آزاد مہدی کی ناول نگاری
 لاہور میں راوی پار شاہدرہ کی قدیمی بستی پائی جاتی  ہے جہاں متعدد ادیب، شاعر اور صحافی دانشور بھی مقیم رہے ہیں کسی زمانے میں مجید امجد ، اعزاز احمد آذر ، افتخار مجاز ، سہراب اسلم ، کامریڈ شفیق احمد شفیق جیسے ادیب شاعر بھی شاہدرہ میں رہتے تھے جو اب دنیا سے رخصت ہو چکے ہیں تاہم اب بھی پروفیسر لطیف ساحل ، سلمان رسول اور آزاد مہدی جیسے حلقہ ارباب ذوق کے رکن ادیب و شاعر شاہدرہ کے علاقے میں مقیم ہیں جبکہ صحافی دانشوروں میں سعید اختر ، شفیق بھٹی ، ناصر بٹ ، ناصر آغا ، عمیرناصر بھی راوی پارشاہدرہ اور ملحقہ بستیوں میں رہتے ہیں شاہدرہ میں مقیم صحافیوں میں سے سعید اختر اور ادیبوں میں سے آزاد مہدی داستان گو ہیں کامریڈ سعید اختر تو صرف زبانی کلامی داستانیں سناتے رہتے ہیں البتہ  آزاد مہدی باقاعدہ ناول لکھ کر داستانیں بیان کرتے رہتے ہیں ان کے چند ناول شائع ہو چکے ہیں آزاد مہدی کا پہلا ناول” میرے لوگ ” بک ہوم پبلشرز نے شائع کیا تھا ان کا دوسرا ناول ” اس مسافر خانے میں” تخلیقات پبلشرز جبکہ تیسرا ناول “دلال” گل نوخیز اخترنے چھاپا تھا بلکہ ” دلال” کے تین ایڈیشن چھپے تھے دوسرا ایڈیشن حلقہ ارباب ذوق کے سابق سیکرٹری عظیم اقبال نے شائع کیا تھا ، گل نوخیز اختر نے اپنے اشاعتی ادارے کے تحت ” دلال ” سے پہلے آزاد مہدی کی نثری شاعری کا مجموعہ ” ایک نامکمل نفرت” چھاپا تھا ۔
  شاہدرہ ٹاؤن آزاد مہدی کا آبائی علاقہ ہے اسی علاقے سے ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد انہوں نے ایم اے او کالج سے ایف اے اور اسلامیہ کالج سول لائنز سے بی اے کیا تھا پروفیسر شہرت بخاری ان دنوں سول لائنز کالج میں شعبہ اردو کے سربراہ ہوتے تھے تاہم آزاد مہدی نے ایم اے اردو پرائیویٹ امیدوار کے طور پر پاس کیا تھا کیونکہ بی اے کرنے کے بعد لاہور ایجوکیشن بورڈ میں کلرک بھرتی ہو گئے تھے جہاں ترقی پا کر سپرنٹنڈنٹ کے عہدے سے 21 اپریل 2019 ء کو ریٹائر ہو گئے تھے جس کے بعد اب ناول نگاری کو مکمل وقت دے رہے ہیں ان دنوں”غیر معروف لوگوں کا جہنم “کے عنوان سے ناول لکھ رہے ہیں جس میں یہ غیر معروف تخلیق کاروں کا نفسیاتی تجزیہ کر رہے ہیں ان کے بقول غیر معروف تخلیق کاروں کو یہ بھی معلوم نہیں ہوتا کہ عبقری شخصیت خوش قسمتی پر ایمان نہیں رکھتی ، آزاد مہدی کی کتابوں کے فلیپ بھی معروف اہل قلم نے تحریر کئے تھے “دلال” کا فلیپ مستنصر حسین تارڑ “اس مسافرخانے میں” کا فلیپ ڈاکٹر امجد طفیل جبکہ ایک “دن کی زندگی” کا فلیب غلام حسین ساجد نے لکھا تھا اور ان کی کتابوں کے فلیپ لکھنے والے تینوں ادیب حلقہ ارباب ذوق لاہور کے سیکرٹری رہ چکے ہیں ۔
آزاد مہدی نے ادبی سرگرمیوں کا آغاز شاہدرہ میں حلقہ احباب ادب و فن سے کیا تھا جس کی ہفتہ وار نشستوں میں پروفیسر لطیف ساحل ، سہراب اسلم اور ابر کاشمیری وغیرہ شریک ہوتے تھے آزاد مہدی نے شاعری سے آغاز کیا مگر اوزان اور بحور پر عبور نہ پانے کی وجہ سے شاعری کا بھاری پتھر چوم کر چھوڑ دیا تھا اور افسانے لکھنا شروع کر دیئے تھے ان کے چند افسانے شائع بھی ہوئے تھے پھر شاعری کے بعد انہوں نے افسانہ نگاری بھی ترک کر کے ناول نگاری شروع کر دی تھی اور اب ناولوں میں ہی نثری شاعری کا شوق بھی پورا کر لیتے ہیں حلقہ احباب ادب و فن کے بعد آزاد مہدی نے چائنیز لنچ ہوم میں منعقد ہونے والے حلقہ تصنیف ادب کے اجلاسوں میں شریک ہونا شروع کر دیا تھا افسانہ و ناول نگار محمد عاصم بٹ بھی اس زمانے میں آزاد مہدی کے ساتھ حلقہ تصنیف ادب کے اجلاسوں میں شریک ہوتے رہے تھے ، چائنیز لنچ ہوم میں آزاد مہدی افسانے لکھتے پڑھتے اور بزرگ افسانہ نگار فضل الرحمان خان سے مشورے لیتے رہے تھے ۔
 چائنیز لنچ ہوم میں ہی آزاد مہدی کی جواز جعفری سے ملاقات ہوئی تھی وہی انہیں پہلی بار پاک ٹی ہائوس میں لے کر گئے تھے اور انہیں زاہد حسن سے ملوایا تھا جن کے ساتھ آزاد مہدی کی دوستی اب تک برقرار ہے پاک ٹی ہاؤس کی گیلری میں ہی حلقہ ارباب ذوق کے اجلاس  ہوتے تھے جن میں آزاد مہدی بھی شریک ہوتے رہے اور 2004 ء میں جب عامر فراز حلقے کے سیکرٹری تھے تو آزاد مہدی نے اپنے ناول کے ابواب تنقید کیلئے پیش کئے تھے جس پر انہیں حلقے کا رکن بنا لیا گیا تھا ان کے رکنیت فارم پر تجویز کنندہ اور تائید کنندہ کے طور پر شفیق احمد خان اور احمد فرید نے دستخط کئے تھے آزاد مہدی کو حلقہ ارباب ذوق کارکن بنانے پر محمد خالد گروپ نے سخت اعتراض کیا تھا بلکہ پروفیسر محمد خالد تو سیکرٹری عامر فراز سے لڑ پڑے تھے اور ہنگامہ کر ڈالا تھا جس پر عامر فراز کو بھی غصہ آگیا تھا اور انہوں نے پروفیسر محمد خالد کو چیلنج کردیا کہ وہ آزاد مہدی جیسی چند سطریں لکھ کر دکھا دیں ۔ 
 حلقہ اربان ذوق میں ہم نے بھی آزاد مہدی کے ناولٹ اس مسافر خانے میں کے 2 باب سنے تھے اور ان کی تخلیق اس قابل تھی کہ انہیں حلقے کا رکن بنایا جاتا بلکہ یاد آیا کچھ عرصہ بعد پاک ٹی ہائوس کی گیلری میں ہی آزاد مہدی کی زیر صدات ہونے والے حلقہ ارباب ذوق کے  اجلاس میں ہم نے اپنا مضمون تنقید کے لئے پیش کیا تھا ان دنوں زاہد حسن سیکرٹری اور عامر رانا جوائنٹ سیکرٹری تھے جنہوں نے اس اتوار کو راشد حسن رانا کی زیرصدارت حلقے کا اجلاس رکھا تھا مگر راشد حسن رانا اس روز اسلام آباد سے لاہور بروقت نہ پہنچ سکے تھے جس پر اجلاس کی صدارت  کے لئے آزاد مہدی کی خدمات حاصل کی گئی تھیں ہمارے مضمون کا عنوان ” عقرب ادیب ” تھا بعد ازاں ہم نے زاہد حسن کے سیشن میں ہی “تمباکو نوش دانشور” کے عنوان سے حلقے میں ڈاکٹر ضیاءالحسن کی زیر صدارت دوسرا مضمون تنقید کے لئے پیش کیا تھا ہمارے دونوں مضامین طنزومزاح پر مبنی تھے جن پر ہمیں اسی سیشن کے اختتام پر حلقہ ارباب ذوق کی رکنیت دے دی گئی تھی قبل ازیں سیکرٹری احمد فرید نے جب اپنے سیشن کے دوران پاک ٹی ہاؤس میں حلقے کی جانب سے عطاء الحق قاسمی کی زیر صدارت شام طنزمزاح منائی تھی تو اشفاق ورک ، ناصر خان اور غالبا بابر جاوید کے ساتھ ہم نے بھی مضمون پڑھا تھا ۔   

سرگودھا یونیورسٹی کے طالبعلم اور فیصل آباد خواتین یونیورسٹی کی طالبہ نے آزاد مہدی کی ناول نگاری پر ایم اے جبکہ لاہور کے کوپر روڈ گرلز کالج کی طالبہ نے بی ایس کا تحقیقی مقالہ تحریر کیا ہے تاہم آزاد مہدی کو ابھی تک کوئی ایوارڈ نہیں مل سکا ان کا ناول “پیرو”ان دنوں زیرطبع ہے جسے سلیکھ پبلشرز چھاپ رہے ہیں  یہ ناول اردو زبان میں ہے البتہ آزاد مہدی کو اسے پنجابی زبان میں ڈھالنے کا مشورہ بھی دیا گیا تھا ، الیاس گھمن اور افضل ساحر بھی ان سے پنجابی زبان میں لکھنے کا مطالبہ کر چکے ہیں ان کا بھی پنجابی میں ناول لکھنے کو جی چاہتا ہے بلکہ اسے خود پر قرض سمجھتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ یہ قرض جلد اتار دیں گزشتہ دنوں انہوں نے سکیرت سنگھ آنند ، وریام سنگھ سندھو ، مقصود ثاقب اور نجم رضوی کے ساتھ ملاقات کے بعد مادری زبان پنجابی کے حوالے سے فیس بک پر چند سطریں لکھی تھیں۔۔۔
“جب میں پیدا ہوا تو پنجابی میں باتیں ہو رہی تھیں جب میں دفنایا جا رہا تھا تو لوگ پنجابی میں باتیں کر رہے تھے مجھے محسوس ہوتا ہے کہ میری زندگی کا درمیانی حصہ نقلی تھا!”(جاری)