شہید  بھٹو اور عمران نیازی کی جیل میں قید کا  تقابلی جائزہ

 عمران خان کے لیے سات سیل مختص ہیں،  بھٹو شہید کو سات بائی دس فٹ کی کوٹھری میں قید کیا گیا تھا

لاہور ہائی کورٹ میں عمران نیازی کو جیل میں دی گئی سہولتوں کی رپورٹ کے مطابق موصوف کے لیے جیل میںکیے گئے ہیں، جہاں پندرہ اہلکار تعینات کیے گئے ہیں، جن پر ماہانہ 12 لاکھ روپے خرچ آتا ہے۔ اس کے علاوہ سکیورٹی کے لیےلگائے گئے کیمروں پر 5 لاکھ روپےکا خرچ آیا ہے۔
عمران نیازی کے لیے کھانا اسپیشل کچن میں بنتا ہے اور اس کچن میں کسی دوسرے کے لیے کچھ نہیں بنتا۔ یہ کھانا اسسٹنٹ سپرنٹنڈنٹ جیل کی نگرانی میں تیار کیا جاتا ہے، عمران نیازی کو کھانا فراہم کرنے سے قبل میڈیکل افسر یا ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ جیل کھانے کا معائنہ کرتا ہے۔ عمران نیازی کی سکیورٹی پر ماہانہ 12 لاکھ روپے کے علاوہ اس کے صحت افزا کھانے پر ماہانہ پونے چھ لاکھ روپے کا اضافی خرچہ آتا ہے۔
جیل کے میڈیکل افسر کے علاوہ راولپنڈی کے ایک اسپتال کے چھ ڈاکٹر عمران نیازی کے طبی علاج کے لیے تعینات ہیں۔ راولپنڈی کے ایک دوسرے اسپتال کے اسپیشلسٹس کی ٹیم جیل کا ہفتہ وار دورہ کرتی ہے۔ اسپیشلسٹس کی ٹیم ضرورت پڑنے پر عمران نیازی کا چیک اپ کرتی ہے۔
عمران نیازی کی چہل قدمی کے لیے جیل میں ایک خاص جگہ فراہم کی گئی ہے، جیل میں ورزش کے لیے مشینیں اور دیگر اشیا فراہم کی گئی ہیں۔
عمران نیازی کے برعکس ذوالفقار علی بھٹو شہید کو ایک سات بائی دس فٹ کی کوٹھری میں قید کیا گیا تھا۔ اُنھیں مضر صحت اور کُھلا ٹائیلٹ استعمال کرنے پر مجبور کیا گیا، جو کوٹھری کے اندر تھا، جس کی وجہ سے انھیں بدبو سہنی پڑتی۔ کسی طرح کا تخلیہ میسر نہ تھا۔ جب وہ ٹائیلٹ استعمال کرتے تو ایک پہرے دار ان کی طرف منہ کیے کھڑا رہتا۔ بھٹو شہید کو یہ بات اتنی ناپسند تھی کہ وہ بعض اوقات کھانا تک بند کر دیتے تھے تاکہ انہیں بیت الخلا جانے کی ضرورت ہی نہ پڑے۔
بھٹو شہید کو ریت ملی روٹی دی جاتی تھی۔ اُن کا وزن نوے پاؤنڈ تک کی انتہائی حد تک گر گیا تھا۔ ہاتھ پاؤں سوج گئے تھے، مسوڑے میں پس پڑ گئی تھی، جس کی وجہ سے شدید درد رہتا تھا۔ ہر وقت پیٹ میں مروڑ اُٹھتے رہتے تھے اور کرب کی کیفیت کبھی ختم نہ ہوتی تھی۔
بھٹو شہید کو پھانسی چڑھنے سے پہلے متعدد بار مرنا پڑا۔ جس کا غدار وطن جنرل ضیاءالحق نے پورا پورا انتظام کر رکھا تھا۔ بھٹو شہید کی قوت ارادی توڑنے کے لیے ہر حربہ آزمایا گیا۔ ان کی ہر لمحہ تذیل و توہین کی گئی اور ان کے ساتھ انتہائی بے رحمی کا سلوک کیا گیا۔ بعض گواہیوں کے مطابق اُنھیں متعدد بار تشدد کا نشانہ بھی بنایا گیا۔ ایک بریگیڈیئر کو بھٹو شہید کی کوٹھری کے سامنے والی کوٹھری میں بٹھا دیا گیا تھا۔ اس بدبخت کا کام صرف بھٹو شہید کو گالیاں دینا تھا تاکہ بار بار انھیں غصہ دلا کر پاگل کر دیا جائے۔ ضیاع مردود کا بھیجا ہوا وہ بدبودار بریگڈیئر بھٹو شہید کی والدہ کے خلاف بھی انتہائی ناشائستہ زبان استعمال کرتا تھا۔ وہ ہمہ وقت طعنے دیتا رہتا  تاکہ بھٹو شہید ردعمل ظاہر کرنے پر مجبور ہو جائیں۔ بھٹو شہید بیشتر وقت تحمل سے کام لیتے لیکن کبھی کبھی اُنھیں جلال بھی آ جایا کرتا۔ اس پر بریگڈیئر ان پر قہقہے لگاتا اور اپنی گالیوں کی بوچھاڑ مزید تیز کر دیتا۔ فوجی جرنیل بھٹو شہید کو نفسیاتی طور پر مفلوج کرنے پر پوری طرح تُلے ہوئے تھے۔
بھٹو شہید ہمالیائی ظلم و ستم برداشت کر گئے اور رتی برابر نہ جھکے کیونکہ اُنھیں تاریخ کی عدالت پر مکمل یقین تھا اور وہ اس عدالت میں سربلند ٹھہرے۔ وہ اپنی موت کے بعد امر ہو گئے۔ یہ بھٹو شہید کی موت ہی تھی، جس نے بھٹو شہید کو ہمیشہ کے لیے زندہ کر دیا۔
دیدہ دلیر بھٹو شہید اور ایک بار پھر سے سلیکٹ ہونے کے لیے تڑپنے والے بُزدل عمران نیازی میں بنیادی فرق یہ ہے کہ بھٹو شہید کو ایک جھوٹے قتل کے مقدمے میں قید کر کے تختہ دار پر چڑھایا گیا لیکن عمران نیازی غداری سمیت مختلف جرائم میں قید بامشقت کاٹ رہا ہے۔ مزید برآں، بھٹو شہید نے پاکستان کو آئین دینے اور ہر شعبے کو ترقی کے راستے پر گامزن کرنے کے علاوہ ملک کو صرف ایٹمی پاور ہی نہیں بنایا بلکہ بھارت سے شکست کے دوران اپنی پینٹیں چھوڑ کر آنے والے اُن ترانوے ہزار کا بھی محسن تھا جن محسن کشوں کو اُنھوں نے بھارت کی قید سے چھڑوایا تھا لیکن عمران نیازی نے پاکستان کے ہر شعبے کو تنزلی کی اتھاہ گہرائیوں میں گرانے کے علاوہ اُن کی پٹینٹیں چوکوں میں لہرا دیں، جنھوں نے عمران نیازی کو سلیکٹ کیا اور پروپیگنڈے کے طوفاں برپا کر کے دولے شاہی چوہوں کی شدید برین واشنگ کر دی ہے۔