔ صرف چونسٹھ خانے ہیں اس کے۔ چند مووز پر گیم ہی ختم ہو جاتی ہے جبکہ ہماری اڑھائی ہزار سال پرانی گیم “گو” جو انیس بائی انیس لائنز کی ہے۔ یعنی کل تین سو اکسٹھ، تھری سکسٹی ون خانوں کی ہے اسے ہرا کر دکھائیں تو مانیں۔ یہ گیم اس لیے بھی مشکل تھی کہ اس میں صرف مدمقابل کی گوٹیاں، پیسز کو مارنا ہی نہیں ہوتا، بلکہ انھیں گھیرنا ہوتا ہے اور زیادہ سے زیادہ ایریا کو اکوائر کرنا ہوتا ہے، اپنے قبضے میں لینا ہوتا ہے۔ سو یہ چیس سے کئی گنا زیادہ ذہانت اور فوکس مانگتی تھی۔
یادداشت اور ڈیپ تھنکنگ میں اس کا لیول چیس سے سیکنڑوں گنا زیادہ ہوتا ہے۔ اگر آپ میتھ کے سٹوڈنٹ ہیں یا اسے سمجھتے ہیں تو آپ آسانی سے یہ بات ہضم کر لیں گے کہ یونیورس میں کل ملا کر اتنے ایٹم نہیں ہیں، جتنی گو بورڈ گیم میں مووز پاسیبل ہیں۔
  تو اتنے بڑے امکانات میں مووز کھیلنا چائنیز کو ناممکن لگتا تھا۔

سو اسی لیے چائنیز کو یقین تھا کہ چیس جیسی سیدھی سادھی گیم کے مقابلے میں کمپیوٹر “گو گیم” نہیں جیت سکتا۔ لہذا انسان کی مشین پر برتری کبھی ختم نہیں ہو گی۔ مگر ہوا یہ کہ گوگل کے برٹش انجینئرز کی ایک ٹیم نے چائنیز ایکسپرٹس کی مدد سے چائنیز گو گیم کو آرٹیفیشل انٹیلی جنس میں ڈیزائن کر لیا۔
پھر انھوں نے گو گیم کے نمبر ون کھلاڑی “لی سیڈول” کو چیلنج کیا کہ اگر وہ گوگل الفاگو پروگرام کو شکست دے تو ایک ملین ڈالر گھر لے جائے۔ ساؤتھ کوریا کا نوجوان لی سیڈول انتہائی ایکسپرٹ، لیول نائن کا پلیر تھا۔ ایسا کھلاڑی کہ اسے خدا کا دماغ، “ہیڈ آف دی گاڈ” کہتے تھے۔ لی سیڈول نے گوگل کا چینلج قبول کر لیا اور شیخی سے کہہ بھی دیا کہ وہ چار کی گیم میں اگر ہارا بھی تو زیادہ سے زیادہ ایک راؤنڈ ہارے گا۔
مارچ 2016 میں اٹھائیس کروڑ ایشینز نے سکرینوں سے چپک کر یہ میچ دیکھا، جس میں گوگل “الفا گو” نے لی سیڈول کو بیسٹ آف فائیو میں پہلے تینوں میچ ہرا دئیے۔ چوتھا میچ لی سیڈول اس لیے جیت گیا کہ گیم نے ایک غلطی کی اور لی نے اسے ریکور کرنے کا موقع نہیں دیا۔ پانچویں گیم میں الفا گو نے پھر میدان مار لیا۔
لی سیڈول جس نے کیمپیوٹر کو چار ایک سے ہرانا تھا، وہ خود چار ایک سے ہار گیا۔ ساتھ ہی انسان کا یہ بھرم مکمل ٹوٹ گیا کہ مشین انٹیلی جنس میں انسان کو نہیں ہرا سکتی۔
گو پلیر لی، بہت دکھی تھا۔ مگر اس نے کہا کہ “انسان آج دنیا کی مشکل ترین گیم ایک مشین سے ہارا ہے، لیکن انسانیت نہیں ہاری کیونکہ اس گیم کو انسان نے ہی ڈیزائن کیا ہے۔ یہ بات اس لیے اس وقت اہم تھی کہ ہر کوئی کہنے لگا تھا “آج انسان مشینوں سے ہار گیا، اب مشینوں کی حکومت ہو گی۔ تو اس نے دراصل اپنا پوائنٹ آف ویو واضح کیا تھا، جو کہ درست بھی تھا۔ 2019 میں لی سیڈول نے کھیل سے ریٹائرمنٹ بھی لے لی اور کہا کہ میں گو کہ نمبر ون ہوں، لیکن مجھے پتا ہے کہ ایک اینٹیٹی ایسی ہے جسے میں اب کبھی شکست نہیں دے سکتا۔ میں یہ تسلیم کرتا ہوں۔
اس کے بعد بھی کئی چائنیز کھلاڑیوں نے “الفا گو” کو چیلنج کیا، جیسے کہ 2020 میں ایک چینی کھلاڑی “مسٹر کی” نے کہا کہ وہ الفاگو کو شکست دے سکتا ہے۔ لیکن اسے بھی الفاگو کے ہاتھوں شکست ہوئی۔ لیکن ایسا ہوا کیوں اور کیسے؟ مشین کے اندر کون سا ایسا جن آ گیا تھا، جو اس کے بنانے والے  بھی اس سے آگے نہیں جا رہے تھے؟
اصل میں کمپیوٹر پروگرامنگ میں دو اسکول آف تھاٹس 1950 سے چل رہے تھے۔
“ایک رول بیسڈ پروگرامنگ” کا اور دوسرا “نیورل نیٹ ورک پراگرامنگ” کا۔ رول بیسڈ پروگرامنگ والوں کا کہنا تھا کہ پروگرامنگ “اِف اینڈ دین”۔۔۔ اگر یہ کمانڈ دی جائے تو یہ ہو”۔۔۔ کی بنیاد ہونی چاہیے۔ جیسے انڈسٹیریز کے لیے روبوٹس بنتے ہیں اس طرح۔ یعنی تمام کوڈنگ انجینیرز کریں گے، ضرورت کے مطابق کریں گے، مشین کو کچھ رولز کے مطابق ڈیزائن کیا جائے گا، وہ ان تمام قاعدوں، اصولوں اور کوڈنگ سے دائیں بائیں نہیں ہو سکے گی۔ جب جہاں مشین کو اپ ڈیٹ کرنا ہو گا تو انجینئرز ہی ایسا کریں گے۔
جبکہ نیورل نیٹ ورک پروگرامنگ، اپروچ بہت انقلابی اور مہنگی تھی۔ اس میں یہ تھا کہ پروگرامز کو بار بار ڈیزائن کرنے اور سٹرکچر کرنے کے بجائے انھیں اس طرح لکھا جائے گا کہ وہ خود سیکھنا شروع کر دیں۔ یعنی پروگرامز کو پروگرامنگ سکھائی جائے گی جس کے بعد انھیں زیادہ سے زیادہ ڈیٹا دیا جائے گا تا کہ وہ خود کو اپ ڈیٹ کرتے رہیں یعنی بالکل ایسے جیسے انسانی دماغ کرتا ہے ہاں بعض لوگوں کا۔ یہاں نیورانز میں زیادہ سے زیادہ معلومات جاتی رہتی ہے اور انسان اپ ڈیٹ ہوتا رہتا ہے۔ اسی کو نیوریل نیٹ ورک پروگرامنگ اپروچ میں ڈیپ لرننگ، بگ ڈیٹا اور ہائی سپیڈ پروسیسنگ سے ممکن بنایا گیا۔
یہ جو گوگل نے “الفا گو” گیم بنائی تھی اور آئی بی ایم نے جو “ڈیپ بلیو” سسٹم اپ ڈیٹ کیا تھا، جس نے بہترین کھلاڑیوں کو ہرایا تھا، وہ اسی ڈیپ لرننگ کی وجہ سے ممکن ہوا تھا۔ پہلی بار جب ڈیپ بلیو ہارا تھا تو یہ صرف انسانی پروگرامنگ تھی۔ اس کے بعد آئی بی ایم نے کیسپروف کو ڈھیروں ڈالرز دئیے کہ وہ مشین کے ساتھ بار بار کھیلے، تا کہ مشین اس کی مووز کا ڈیٹا جمع کرتی رہے اور سیکھتی رہے۔ ہر بار جب وہ غلط موو کرے تو اسے پتا چل جائے کہ یہ موو کرنے سے کیا نقصان ہو سکتا ہے اور وہ دوسری تیسری چوتھی اور پانچویں آپشن پر چلی جائے۔ یہ ڈیٹا صرف کسیپروف سے ہی نہیں، بلکہ لاتعداد کھلاڑیوں سے لیا گیا۔ ٹورنمنٹس تک اس کو مونیٹر کیا جاتا تھا اور ایک ایک موو کو ریکارڈ کیا جاتا تھا تاکہ مشین سیکھ سکے۔
گوگل کی الفا گو گیم میں بھی یہی ڈیپ لرننگ اور بگ ڈیٹا کا استعمال کر کے مشین کو خود سیکھنا اور اپ ڈیٹ ہونا سکھایا گیا۔ اس سب سے مشین اتنی پاورفل ہو گئی، وہ اتنی مووز پریڈکٹ کر کے بہترین موو کرنے لگی کہ یہ سب انسان کے بس کی بات نہیں تھی۔ انسان زیادہ سے زیادہ چار پانچ یا چھ مووز ہی سوچ کر آگے بڑھ  سکتا ہے اور ایک بڑا نقشہ ذہن میں رکھ کر مخالف کو گھیر سکتا ہے۔ جبکہ مشین یہ کام ہزاروں اور لاکھوں آپشنز کے ساتھ کر سکتی ہے۔
قصہ کوتاہ کہ یہ دوسرا سکول اف تھاٹ “نیورل نیٹ ورک پروگرام” دراصل آرٹیفیشل انٹیلی جنس کی ماڈرن شکل ہے۔ اب یہی سسٹم دنیا بھر میں رائج ہو رہا ہے اور پہلا یعنی رول بیسڈ بہت لیمیٹڈ کاموں کے لیے ہی رہ گیا ہے۔

دنیا کی ہر بڑی کمپنی دنیا کا زیادہ سے زیادہ ڈیٹا جمع کر کے زیادہ سے زیادہ ڈیپ تھنکنگ کے قابل مشینز بنا رہی ہے۔ یہاں تک کہ انسانی دماغ سے براہ راست ڈیٹا لیا جا رہا ہے، جس کے لیے انسانی دماغ میں بائیو چپس لگا کر مشین کو ذہن میں اٹھتے خیالات اور احکامات کو پڑھنا سکھایا جا رہا ہے۔2016 میں کیا ہوا؟ کہ ایک سوئس کمپنی نے ایک مفلوج بندر کو، جس کی ایک ٹانگ کام نہیں کرتی تھی، اسے نقلی ٹانگ لگائی اور اسے چلنے کے قابل بنایا۔ یعنی بندر کے دماغ میں چپ لگا کر اسے اس قابل بنایا کہ وہ اپنی نقلی ٹانگ کو حرکت دے سکے۔
پھر اس کے بعد 2021 کے اپریل میں ایک وڈیو عام ہوئی جس میں ایک نو سالہ بندر “مائینڈ پونگ” گیم کھیل رہا تھا۔ اسے ایک چھوٹی سی بال کو ایک چوکور ڈبے میں ڈالنا ہوتا تھا۔ ہر کامیابی پر اسے ایک میٹھے بنانا جوس کا ایک گھونٹ ملتا تھا۔ اس بندر جس کا نام پیجر رکھا گیا تھا، اس کے سوا ہر کوئی جانتا تھا کہ اس پر سائنس کا ایک بہت اہم تجربہ  ہو رہا ہے۔ اور یہ تجربہ ایلون مسک کی کمپنی کر رہی تھی۔ بات یہ تھی کہ پیچر کے سر میں، دماغ کے اندر ایک بائیو چپ لگائی گئی تھی۔ اس چپ کے سرے پر بال سے باریک لاتعداد الیکٹروڈز کی وائرز تھیں۔ یہ بائیو چپ بندر کے دماغ سے نیورانز کی حرکت کا ڈیٹا لے کر، اس کے وائرلس سنگلز لیبارٹری کمپیوٹر میں بھیج رہی تھی۔ اس ڈیٹا سے سائنسدان یہ اندازہ لگا رہے تھے کہ جب بندر اپنے ہاتھوں کو اور بازووں کے مسلز کو حرکت دینا چاہتا ہے تو دماغ کے کون سے حصے کے کون سے نیورانز کس طرح سپارک ہوتے ہیں۔
برسہا برس کے ایسے تجربات کے دوران یہ سارا ڈیٹا اے آئی پروگرامز کو فیڈ کیا جاتا رہا۔ جس میں آخر کار نیورانز اور مسلز کے تعلق اور طریقہ کار کو بہتر سمجھا جانے لگا یہ اے آئی کمپنیز کا پہلا سنگ میل تھا۔
اب دوسرا چیلنج اس میں یہ تھا کہ مشین کو خود سیکھنے کا موقع دیا جائے کہ وہ دماغ سے آنے والے سگنلز کو کیمپیوٹرز سگنلز میں ٹرانسلیٹ کرے۔ جیسے ہم کسی زبان سے دوسری زبان میں ترجمہ کرتے ہیں، اسی طرح دماغ کے سگنلز کی زبان کو کیمپیوٹر کی زبان میں ٹرانسلیٹ کرے، یعنی اس کے کوڈز لکھے۔
آج اس میں اچھی خاصی کامیابی ہو چکی ہے۔ یعنی اگر انسان یا جس بھی جانور کے دماغ میں یہ چپ لگی ہوئی ہے، وہ کسی کنکٹڈ الیکٹرانک ڈیوائس کو حرکت دینا چاہے تو “بائیو چپ” یہ حکم اس ڈیوائس تک پہنچا دے گی۔ چاہے یہ کوئی مکینکل جسم کا حصہ ہو یا کیمپیوٹر پر ٹائپنگ کرنا ہو یا پھر سمارٹ فون استعمال کرنا ہو۔ تو یہ سوچ سے ہو سکے گا۔ جس طرح چپ ڈیزائن ہو گی، اسی طرح یہ کام کر سکے گا۔ جس ٹکنالوجی سے یہ سگنلز دماغ کے نیورانز سے مشینی زبان بائنری کوڈ میں ٹرانسلیٹ کیے جائیں گے، اسے بی سی آئی “برین کیمپیوٹر انٹرفیس” کہتے ہیں۔
جی ہاں یہ اصل گیم ہے۔
یعنی ایسی کوڈ لینگوئج جو انسانی ذہن کو مشین سے براہ راست لنک کر دے۔مشین اور ذہن ایک دوسرے کی زبان کو سمجھنے لگے۔ یہ ٹکنالوجی اے آئی کے نیورو نیٹ ورک سکول آف تھاٹ نے تیار کر لی ہے۔اب ایسا نہیں کہ یہ مشین کسی انسان کی سوچ پڑھ کر کمپیوٹر پر اس کی فلم چلا دے گی یا آپ کے خوابوں کی ریکارڈنگ کر کے صبح آپ کو شرمندہ کرے گی
یہ سب فلمی اور سائنس فکشن کی باتیں ہیں۔ اس ٹکنالوجی کی آج کے دن تک ڈیویلپمنٹ صرف اتنی ہے کہ ایلون مسک کی نیورالنک ڈیوائس این ون کی طرح کچھ ڈیوائسز بن چکی ہیں جو ان مصنوعی اعضا کو، پروستھیٹک لمبز کو اسی طرح حرکت دے سکتی ہیں جیسا کہ ایک صحت مند ہاتھ یا پاؤں کو انسان دیتا ہے۔ اس کا سب سے زیادہ فائدہ ان لوگوں کو ہو گا جو کسی حادثے میں اپنے اعضا کھو بیٹھتے ہیں۔ ان لوگوں کو ہو گا جو پیرالسِز کے فالج کے یا پھر پارکنسن کے رعشہ کے  مریض ہیں، یا پھر سٹیفن ہاکنگ کی طرح موٹرنیوران کے مسئلے کا شکار ہیں۔ تو یہ سب لوگ مصنوعی اعضا لگا کر، انھیں بالکل صحت مند اعضا کی طرح حرکت دے سکیں گے۔ بلا شبہ یہ اے آئی کا عجوبہ ہے۔
اکتیس جنوری 2024 کو ایلون مسک نے ٹویٹ کیا کہ ان کی کمپنی نیورالنک نے پہلے مریض ایک انسان کے دماغ میں این ون چپ لگا دی ہے۔ لیکن آپ کے ذہن میں رہے کہ اسی “بی سی آئی” ٹکنالوجی پر پچھلی دو دہائیوں سے بہت کام ہو رہا ہے۔ نیورالنک تنہا کمپنی نہیں ہے۔ برین گیٹ، بلیک روک نیوروٹیک، میڈٹرونک، ای موٹیوو اور “برین کو” جیسی کتنی ہی کمپنیز اسی پر کام کر رہی ہیں اور ایسے اعضا بنا رہی ہیں جن کو برین چپ کنٹرول کرتی ہے۔ بس کنفیوژن اتنی ہے کہ یہ ٹکنالوجی ابھی سائنس فکشن اور فلموں میں تو بہت آگے جا چکی ہے، لیکن حقیقت میں ابھی ڈیویلپنگ سٹیج پر ہے۔
کھوپڑی کاٹ کر اس میں الیکٹروڈز کا جال فکس کرنا اور اسے کاسمیٹک سرجری سے پھر دوبارہ یوں فکس کرنا کہ نظر ہی نہ آئے سب سے بڑا چیلنج ہے۔اس کے بعد دوسرا اس سے بھی غالبا بڑا چیلنج یہ ہے کہ کہیں ایسا تو نہیں ہو گا کہ انسان ہیک ہو جائیں؟
کیونکہ آخر کار یہ بائیو چپ کیمپیوٹر اور پراگرام ہی تو ہے۔جب یہ ریڈیو یا بلیو ٹوتھ سگنلز بھیج سکتے ہیں تو یہ ہیک بھی ہو سکتے ہیں۔ یعنی کوئی باہر سے دماغ کو کنٹرول کر سکتا ہے یہ خطرہ ہے۔ بلکہ شاید آپ کے لیے دلچسپ بات ہو، ایلون مسک کی نیورالنک کمپنی نے اپنی پراڈکٹ کا نام ہی ٹیلی پیتھی رکھا ہے۔ جو کہ یقیناً آپ جانتے ہوں گے کہ کسی دماغ کو کنٹرول کرنے کی سوڈو سائنس کا نام ہے۔
اس ٹکنالوجی میں یہ خطرہ رہے گا کہ کوئی دوسرا پروگرام اسے ہیک کر سکتا ہے سو اس ٹکنالوجی کو ابھی اور بہت سے ایسے چیلنجز اور پریکٹیکل ایشوز کا سامنا ہے بیٹریز بھی بہت بڑا پرابلم ہے کہ اسے مستقل چارج کیسے رکھنا ہے۔ لیکن جو بھی ہے اس ٹکنالوجی اور اس جیسی کتنی ہی اے آئی ٹکنالوجیز پر دنیا کے طاقتور ملکوں میں ریس لگی ہوئی ہے۔ خاص طور پر چین اور امریکہ میں۔ ان دونوں میں ایڈوانس اے آئی کے لیے ویسی ہی ٹکنالوجی وار چل رہی ہے جیسی کہ ساٹھ اور ستر کی دہائی میں  روس اور امریکہ میں ایٹم بم اور چاند پر جانے کی ہوا کرتی تھی۔
اب آپ پوچھیے کہ اس ریس میں یہاں کون جیت رہا ہے؟
تو بات یوں ہے کہ چین۔۔۔ امریکہ سے آرٹیفیشل انٹیلی جنس کے کچھ میدانوں میں آگے ہے اور کچھ میں پیچھے۔ لیکن چین کی آگے بڑھنے کی جو رفتار ہے اسے دیکھ کر ایکسپرٹس کہتے ہیں کہ وہ اگلے دس برس میں امریکہ کو اے آئی کے ہر میدان میں، انٹر نیٹ اے آئی، بزنس اے آئی، آٹومیشن اے آئی، بی سی آئی اور ڈیپ ڈیٹا ہینڈلنگ میں پیچھے چھوڑ دے گا۔
کیوں چھوڑ دے گا؟ اس کی کئی وجوہات ہیں۔ ہم صرف تین آپ کے سامنے رکھتے ہیں۔
ایک وجہ تو یہ ہے کہ چین میں ڈیموکریسی نہیں، آزادی اظہار نہیں اس لیے وہ سرکاری سطح پر طاقت کے ساتھ چین کے اندر اور باہر جہاں جہاں اس کا بس چلتا ہے وہاں سے پرائیویٹ ڈیٹا بغیر کسی رکاوٹ کے جمع کر لیتا ہے۔ یعنی چائنیز ایکسپرٹس کو ڈیٹا پرائیویسی میں کسی داخلی قانونی مشکل کا سامنا نہیں۔ کہ کوئی انہیں عدالت میں گھسیٹے گا کہ آپ لوگوں کی پرائیویسی توڑ رہے ہیں ایسا وہاں نہیں ہے۔ اس لیے انٹرنیٹ اے آئی میں، جیسا کہ فیس رکگنیشن اور وائس رکنگیشن میں چین امریکہ سے ساٹھ چالیس کے مقابلے میں آگے ہے۔
دوسری وجہ یہ ہے کہ چائنیز نوجوانوں کی تعداد اور سٹارٹ اپس امریکہ سے بہت زیادہ ہوتے جا رہے ہیں، کیونکہ چینی حکومت نے سکولز میں بہت ابتدائی کلاسز سے اے آئی میں بچوں کو ٹرین کرنا شروع کر رکھا ہے اسکولز میں سپیشل ڈسک قائم ہیں جو بچوں کو چھوٹے سے چھوٹے اور ابتدائی پروگرامز سکھا کر آٹومیشن کرنا، ان کی گھٹی میں ڈال رہے ہیں۔ ایک دس سال کا چینی بچہ ایک امریکی دس سالہ بچے کی نسبت اے آئی کا کہیں بہتر شعور رکھتا ہے۔
تیسری وجہ یہ ہے کہ چائنیز ہیوی ٹچ پالیسی پر کام کرتے ہیں اور امریکہ لائٹ ٹچ پر۔ اب جیسے کہ امریکی کمپنی اوبر سے آپ سب واقف ہیں۔ اس کی ایکوویلنٹ چائنیز ایپ “ڈی ڈی” ہے۔ امریکی کمپنی اوبر کی نہ تو گاڑیاں اپنی ہیں، نہ وہ گاڑیوں کی سروس کرتا ہے اور نہ ہی انھیں آئل فراہم کرتا ہے۔ یہ لائٹ ٹچ ماڈل ہوا۔ جبکہ اس کے مقابلے میں چائنیز ایپ “ڈی ڈی” کے اپنے فیول اسٹیشنز ہیں اور گاڑیوں کی مینٹینس سمیت بہت سی سروسز یہ ادارہ خود فراہم کرتا ہے، آوٹ سورس نہیں کرتا۔ یہی وجہ ہے کہ “ڈی ڈی” کے پاس سروس کو بہتر بنانے کے لیے جو ڈیٹا ہے وہ امریکی اوبر کمپنی کی نسبت بہت ہی زیادہ ہے۔
دوسری مثال ہیوی اور لائٹ ٹچ کی وٹس ایپ اور وی چیٹ ہیں۔ وی چیٹ چائنا کی ویسی ہی ایپ ہے جیسی کہ امریکی میسجنگ ایپ وٹس ایپ۔ لیکن چائنیز وی چیٹ میسیجنگ اور کالز تو کرتی ہی ہے، ساتھ میں یہ مکمل طور پر ایک پرس، وائلٹ بھی ہے، بینک بھی ہے، اس میں اسٹاکس کی خریدوفروخت ہوتی ہے، بل اور ٹیکسز کی ادائیگی ہوتی ہے، ائرلائنز اور ریلوے کی ٹکٹس بک ہوتی ہیں۔ اور تو اور اس میں کئی دوسرے مائیکرو پروگرامز انسٹال ہو سکتے ہیں، ڈیزائن ہو سکتے ہیں اور فروخت بھی اسی میں کیے جا سکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ چائنیز میسجنگ ایپ وی چیٹ کے پاس اپنی ڈیڑھ ارب آبادی سمیت دنیا بھر کا جتنا ڈیٹا ہے، اتنا وٹس ایپ کے پاس ہو ہی نہیں سکتا۔
آج کل آپ دیکھ رہے ہوں گے کہ وٹس ایپ اور ایکس ڈاٹ کام جو کہ امریکی کمپنیز ہیں، وہ دونوں سٹرگل کر رہی ہے کہ کسی طرح ان کی ایپس فائنائنس کو بھی ہینڈل کر سکیں اور دیگر وی چیٹ والے کام بھی کروا سکیں۔
ہم انسان آگ سے کھیلتے ہوئے ایک بار پھر آگ تک آ گئے ہیں۔ اے آئی تک آنا، آگ سے آگ تک کا سفر کیوں ہے؟
اگر آپ نے یہ مکمل آرٹیکل پڑھا ہے تو آپ سمجھ چکے ہوں گے۔ اگر اے آئی کو کنٹرول کر لیا گیا تو یہ انسانیت کو کئی صدیوں کا تحفظ اور تندرستی دے گی۔ یہ ہمیں سپپس میں لے جائے گی۔
اگر یہ کنٹرول سے باہر ہوتی ہے تو انسانیت کے لیے خطرے کی آخری گھنٹی ثابت ہو گی اس کے بارے میں ہر کوئی اپنی رائے دے رہا ہے
تو ہمارا خیال ہے کہ اے آئی کو ہمیں ویلکم کرنا چاہیے اور اس خوف کے بغیر کہ کہیں یہ غلط ڈائرکشن میں نہ چلی جائے، اسے زیادہ سے زیادہ سیکھنا، سکھانا چاہیے۔ کیونکہ اگر یہ غلط ہاتھوں میں بھی جاتی ہے تو ان غلط ہاتھوں کامقابلہ کرنے کے لیے درست ہاتھوں میں بھی یہی ٹکنالوجی ہو گی۔ غلط ہاتھوں میں گئی یا بگڑی اے آئی کا مقابلہ بغیر ایڈوانس اے آئی کے نہیں ہو سکتا۔ اچھے لوگوں کو اے آئی کو دوست بنانا ہو گا تا کہیں ایسا نہ ہو کہ صرف پاورفل بیڈ پیپل اس بے انتہا اہم ٹکنالوجی کے واحد لائسنس ہولڈر بن جائیں۔ اور کمزور ضعیف لوگ مفت میں مارے جائیں۔
بقول اقبال ۔۔۔
تقدیر کے قاضی کا فتویٰ ہے اذل سے
ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات