عالم بالا میں  مارکس اور مودودی کا مکالمہ

عالم بالا میں آج خاصا اچھا موسم ہے۔۔۔۔۔۔سبزے پر دھری آرام کرسی پر حضرت کارل مارکس اپنی خشخشی داڑھی کو کھرکتے ہوئے سگار کے شغل میں مصروف ہیں۔۔سگار کی چس حضرت مارکس کو خیالات کی دنیا میں کھینچ لائی ۔۔۔مارکس نے سوچا۔
“میں ساری زندگی غیر طبقاتی سماج کا درس دیتا رہا مگر آج جس جگہ نعمتوں سے محظوظ ہو رہا ہوں وہ بھی طبقاتی تقسیم کا ہی نتیجہ بس فرق یہ ہے کہ یہ تقسیم مادی نہیں روحانی ہے۔۔۔۔”
مارکس نے خیالات کو سگار کے ایک اور کش سے لوڈ کیا۔۔
اتنے میں مودودی چہل قدمی کرتے ہوئے پاس سے گزرے ۔۔۔۔مارکس کو سوچ میں ڈوبے دیکھا تو بولے۔۔۔
کیا ہوا حضرت ۔۔۔کس سوچ میں غرق ہیں۔۔۔کیا ہوا آپکی اشتراکیت کا۔۔۔۔
مارکس مودودی کا طنز سمجھ گئے اور ترکی بہ ترکی جواب دیا۔۔۔
“وہی جو آپکی کے سیاسی اسلام کا ہوا ہے ویسا ہی حال میری اشتراکیت کا بھی ہے۔۔۔۔”
آج کچھ مزاج سڑا سڑا سا لگ رہا خیریت تو ہے۔۔۔
مودودی نے استفسار کیا۔۔۔تو مارکس نے اپنے قریب دھری آرام کرسی کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا۔۔۔۔
آو بیٹھو مودودی ۔۔۔کیا بتاؤں۔۔۔سوچ رہا تھا۔۔
“کہ طبقاتی تقسیم انسان کا صرف دنیا میں ہی نہیں آخرت میں بھی پیچھا نہیں چھوڑ رہی ۔۔۔اب دیکھو ۔۔۔جنت میں بھی طبقات ہیں۔۔۔کوئی جنت المعلیٰ میں ہے تو کوئی جنت نعیم میں کسی کو جنت الفردوس میں محل الاٹ ہوا ہے۔۔۔جنت الفردوس والے بھی کسی زاہد پرولتاریہ سے کم تو نہیں۔۔۔نیکیوں کی کرنسی والے بھی اپنی کرنسی کے مطابق ہی نعمتوں سے لطف اندوز ہوسکتے ہیں۔۔۔کسی کو ستر حوریں۔۔۔کسی کو یاقوت مرجان کے محلات تو کوئی فقط سونے کے تخت پر گزارا کر رہا ہے ۔۔۔کوئی بغل میں حوروں کو دابے ہے تو کسی کے نصیب میں فقط خدمت گزار غلماں۔۔۔۔”
یار دیکھو مودودی جنت تو کیا جہنم میں بھی طبقاتی تقسیم ہے۔۔۔کوئی آگ پر روسٹ ہو رہا ہے ۔۔۔۔کوئی ابلتے تیل میں فرائی ۔۔۔تو کسی کو صرف آگ کے جوتے ہی بطور سزا پہنائے جارہے ہیں۔۔۔۔۔”
مودودی حیدرآبادی پان تھوکتے ہوئے بولے ۔۔۔
“حضرت آپ ویسے ہی طبقاتی تقسیم کے پیچھے پڑے رہے ۔۔۔یہ تھا ہی فطرتی نظام ۔۔۔۔اب تک آپ کو احساس ہو جانا چاہے تھا کہ آپ غلط ہیں۔۔۔”
“ابے چھوڑو مودودی ۔۔۔تم کیا فطرتی نظام کے پاٹ مجھے پڑھاؤ گے تمھارا سیاسی اسلام بذات خود کتنا غیر فطری تھا۔۔۔۔۔مگر اس کے چکر میں تم میری اشتراکیت کو بھی رگڑتے رہے۔۔۔مگر یہ ایک بات بھول گئے ۔۔۔۔تمھاری اسلامی ریاست آج تک قائم نہیں ہوسکی ۔۔۔
مودودی نے جوابا کہا۔۔۔
“قبلہ ایک بات تو ہم دونوں میں قدرے مشترک ہے کہ ۔۔۔آپ کے شوشلزم اور میری خلافت ایمان بالغیب کا تقاضا کرتے ہیں۔۔۔نہ تو آپ کی اشتراکیت کو انسانی آنکھ دیکھ پائی اور نہ میرے اسلامی سیاسی نظام کو۔۔۔”
“کیا کروں یار میرے سوشلزم کو سٹالن ٹکر گیا تمھارے اسلام کو ضیاء الحق اور دونوں نے ایک جیسا ہی کباڑہ نکالا ۔۔۔”
اچھا حضرت آپ کو میرے سیاسی اسلام سے اتنا اختلاف کیوں ہے۔۔
“اختلاف چھوٹا لفظ ہے عناد کہو ۔۔”
مارکس نے سڑیل لہجے میں مودودی کو کہا۔۔۔
“دیکھو یار لوگوں کو یا تو مذہب کی افیون پلائی جاتی ہے یا سیاست کی چرس ،تم نے افیون ملی چرس ہی پلا دی اپنے پیرو کاروں کو۔۔۔۔۔۔”
میں کچھ سمجھا نہیں حضرت ۔۔۔
“اب سمجھنے کی ضرورت بھی نہیں ہے ۔۔۔۔۔۔یہاں نہ تو باطل ہے اور نہ سرمایہ دار ۔۔۔جس کے خلاف بول کر ہم ذہنی ٹھرک پوری کرسکیں ۔۔۔کتنی بورنگ ہے یہ جگہ۔۔۔استحصالی طبقے کی قدر تو مجھے اب آرہی ہے۔۔۔جب تک وہ تھا میرا منجن بھی بک ہی جاتا تھا۔۔۔”
مارکس نے اکتائے ہوئے لہجے میں کہا ۔۔۔
“چھوڑیں حضرت ہم نے جو اکھاڑنا تھا اکھاڑ لیا۔۔۔۔دونوں ہی افسانوی خیالات کا پیروکار بنا آئے ہیں عوام کو۔۔۔۔اب چھوڑیں یہ نظریاتی باتیں ۔۔۔اور جنت کو انجوائے کریں۔۔۔”
مودودی صاحب نے حیدرآبادی پان کی ٹکی کو سنوارتے ہوئے مارکس سے کہا۔۔۔
جو پاس سے گزرتی بڑی آنکھوں والی سرخ ساڑھی پہنے حور کے حسن میں گم ہو گے تھے ۔