بیساکھی میلہ کے شرکاء کا قتل عام:  سانحہ جلیانوالہ باغ  

  کرنل ڈائیر کو پنجاب کے پیروں،مخدوموں اور سجادہ نشینوں کی طرف سے خراج تحسین پیش کیا گیا تھا

ڈائیر کوعام طورپر جنرل کہا جاتا ہے حالانکہ وہ برٹش انڈین آرمی میں کرنل تھا۔بریگیڈئیرکا عہدہ اس کو عارضی طور پردیا گیا تھا۔ جنرل ڈائیرجس کا پورا نام رگنلڈ ایڈورڈ ہیری ڈائیر تھا موجودہ پاکستان کے شہرمری میں پیداہواتھا۔ اس کے والد نے مری بروری کے نام سے گھوڑا گلی میں شراب کی چھوٹی سی فیکٹری قائم کی ہوئی تھی جو برطانوی فوجیوں کی شراب کی ضروریات پوری کرتی تھی۔ڈائیر نے ابتدائی تعلیم گھوڑا گلی کے لارنس سکول اورشملہ کے بشپ کاٹن سکول میں حاصل کی تھی۔بعد ازاں وہ مزید تعلیم کے لئےبرطانیہ چلا گیااورگریجوایشن کے بعد اس نے برطانوی فوج میں کمیشن حاصل کیاتھا۔تھوڑے عرصے کے لئے وہ بلفاسٹ میں تعینا ت رہا اورپھر اسے برٹش انڈین آرمی میں ٹرانسفر کر دیا گیا۔اس کی پہلی اسائنمنٹ بنگال رجمنٹ میں تھی۔پھر وہ 29۔ پنجاب رجمنٹ میں آگیا اوراپنے فوجی کئیریر کے اختتام تک پنجاب رجمنٹ سے ہی منسلک رہا تھا ۔

کچھ مورخین کا موقف ہے کہ جلیانوالہ باغ کا واقعہ محض کرنل ڈائیرکی  شوریدہ سری اورفرعونیت کا نتیجہ تھا حالانکہ معاملہ اس کے باکل الٹ تھا۔جلیانوالہ باغ کے سانحہ کا اصل ذمہ دار گورنرپنجاب کے سرمائیکل اوڈوائیر تھا۔ ہمارے ہاں عام طور ہر کر نل ڈائیر اور گورنر اوڈوائیر کو باہم غلط ملط کر دیا جاتا ہے اوربعض لوگ انھیں ایک ہی شخصیت سمجھتے ہیں حالانکہ ایک فوجی افسر تھا تو دوسرا سول سرونٹ۔ مائیکل اوڈوائیر نے برٹش انڈین سول سروس جائن کی تو اس کی پہلی پوسٹنگ شاہ پور(سرگودھا) میں ہوئی تھی۔اوڈوائیرلینڈریونیو سے متعلق امورکاماہرخیال کیا جاتا تھا۔اس نے بھرت پوراورالور کی ریاستوں میں ریونیو امورکو منظم کیا تھا۔وہ  ریاست حیدرآباد میں بھی تعنیات رہاتھا۔وائسرے ہند لارڈ کرزن نےاپنی فارورڈ پالیسی کے تحت جب شمال مغربی سرحدی صوبہ ( کے پی کےبنایا تو اس کا ریونیو کمشنراوڈوائیرہی کو مقررکیاتھا۔اوڈوائیرمئی1913ساےمئی 1919تک پنجاب کا گورنررہا تھا۔اوڈوائیر نے پنجاب میں دیہاتی اورشہری آبادی کی تقسیم کا نظریہ متعارف کر ایا تھا۔اس کا خیال تھا کہ پنجاب کے تعلیم یافتہ لوگ جن میں مسلمان،ہندواورسکھ سبھی شامل تھے ہمہ وقت انگریز سرکار کے خلاف سازشوں میں مصروف رہتےتھے۔ یہی وہ مائنڈ سیٹ اور خوف تھا جس کے تحت بریگیڈئیر جنرل ڈائیر نے جلیانوالہ باغ می ںوساکھی(13-اپریل1919) کے موقع پر جمع ہونے والےمجمع پر اندھا دھند گولیاں برسائی تھیں۔مورخین کا کہنا ہے کہ جلیانوالہ باغ کے واقعہ کے بعد انگریزوں کا ہندوستان میں رہنا ناممکن ہوگیا تھا۔

جلیانوالہ باغ کے سانحہ کے بعد بریگیڈئیر جنرل ڈائیرکو اس کی فوجی ذمہ داریوں سے علیحدہ کردیاگیااوروہ ہندوستان چھوڑکرانگلستان چلا گیا تھا۔وہاں کے قدامت پسندحلقوں نے برطانیہ واپسی پراس کا بھرپوراستقبال کیاتھا۔ برطانوی سول سرونٹس اورسابق فوجیوں نے اس کے لئے امدادی فنڈ قائم کیا جس میں 26000 ہزارپونڈز جمع ہوئے تھے جو ڈائیر کو اس کی’خدمات‘کے صلے میں بطور انعام دیئے گئے تھے لیکن جلیانوالہ باغ میں ہلاک ہونے والے ہندوستانیوں کے ورثا کو صرف پانچ سو روپے فی کس معاوضہ دیا گیا تھا۔ جلیانوالہ باغ کے قتل عام پر کرنل ڈائیر کو پنجاب کے پیروں،مخدوموںاور سجادہ نشینوں کی طرف سے خراج تحسین پیش کیا گیا تھا۔اپنے اس سپاس نامے میں پنجاب کے بڑے بڑے پیروں اورسجادہ نشینوں نے کرنل ڈائرکی’جرات او ربہادر  ی‘کی تعریف وتحسین کی تھی۔ گولڈن ٹمپل(دربارصاحب)امرتسر کے ہیڈ گرنتھی نے کرنل ڈائیر کودربارصاحب مدعو کیااور اسے سکھ مت قبول کرنے کی دعوت دی تھی۔ڈائیر نے کہا کہ وہ تو چین سموکر ہے جب کہ سکھ مت میں تمباکو نوشی گنا ہ ہے تو ہیڈ گرنتھی نے کہ سگریٹ نوشی وہ بھلے نہ چھوڑےبس یہ وچن دے دےکہ وہ ہر سال ایک سگریٹ کم کردےگا تو وہ اسے سکھ مت قبول کرنے کی اجازت دینے کے لئے تیارہے۔سانحہ جلیانوالہ باغ کے بعد آٹھ سال زندہ رہا اور1927 میں باسٹھ برس کی عمر میں فوت ہوا ۔ اس کے برعکس مائیکل اوڈوائیر کو ادھم سنگھ نے لندن میں ایک جلسے کے دوران گولی مارکر قتل کیا تھا۔قتل کےوقت اوڈوائیرکی عمر پچھتر بر س تھی۔اس قتل کی پاداش میں اودھم سنگھ کو سزائے موت دی گئی تھی۔