دنیا کے بہت سے دریاؤں کے نام دوسرے ملک میں داخل ہوتے ہی تبدیل ہو جاتے ہیں جبکہ کچھ دریا ایسے بھی ہیں جو ایک ہی ملک کے دو مختلف علاقوں یا صوبوں میں مختلف ناموں سے جانے جاتے ہیں۔ دریائے چناب کا شمار ایسے ہی چند دریاؤں میں ہوتا ہے۔ دریائے چناب کا بے نام آغاز بھارتی صوبہ ہماچل پردیش کے ضلع لاہول سپتی (Lahul & Spiti) کے ساتھ واقع چین کے بے آباد علاقہ سے ہوتا ہے۔ چین سے ہماچل پردیش کی لاہول سپتی وادی میں داخل ہونے کے بعد یہ دریا ”چندرا“ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ واضع رہے کہ اس علاقے میں چاند کو چندرا کہتے ہیں۔”چندرا“ جب ٹانڈی کے مقام پر پہنچتا ہے تو”باگا“ نام کی ندی اس کے پانیوں میں شامل ہو جاتی ہے۔ اس کے بعد لاہول سپتی کے باقی علاقوں میں اس کا نام ”چندرا باگا“ لیا جاتا ہے۔ لاہول سپتی کے علاقوں سے نکل کر جب یہ دریا ہماچل پردیش کے خوبصورت ترین ضلع چمبہ میں داخل ہو تا ہے تو اسے اس کا معروف نام چناب مل جاتا ہے۔ بعد ازاں چناب پاکستان میں کوٹ مٹھن مقام تک اسی نام سے بہتا ہے۔ چندرا باگا سے چمبا کے مقام پر چناب بننے تک اس میں کئی معاون دریا شامل ہوتے ہیں جن میں تھروٹ، می آر، ساچو، دھن ری آنگ اور مارایو،زیادہ اہم ہیں۔ چمبا سے دریا چناب صوبہ ہماچل اور انڈین کشمیر کی سرحد کے ساتھ بہتا ہوا جموں کے ضلع ڈوڈا کی تحصیل کشتواڑ میں داخل ہوتا ہے۔ کشتواڑ میں چناب کا ایک بہت بڑا معاون دریا”ماریوسودر“ اس میں شامل ہوتا ہے۔ کشتواڑ میں ریاسی کے مقام پر مارگ ندی چناب کی معاونت کرتی ہے۔ ریاسی کے بعد جموں کے علاقے میں چناب کا اگلا اہم مقام کوٹرا ہے۔ ریاسی اور کوٹرا کے درمیاں ایک اہم ندی”آنس“ دریائے چناب میں گرتی ہے۔ کوٹرا کے بعد انڈین جموں کشمیر میں چناب کے بہاؤ کا آخری اہم مقام اکھنور ہے۔ اکھنور کے مقام پر متعلقہ بھارتی محکمے آخری مرتبہ چناب میں پانی کے بہاؤ (Water discharge) کی پیمائش کرتے ہیں۔ اسی مقام پر ہونے والی واٹر ڈسچارج آبزرویشن سے یہ پتہ چلتا ہے کہ چناب میں انڈین کنٹرول کے علاقوں سے کتنا پانی پاکستانی علاقوں میں داخل ہوا۔ اکھنور کے بعد جموں کو الوداع کہتا ہوا دریائے چناب پاکستان کے ضلع سیالکوٹ میں داخل ہوتا ہے جہاں گیارہ لاکھ کیوسک پانی ڈسچارج کرنے کی گنجائش والے ہیڈ مرالہ سے اس کے پانیوں کو ریگولیٹ کیا جاتا ہے۔
پاکستان بننے سے پہلے تک دریائے چناب کے ذکر اور اہمیت کی وجہ یہ تھی کہ برصغیر کی دو عظیم رومانی داستانوں سوہنی مہینوال اور ہیر رانجھامیں اس کا بھر پور ذکر موجود ہے۔ پاکستان بننے کے بعد جب دریائے سندھ کے بڑے معاون دریاؤں اور ان سے نکلنے والی نہروں کا پانی بھارتی پنجاب سے پاکستانی علاقوں میں آنے سے روک دیا گیاتو دریائے چناب کو پاکستان اور خصوصاًپنجاب کی زرعی معیشت کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت حاصل ہوگئی۔پاکستان اور انڈیا کے درمیان پیدا ہونے والے پانی کے تنازعہ کو1960 ء میں سندھ طاس معاہدے (Indus water treaty ) کے ذریعے حل کیا گیا جس کے تحت پاکستان کو تین مشرقی دریاؤں راوی، ستلج اور بیاس کے سو فیصد پانی سے دستبردارہونا پڑا جبکہ اسے تین مغربی دریاؤں سندھ، جہلم اور چناب کے 93 فیصد پانی کو استعمال کرنے کا حق دیا گیا۔اس معاہدے کے بعد لنک نہروں کے ذریعے دریائے سندھ اور جہلم کا پانی دریائے چناب کے ہیڈ ورکس اور بیراجوں تک لایا گیا اور پھر مزید لنک نہروں کے ذریعے چناب کے اپنے پانی سمیت یہ دریائی پانی خشک ہونے والے دریاؤں راوی اور ستلج تک پہنچایا گیا جہاں سے زرعی زمینوں کو سیراب کرنے والی نہروں کے ذریعے اس پانی کو کھیتوں تک پہنچایا گیا جس سے راوی اور ستلج کے علاقوں میں زیر کاشت زمینیں بنجر ہونے سے محفوظ ہوئیں۔
پنجاب سے گذرنے والے تمام دریاؤں میں چناب پر سب سے زیادہ بیراج یا ہیڈ ورکس تعمیر کیے گئے ہیں جن کی تعداد پانچ اور ترتیب وار ان کے نام مرالہ، خانکی، قادر آباد، تریموں اور پنجند ہیں۔ چناب پر موجود ان بیراجوں سے پنجاب کی زمینوں کو سیراب کرنے والی سب سے زیادہ نہریں نکالی گئی ہیں۔ ہیڈ مرالہ سے دو نہریں مرالہ راوی لنک کینال اور اپر چناب کینال نکلتی ہیں جن میں سے مرالہ راوی لنک دریائے راوی میں راوی سائفن کے بالائی حصہ میں آکر گرتی ہے اور اپر چناب کینال کا پانی ضلع گوجرانوالہ، شیخوپورہ اور لاہور و سیالکوٹ کے کچھ حصوں کو سیراب کرتا ہے۔ جبکہ اسی نہر سے سیالکوٹ کے نزدیک بمبانوالہ کے مقام پر مشہور نہر بی آر بی نکالی گئی ہے جس کا پانی ضلع لاہور اور قصور کی زمینوں کو سیراب کرنے کے علاوہ دیپال پور تک پہنچتا ہے۔
”خانکی“ دریائے چناب پر دوسرا بیراج ہے جہاں سے نکلنے والی لوئر چناب کینال کا پانی ضلع حافظ آباد، شیخو پورہ، فیصل آباد، ٹوبہ ٹیک سنگھ اور جھنگ کی زرعی زمینوں تک پہنچتا ہے۔ چناب کا تیسرا بیراج قادر آباد بیراج ہے۔ اس بیراج میں دریائے جہلم سے نکالی گئی رسول قادر آباد لنک کینال آکر گرتی ہے۔ اسی بیراج سے قادر آباد بلوکی نہر نکالی گئی ہے جو بلوکی کے مقام پر دریائے راوی میں شامل ہوتی ہے اور پھر یہاں سے اس کا پانی بلوکی سلیمانکی لنک کینال کے ذریعے دریائے ستلج کے سلیمانکی ہیڈ ورکس تک جاتا ہے۔
تریموں ہیڈ ورکس دریائے چناب کا چوتھا ہیڈ ورکس ہے۔ اس ہیڈ ورکس سے پہلے مدوکی کے مقام پر دریائے جہلم اپنا وجود ختم کر کے دریائے چناب میں ضم ہو جاتا ہے۔ تریموں ہیڈ ورکس سے تین نہریں نکالی گئی ہیں۔ دریا کے دائیں کنارے سے نکالی گئی رنگ پور کینال ضلع جھنگ اور تحصیل شور کوٹ کے علاقوں سلطان باہو، گڑھ مہاراجہ اور احمد پور سیال وغیرہ کی زرعی زمینوں کو سیراب کرتی ہے۔ حویلی کینال کا پانی ضلع جھنگ میں دریا کے بائیں کنارے کے زرعی رقبوں کی آبیاری کرتا ہے جبکہ بائیں کنارے سے نکالی گئی تریموں سدھنائی لنک کینال کا پانی دریائے راوی کے ”سدھنائی ہیڈورکس“ پر دریائے راوی میں گرتا ہے۔
ہیڈ تریموں کے بعد دریائے چناب پر آخری ہیڈ ورکس پنجند ہے۔ اس مقام پر دریائے سندھ کے تونسہ بیراج سے نکالی گئی تونسہ پنجند لنک کینال چناب میں گرتی ہے جبکہ اس ہیڈ ورکس سے نکالی گئی دو نہریں عباسیہ کینال اور پنجند کینال کا پانی ضلع بہاولپور اور رحیم یار خان کی زرعی زمینوں کی آبیاری کرتا ہے۔ پنجند کے مقام پر ہی دریائے ستلج دریائے چناب میں سما جاتا ہے۔ پنجند ہیڈ ورکس کے بعد دریائے چناب کوٹ مٹھن کے مقام پر عظیم دریائے سندھ کے پانیوں کا حصہ بن جاتا ہے۔ کوٹ مٹھن پر دریائے چناب کا سفر تو ختم ہو جاتا ہے لیکناپنے سفر کے اختتام سے قبل اس کا پانی پنجاب میں وسیع رقبے پر پھیلی فصلو ں کو سیراب کرتا ہے۔
دریائے چناب تقریباً اسی طرح اپنے پانی کے بغیر دریائے سندھ میں ضم ہوتا ہے جس طرح دریائے راوی اور دریائے ستلج بے آب پاکستانی علاقوں میں داخل ہوتے ہیں۔ دعا ہے کہ دریائے چناب کبھی بھی دریائے راوی اور ستلج کی طرح اپنے پانیوں سے محروم نہ ہو۔