روزمرہ زندگی کے توہمات اور اس کے اسباب
 وہم کا کوئی علاج نہیں مگرترقی یافتہ  ممالک کے شہری بھی توہمات پر یقین رکھتے ہیں

اکثر بڑے بوڑھوں سے سنتے ہیں کہ منہ سے ہمیشہ اچھی بات نکالو۔۔۔یعنی اچھی بات، مثبت سوچ اورمثبت رویے انسان کی زندگی اور حالات پر گہرے اثرات رکھتے ہیں۔اکثریہ بھی سننے میں آتاہے کہ آنے والا وقت کسی نے نہیں دیکھا اوریہی اَن دیکھا خوف، وہم اورکمزور عقائد کو جنم دیتا ہے۔کسی بھی معمولی یا غیرمعمولی واقعے کے بعد یہ خیال کرنا کہ اس کی وجہ سے کچھ براہونے والاہے، اسے خوش قسمتی یا بدنصیبی سے منسوب کر لینا وہم یا توہم پرستی کہلاتا ہے۔

جس طرح بعض حالات میںانسان یہ یقین کر بیٹھتا ہے کہ اس کے ساتھ کچھ برا ہوگا ،اسی طرح اگراس کا یہ یقین پُختہ ہوجائے کہ کچھ برا نہیں ہوگا تویقین مانیں، اس کے ساتھ کچھ برا ہو ہی نہیں سکتا کیونکہ اللہ تعالیٰ انسان کو اس کے گمان کے مطابق عطاء کرتا ہے لیکن ہوتا یہ ہے کہ اگر کبھی کسی وجہ سے کسی کے ساتھ برا ہوجائے تو وہ اس کی مختلف وجوہات تلاش کرنے لگتا ہے اورپھر عقل حقائق تک پہنچنے میں ناکام ہوجاتی ہے تو الٹے سیدھے مفروضے قائم کرلئے جاتے ہیں یعنی اکثرلوگ اپنے ساتھ پیش آنے والے اچھے برے واقعات کومافوق الفطرت عناصر سے منسوب کر لیتے ہیں کہ ایسافلاں چیزیا واقعے کی وجہ سے ہوا ہے اور پھربدگمان ہوجاتے ہیں ۔

کسی نے سچ ہی کہا ہے کہ وہم کا کوئی علاج نہیں ہے۔ اگرچہ ہم اکیسویں صدی میں زندگی گزار رہے ہیں مگر ہمارے سوچنے کا اندازاور رویے کسی بھی طرح سائنس اور ٹیکنالوجی کے اس جدید دور سے مطابقت نہیں رکھتے بلکہ ہمارے بہت سے عقائد آج بھی پتھر کے زمانے کی طرح بے بنیاد اور عقل سے متصادم ہیں۔
وہم کیا بلا ہے؟

وہم ایک ایسا گمان ہے کہ مرد اور عورت، دونوں ہی اس کا شکارہوجاتے ہیں مثلاً کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ اگر کہیں جاتے ہوئے کالی بلی سامنے سے گزر جائے تو سمجھیں جس کام کے لئے جا رہے ہیں، اس میں ناکامی ہوگی۔ بعض لوگ منگل کے روز سفر کرنا ، شادی یا کوئی اور خوشی کی تقریب رکھنا بدشگونی سمجھتے ہیں۔ کسی چیزکو کاٹے بغیر قینچی کو کھولنا اوربندکرنابھی جھگڑے کاباعث سمجھاجاتا ہے ، اسی طرح اگرجوتا الٹا ہوجائے تو اس کا مطلب یہ لیا جاتا ہے کہ گھریلو ناچاقی ہوگی ۔ دوبہنوں،دوبھائیوں یا دو بہن بھائیوں کی شادی ایک ساتھ کرنا بھی ایک کے لئے منحوس سمجھاجاتا ہے۔

بعض گھرانوں میں شادی بیاہ کے لئے تین، تیرہ یا تئیس تاریخ رکھنے سے بھی گریز کیاجاتا ہے۔ ہاتھ کی ہتھیلی میں خارش ہو تو یہ پیسے گم ہونے یا غیر متوقع اخراجات کی علامت ہے ۔ اگر پاؤں کی ہتھیلی میں خارش ہویاغلطی سے ایک جوتا دوسرے پر رکھ دیا جائے تواسے غیرمتوقع یا پریشانی کے عالم میں سفر کی طرف اشارہ سمجھا جاتا ہے۔ اگر چھت پر کوا کائیں کائیں کرے توکہا جاتا ہے کہ   کوئی مہمان آنے والا ہے۔

رات کو بلیوں کے رونے کی آواز منحوس، بیٹی کو جہیز میں تالا، قینچی، چھری اور نیل کٹر وغیرہ جیسی روزمرہ استعمال کی اشیاء دینا بدقسمتی , آنکھ پھڑکنا، کانچ ٹوٹنا، الوکا بولنا، برتن ٹوٹنا اورپالتو جانور یا پرندے کا اچانک مرنا کسی مصیبت یا آفت کااشارہ دیتے ہیں۔ حتیٰ کہ شادی شدہ عورت کی سونی کلائیاں ،اس کے شوہر کی زندگی پربھاری سمجھی جاتی ہیں۔ اسی طرح شادی کے بعد کسی لڑکی کے سسرال میں کچھ برا ہوجائے تو نئی نویلی دلہن کوبدنصیب قرار دے دیاجاتا ہے۔
گھرسے کسی کام کے لئے جائیں اور ناکامی کاسامنا کرناپڑے تو کہہ دیا جاتا ہے پتا نہیں صبح کس کی شکل دیکھ لی تھی اور پھر جس کی شکل دیکھی ہواسے دل ہی دل میں منحوس مان لیتے ہیں۔ کوئی خوبصورت لگے تو اس کی نظر اتارنے کے لئے کالا ٹیکا لگانا مبارک سمجھاجاتا ہے،اسی طرح کسی قیمتی چیز کوبری نظرسے بچانے کے لئے کالاکپڑایاجوتاباندھ دیا جاتا ہے جبکہ ہمارے ہاں کئی گھرانے ایسے ہیں جہاں عورتوں کا سیاہ لباس پہننامنحوس سمجھا جاتا ہے ، شیر خوار بچوں کو پنگھوڑوں میں ڈالنا بچے کی جان کے لئے خطرہ تصور کیاجاتا ہے۔
توہم پرستی کا جہالت سے گہرا تعلق ہے
ماہرین  نفسیات  کے مطابق ’’ہمارے ہاںاکثر وہم اور توہم پرستی کو ہندووانہ سوچ اور عقائد قرار دیا جاتا ہے لیکن ہم یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ برِصغیر میں مسلمان اور ہندو ہی ایک ساتھ نہیں رہتے تھے بلکہ وہاں انگریزوں کی حکومت بھی تھی جووہم اور توہم پرستی میں کسی سے پیچھے نہیں اور چونکہ پاکستان اور بھارت میں مغربی تہذیب کا ایک گہرا عکس نظرآتا ہے اس لئے یہاں کے لوگوں نے بھی ایک دوسرے کی دیکھا دیکھی یہی وہم پال لئے توہم پرستی کا تعلیم یافتہ ہونے یا نہ ہونے سے کوئی تعلق نہیں۔ اکثریہ بھی کہاجاتا ہے کہ پاکستان اور بھارت میں کم شرح تعلیم کی وجہ سے لوگوں میں ایسے کمزور عقائد مضبوط جڑوں کی شکل میں پھیلے ہوئے ہیں”۔

حقیقت تو یہ ہے کہ اگر ہم یورپین لٹریچر، تاریخ اور ان کے طرزِ بودوباش کا گہرائی سے مطالعہ کریں تو پتا چلتا ہے کہ وہ لوگ نمبر  13 کو اس قدر منحوس سمجھتے ہیں کہ طویل المنزلہ عمارتوں میں 12ویں منزل کے بعد 13 ویں منزل نہیں بنائی جاتی اور    12 کے فوراً بعد 14ویں منزل آجاتی ہے۔ کئی بین الاقوامی ایئر لائنز میں13ویں قطار موجود ہی  نہیں ہوتی۔ اسی طرح مہینے کی 13تاریخ کو اگر جمعہ کادن آجائے تو اسے’’ بلیک فرائی ڈے‘‘ قرار دے کر خصوصی عبادات کا اہتمام کیاجاتا ہے اور اپنے اپنے خداؤں سے معافی اور خیر و بھلائی کی دعائیں کی جاتی ہیں۔ اگر دیکھا جائے تو ہمارے مذہب اور کلچر میں ایسے کمزور عقائد کی قطعاً گنجائش نہیں لیکن ہم سینکڑوں سال ہندوؤں اور انگریزوں کے ساتھ رہنے کے بعد ان سے الگ تو ہوگئے مگر ہمارا رہن سہن اور سوچنے کا انداز اور خصوصاً عقائد اسی کلچر کی جھلک پیش کرتے ہیں اور خصوصاً ہندومذہب ایسے ہی کمزور عقائد پر مبنی ہے۔ کالی بلی کا راستہ کاٹنا، برتن ٹوٹنا، الوبولنا، کالا ٹیکا لگانا اور آندھی طوفان کو اپنی بدقسمتی کا پیغام سمجھنا انہی کمزور عقائد کاحصہ ہے ۔
بالی ووڈ کے ستارے اور حسینائیں جنہیں پاکستان میں بھی خاصی پذیرائی حاصل ہے ، ان کی زندگی سے جڑے کمزور عقائد بھی ان کے پرستاروں کے لئے قابلِ تقلید بن جاتے ہیں مثلاً بالی ووڈ کے امیتابھ بچن اور شاہ رخ خان کامیابی اور شہرت کااستعارہ سمجھے جاتے ہیں۔ چنانچہ جن نمبروں کو وہ اپنے لئے ’’لکی‘‘ یعنی خوش بختی کا باعث سمجھتے ہیں ،اپنی زندگی سے متعلقہ ہر چیز میں انہی نمبروں کواہمیت دیتے ہیں خواہ گاڑی کا نمبر ہی کیوں نہ ہو۔

وہمی لوگ کیسے ہوتے ہیں؟
 ماہرین کے مطابق ’ہر انسان کے سوچنے ،سمجھنے اور ردِ عمل ظاہر کرنے کا انداز مختلف ہوتا ہے۔ انسانی فطرت کا تقاضا ہے کہ ہر معمولی واقعے پر وہ اپنے ذہن میں ابھرنے والے سوالوں کا جواب تلاش کرنے لگتا ہے اور جب اسے احساس ہوجائے کہ فلاں واقعہ یا فلاں حادثہ اس وجہ سے پیش آیا ہے تو اس کی جستجو رک جاتی ہے اور وہ اپنے تجربات کی روشنی میں من گھڑت کہانیوں کو سچ مان لیتا ہے۔ ہمارے ہاں ایسے لوگوں کو عموماً ’’وہمی‘‘کہاجاتا ہے بلکہ اگر  ان سے کہاجائے کہ یہ آپ کا وہم ہے ، حقیقت سے اس بات کا کوئی تعلق نہیں۔۔۔تووہ آپ کو ماضی میں ہو نے والے ایسے واقعات کا حوالہ دینے لگتے ہیں جو ان کے اسی یقین کی وجہ سے پیش آئے ۔

دراصل انسانی دماغ کے کام کرنے کا انداز ہی ایسا ہے کہ وہ غلط رویوں پر جلد ردِ عمل ظاہر کرتا ہے یعنی جس طرح ایک موبائل یا کمپیوٹر میں وائرس آجائے تواس کی تمام پروگرامنگ تہس نہس ہوجاتی ہے ، انسانی دماغ بھی اسی طرح وائرس یعنی وہم یا کمزور عقائد کے زیرِ اثر آجاتا ہے اس لئے جب بلی راستہ کاٹ جائے تو فوراً دماغ میں آتا ہے کہ کچھ برا ہوگا۔ اگر اس خیال کوایک وائرس سمجھ لیا جائے جو دماغ کو’’ ہیک ‘‘کر دیتا ہے اور پھر وہی ہوتا ہے جوگمان میں ہو اور اس گمان کے ساتھ آپ کہیں جاتے ہیں تو ہوسکتا ہے راستے میں گاڑی خراب ہوجائے، آپ کو کہیں چوٹ لگ جائے اور آپ اس جگہ پہنچ ہی نہ پائیں۔

یہ بھی ممکن ہے جو چیز آپ خریدنے جارہی ہیں، وہ مارکیٹ بند ہونے کی وجہ سے نہ مل سکے یااتفاقاًوہی ایک دکان بند ملے جس پر آپ کو جانا تھا تو ایسے میں یہ یقین اور بھی گہرا ہوجاتا ہے کہ ایسا محض اسی وجہ سے ہواکہ کالی بلی راستے میں آگئی تھی جبکہ حقیقت کا اس سے کوئی تعلق نہیں۔ اسی پر بس نہیں ، توہمات کا یہ سلسلہ نسل درنسل چلتا ہے مثلاًکئی گھرانوں میں ہر پیدا ہونے والے بچے کو کالا ٹیکالگانا ،بچوں کی کلائیوں پرکالادھاگہ باندھنا یا کالی چوڑیاں پہنانا کئی گھرانوں میں بری نظر سے بچنے کا توڑ سمجھا جاتا ہے۔ اسی طرح کالی ڈوری میں تعویذباندھ کر بچوں کے گلے میں ڈالے جاتے ہیں تاکہ بچہ بیمار نہ ہو، ضد نہ کرے، روئے نہ یا کہیں ڈر نہ جائے۔

لوگ جب اپنے مختلف وہموں سے جڑے قصے کہانیاں ایک دوسرے کو سناتے ہیں توجولوگ ایسی باتوں پر یقین نہیں بھی کرتے، وہ بھی اپنی کم علمی اور جہالت کی بنا پر انہیں سچ سمجھنے لگتے ہیں۔ ہمارے ہاں وہمی لوگوں کے مذہبی عقائد کمزور ہوتے ہیں، وہ ہر معمولی بات پر خوفزدہ ہوجاتے ہیں، ان کے رویوں میں جھنجھلاہٹ اور بے چینی عام ہوتی ہے۔

وہمی  لوگ ذہنی دباؤ میں بھی مبتلا رہتے ہیں جس سے ان کے ہاتھوں میں کپکپی واضح محسوس ہوتی ہے۔ یہ اپنے وہم کی سچائی ثابت کرنے کے لئے اپنے اردگرد کے لوگوں کی مثالیں دیتے ہیں کہ فلاں کے ساتھ بھی ایسا ہواتھا ۔اگر کسی کے ساتھ کچھ برا ہوجائے تو اپنے تجربات بتا کر دوسروں کو بھی خوفزدہ کرتے ہیں، کمزور عقائداسی طرح فروغ پاتے ہیں۔وہمی لوگوں کو بڑی سے بڑی خوشی کے مواقع بھی خوش اور مطمئن نہیں کر سکتے کیونکہ ان کی خوشی میں بھی ڈر اور خوف حائل رہتا ہے ،ان میں خود اعتمادی کی کمی ہوتی ہے،وہ صحیح کام کر کے بھی تذبذب کا شکار رہتے ہیں۔‘‘

کمزور عقائد کو فروغ نہ دیں۔۔۔

اگر آپ کے ساتھ کوئی بھی ناخوشگوار واقعہ پیش آگیا ہے تو اسے کسی انجانے خوف کی وجہ سے مافوق الفطرت عناصر سے منسوب نہ کریں، نہ ہی ایسی وجوہات تلاش کریں جو عقل سے متصادم ہوں، ہمیشہ مدلل طرزِ فکر اپنائیں، اگر کسی بات کی آپ کے پاس دلیل نہیں بلکہ وہ کسی فرسودہ سوچ یا خیال کی غمازی کرتی ہے تو اسے ذہن سے جھٹک دیں اور اپنے ناخوشگوار واقعات کے قصے دوسروں کو ہرگز نہ بتائیں بلکہ اگر کوئی آپ کے سامنے فرسودہ خیالات کوبڑھا چڑھا کر بتانے کی کوشش کرے تو اسے فوراً ٹوک دیں بلکہ ایسے لوگوں سے دوستی ہی نہ کریں جو وہمی اور کمزور عقائد کے مالک ہوں”۔

مختلف ممالک میں توہم پرستی

لاطینی امریکہ میں منگل کے دن شادی کرنا اس لئے بدقسمتی کی علامت ہے کہ شادی کے دن لڑکی کو اپنا گھر چھوڑنا پڑتا ہے۔

سوڈان میں میز پر چابیاں رکھنا برا سمجھا جاتا ہے کیونکہ پرانے وقتوں میں عورتیں میز پر چابیاں رکھ کر مردوں کو متوجہ کیا کرتی تھیں۔

تاجکستان میں ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ میں رقم کا لین دین بدقسمتی مانی جاتی ہے اس لئے جب لین دین کیا جاتا ہے تورقم دینے والا اسے میز پر رکھ دیتا ہے اور لینے والا میز سے رقم اٹھا لیتا ہے۔

مشرقی یورپ میں اگر کوئی شخص ضروری چیز باہر بھول آئے ، بازار سے خریدنا بھول جائے یا کسی سے ملنے جائے اور وہاں بھول آئے تواسے بدقسمتی سمجھا جاتا ہے۔

آذربائیجان میں نمک اور کالی مرچ گر جائے تو اسے گھر والوں کے مابین لڑائی جھگڑے کا اشارہ سمجھا جاتا ہے، اس سے بچنے کے لئے نمک یا کالی مرچ پر اتنی چینی گرائی جاتی ہے کہ وہ نظرنہ آئے اور پھر اسے اٹھایاجاتا ہے ۔

جرمنی میں نئے سال کے آغاز پر اگر کوئی خاتون مہمان گھرآجائے تواسے سال بھر کے لئے نحوست قرار دیتے ہیں۔

ترکی میں ایساپانی پینا برا سمجھتے ہیں جس میں براہِ راست چاند کاعکس جھلک رہا ہو۔ ہاں البتہ اس پانی سے نہانا خوش نصیبی ہے کیونکہ ایسے پانی میں نہانے سے نصیب بھی چاند کی طرح روشن ہوجاتا ہے۔