“مہاراج”: انڈیا اور پاکستان کی مذہبی حیوانیت پر بنائی گئی 
حال ہی میں نیٹفلکس پر ریلیز ہونے والی انڈین فلم “مہاراج” 19ویں صدی کے دوران مذہب کے استحصال اور انڈین مصلحین کی جرات پر روشنی ڈالتی ہے۔ اس فلم میں نہ صرف موجودہ انڈیا کے ماحول پر تنقید ہے بلکہ پاکستانیوں کے لیے بھی ایک پیغام ہے۔ سدھارتھ پی ملہوترا کی ہدایت کاری میں بننے والی ’’مہاراج‘‘ حقیقی واقعات پر مبنی ہے۔ یہ فلم 1862 کے “مہاراج لبل کیس” (مہاراج کے خلاف توہین آمیزوں مواد شائع کرنے کے مقدمے) کے گرد گھومتی ہے۔ یہ مقدمہ بمبئی کی ہائی کورٹ میں چلا تھا۔

یہ فلم بمبئی میں رہنے والے ایک نوجوان گجراتی ہندو کرسنداس مولجی (یہ کردار جنید خان نے ادا کیا) کی جدوجہد کے بارے میں ہے۔ کرسنداس ایک نوجوان صحافی تھا جو عقائد کی اندھی تقلید کرنے والوں معاشرے کے لوگوں کو عقل و دلیل کی بنیاد پر پسماندگی کی دلدل سے نکالنے کی کوشش کر رہا تھا۔ پارسی مصلح دادا بھائی نوروجی سے متاثر ہو کر، کرسنداس نے بیواؤں کے ساتھ غیر انسانی سلوک کے خلاف ریلیاں نکالیں، ان کے اخبار “راست گفتار” میں آرٹیکلز لکھے۔ اس کے علاوہ دیگر پسماندہ افکار اور سماجی ریتوں کو بھی چیلنج کیا تھا۔
اسی دوران، ایک وشنو مندر میں، جادوناتھ جی (اس کردار کو جے دیپ اہلاوت نے ادا کیا) ایک دیوتا تصور کیا جاتا ہے، وہ مذہبی اصول طے کرتا ہے اور “چرن سیوا” نامی ایک رسم کے ذریعے نوجوان لڑکیوں اور دلہنوں کا جنسی استحصال کرتا ہے۔

اپنے مذہبی عقائد میں دھنسے ہوئے لوگ اپنے پیاروں کا جنسی استحصال قبول کرنا اپنی مذہبی ذمہ داری سمجھتے تھے! فلم “مہاراج” ایک طاقتور پیغام دیتی ہے ۔ یہ اندھے اعتقاد کو بھی چیلنج کرتی ہے۔ یہ فلم ان لیڈروں سے سوال کرتی ہے جو خود کو مذہبی رہنما کے طور پر پیش کرتے ہیں اور استحصالی سیاست کرتے ہیں۔۔ فلم اس بات پر زور دیتی ہے کہ عقیدہ ایک نجی معاملہ ہونا چاہئے، اور اسے لوگوں کی سماجی زندگی کو کنٹرول کرنے کا اختیار نہیں ہونا چاہیے۔

ایک تاریخی حقیقی داستان کے باوجود، فلم میں اثر انگیز پرفارمنس پیش کی گئی ہے۔ جنید خان کا کرسنداس کا کردار قابل ستائش ہے، اور جے دیپ اہلوت نے جوڑ توڑ کرنے والے جے جے کے طور پر ایک ولن کا کردار بہت اچھے طریقے سے نبھایا ہے۔ “مہاراج” فلم محض تاریخی واقعہ کا عکس نہیں ہے بلکہ اِس کا پیغام آج کی دنیا کے لیے بھی اتنا ہی ریلیونٹ ہے جتنا کہ انیسویں صدی میں تھا۔
1860 کی دہائی کے نازک مسائل کو پیش کرکے، “مہاراج” ناظرین کو اتھارٹی پر سوال کرنے اور مذہب کے جابرانہ طریقوں اور فرقوں میں اندھی عقیدت کو چیلنج کرنے کی ترغیب دیتی ہے۔

فلم “مہاراج” مذہبی استحصال اور فرقوں کو چیلنج کرنے والوں کی جرات کی سنیما پر پیش کی جانے والی زبردست کہانی ہے۔ یہ ہمیں یاد دلاتی ہے کہ وقت بدل رہا ہے، اور مذہبی عقائد کو کبھی بھی ذاتی فائدے کے لیے غلط استعمال نہیں کرنا چاہیے۔ستم ظریفی یہ ہے کہ انڈیا کے پاس 19ویں صدی میں دادا بھائی نوروجی جیسے مصلحین اور ان کے کرسنداس مولجی جیسے پیروکار تھے جو اندھی عقیدت اور مذہبی استحصال کے طریقوں کو چیلنج کرنے کی جرات رکھتے تھے، لیکن مسلمان اس معاملے میں بھی پسماندہ تھے۔

اگرچہ بانئِ پاکستان محمد علی جناح بھی دادا بھائی نوروجی کے ایک پیروکار تھے، لیکن وہ بھی عقائد کے نام پر سیاسی استحصال کرنے والوں کو لگام نہ ڈال سکے۔ مسلمانوں میں اب بھی مذہبی فرقوں اور مولویوں کو چیلنج کرنے اور اُن کی بدمعاشیوں پر ان کے خلاف مقدمہ چلانے کی ہمت نہیں ہے۔مولوی، پیر، مرشد اور انتہا پسند مذہبی رہنما جو اب بھی اندھی تقلید کرنے والوں کا استحصال جاری رکھے ہوئے ہیں، بلا خوف و خطر دندناتے پھرتے ہیں۔انتہا پسند مذہبی فرقے اقلیتی لڑکیوں کو اسلام قبول کرنے پر مجبور کرتے ہیں اور ہم مسلمان اُن کی اس زیادتی کو اسلام کی خدمت سمجھتے ہیں۔

مذہبی گروہ اپنے پیروکاروں کو ’دوسروں‘ کو قتل کرنے کی تلقین کرتے ہیں اور پاکستان میں پوری ریاستی مشینری، عدلیہ اور قانون نافذ کرنے والے ادارے اپنی ذمہ داری پوری کرنے کے بجائے چُپ سادھ لیتے ہیں!کرسنداس مولجی جیسے حقیقی مصلح کردار پاکستانی معاشرے میں بھی ہیں، مگر وہ جنید حفیظ کی طرح ملتان کی جیل میں موت کے منتظر بیٹھے ہیں کیونکہ انھوں نے عقائد کی اندھی تقلید کرنے والوں معاشرے لوگوں کو عقل و دلیل کی بنیاد پر پسماندگی کی دلدل سے باہر نکالنے کی کوشش کی تھی!

From Saqleen imam`s facebook wall with thanks

آئیے ذرا مختصر انارکسزم پر مختصر بات کرتے ہیں ۔ پیٹی بورثوا ںظریہ ہے جو ہر قسم کی اتھارٹی کا مخالف ہے ۔ پیٹی بورثوا ملکیت کو سماج کی ترقی کی بنیاد قرار دیتا ہے ۔ انارکسزم فلسفہ کی بنیاد انفرادیت ، موضوعیت سے ہے۔ پرودھون، شمٹ Schmidt اور باکونین کے یوٹوپیائی نظریات پر ہے جن کی مارکس اور اینگلز ہمیشہ مخالف کرتے رہے ۔انارکسزم کو 19ویں صدی میں فرانس، اٹلی اور سپین میں کچھ جگہ ملی ۔

اب ہم اپنے اصل موضوع سوشل ڈیموکریسی کی طرف آتے ہیں ۔ انارکسزم پر اس لیئے بات کرنا پڑی کہ انارکسزم اور سوشل ڈیموکریسی میں باکونین اور پیٹی بورثوا یت و دیگر مشترکہ بنیاد ہیں ۔ باکونین نے 1868 میں سوشل ڈیموکریسی اتحاد کے پروگرام میں ، کہ ہم تمام طبقات کی مساوات اور سٹیٹ کے خاتمہ کے حق میں ہیں حالانکہ بعد ازاں پرولتاری ڈکٹیٹر شپ کے نظریے کو رد کرکے یہ کہنا شروع کر دیا کہ مزدور طبقہ کی الگ سیاسی پارٹی بنانے کے کوئی معنی نہیں ہوتے ۔ الائنس کے ممبر اس بات کی مخالفت کرتے تھے کہ مزدور طبقہ سیاسی جدوجہد میں اترے ۔ 1869 میں سوشل ڈیموکریسی اتحاد نے پہلی انٹرنیشنل سے اپیل کی کہ وہ اسے اپنے ساتھ شامل کرے ۔ انٹرنیشنل والوں نےاس شرط پر اتحاد کیا کہ وہ خود کو علیحدہ جماعت کی حیثیت سے توڑ کر شامل ہوں ۔ تاہم جب انٹرنیشنل سے منسلک ہو چکے ۔ تب بھی اتحاد کے ممبروں نےانٹرنیشل ورکنگ مینز ایسوسی ایشن کے اندر خفیہ تنظیم باقی رکھی اور ان کے لیڈر کی حیثیت سے باکونین نے انٹرنیشنل پر نکتہ چینی اور حملوں کا سلسلہ جاری رکھا ۔آخر جب انٹرنیشنل کی کانگرس 1872 میں ھیگ میں ہوئی تو زبردست اکثریت کے ساتھ اتحاد کے لیڈروں باکونین اور گیلیلیوم کو انٹرنیشنل سے خارج کر دیا گیا ۔ جاری ہے

Author

  • ثقلین امام

    صاحب تحریر بی بی سی اردو سے طویل عرصہ سے منسلک ہیں . لاہور پریس کلب کی صدارت کی ذمہ داری نبھا چکے ہیں. گوروں کے دیس میں روزی روٹی کے لیے آباد ثقلین امام کا لاہوریا زندہ دلی کے بے باکانہ انداز سے ان کی مدبر شخصیت کے ساتھ ساے کی طرح ساتھ ہوتا ہے . زیر نظر تحریر جو موصوف نے اپنی کالج لائف کے دوست کے لیے کھلے ڈلے اظہار محبت کے ساتھ لکھی ہے ، اس امر کا والہانہ ثبوت ہے ۔

    View all posts