کیا ھم رفیق احمد شیخ کو بھول گئے ھیں ۔
آج 14 جولائی 2024 پاکستان پیپلز پارٹی کے مرکزی راھنما رفیق احمد شیخ مرحوم کی ستارھویں برسی ھے ۔ ان کے ساتھ میری پہلی ملاقات جناب شمیم احمد خان ڈپٹی اسپیکر پنجاب اسمبلی کی وساطت سے ھوئی اس ملاقات میں میرے والد محترم بھی شامل تھے ۔ میرے والد مرحوم شمیم احمد خان سے ملنے لائلپور سے لاھور تشریف لاتے تو میں بھی ان کے ھمراہ آتا جاتا تھا ۔ اس دوران مجھے کئی راہنماؤں سے ملاقات کرنے اور ان کی صحبت میں بیٹھنے کا اتفاق ھوا ۔ جن سے میرے بعد ازاں بہت قریبی تعلقات قائم ھو گئے ۔ جن میں رفیق احمد شیخ صاحب ، ملک معراج خالد صاحب ، بابائے سوشلزم شیخ رشید صاحب بھی شامل ھیں ۔
جنرل ضیاع کے دور حکومت میں ھم افطار پارٹیوں ، میلاد ، قرآن خوانیوں اور غیر سیاسی اکٹھ کے نام پہ سیاسی سرگرمیاں جاری رکھتے تھے ۔ اسی سلسلے میں میں نے ایک افطار پارٹی کا اھتمام کیا ۔ تو شیخ صاحب تشریف لائے اور میرے کان میں کہنے لگے کہ ” تیری چاچی نے دیگچیاں پھیجاں نے گڈی وچوں کڈوا لے پنج چھ بندیاں دا کھانڑا پا کے دے دے ” یہ ان کی بے تکلفی سادگی کا خوبصورت انداز تھا ۔
رفیق احمد شیخ صاحب اپنے والد شیخ محمد یعقوب صاحب جو ریلوئے میں ملازم تھے کے گھر 02 دسمبر 1922 کو راولپنڈی میں پیدا ھوئے ۔ شیخ یعقوب صاحب کی لاھور تبدیلی ھوئی تو اپنے والد کے ھمراہ اپنے آبائی گھر واقع اندرون فاروق گنج ، مصری شاہ رہنے لگے۔رفیق احمد شیخ صاحب نے میٹرک اسلامی ہائی سکول شیرانوالہ گیٹ سے ، گریجویشن اسلامیہ کالج لاھور اور ایل ایل بی کا امتحان پنجاب یونیورسٹی لاء کالج سے پاس کیا۔ وہ ابھی قانون کی تعلیم حاصل کر رہے تھے جب ان کی 1946 میں شادی کر دی گئی تھی ۔
انہوں نے والد سے متاثر ہو کر سیاست میں دلچسپی لینا شروع کی ۔ ان کی پہلی محبت پنجاب مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن تھی۔ وہ اس وقت اس کے سیکرٹری جنرل پنجاب منتخب ھوئے ۔ جب پنجاب کی سرزمین پشاور اور دہلی کے درمیان پھیلی ہوئی تھی ۔ بحثیت جنرل سیکریٹری ایم ایس ایف پنجاب انہیں قائداعظم محمد علی جناح سے کئی ملاقاتوں کا شرف حاصل ھوا ۔ انہوں نے 1946 کی انتخابی مہم میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔
پاکستان کے معرض وجود آنے کے بعد شیخ صاحب نے سنجیدگی سے قانونی پریکٹس شروع کی اور لا چیمبر آف جیورسٹ پار ایکسیلنس اور چیمپین آف سول لبرٹیز میاں محمود علی قصوری کی قیادت میں شمولیت اختیار کی۔ میاں صاحب ان کے سیاسی سرپرست اور نظریاتی ’گرو‘ بن گئے اور شیخ صاحب نے جلد ہی بائیں بازو کی سیاست میں دلچسپی لینا شروع کر دی۔ جب میاں افتخار الدین اور دیگر بائیں بازو کے راھنماوں نے آزاد پاکستان پارٹی (اے پی پی) کی بنیاد رکھی اور میاں قصوری نے بھی اس میں شمولیت اختیار کی تو رفیق احمد شیخ نے ملک کی پہلی اپوزیشن جماعت میں شمولیت اختیار کی ۔
اے پی پی میں قیام کے دوران شیخ صاحب کو ٹریڈ یونینوں اور کسان تنظیموں کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا اور اس وقت ان کی بہترین دوستی تجربہ کار ٹریڈ یونین لیڈر مرزا محمد ابراہیم سے تھی۔ اسکے علاوہ وہ شاعر فیض احمد فیض اور ان کے حلقے کے ادبی شخصیات کے بھی بہت قریب ہو گئے۔ میاں افتخار کی وفات کے بعد اے پی پی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ھو گئی تو وہ کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان میں شامل ہو گئے ۔
کیمونسٹ پارٹی کے خلاف اسٹیبلشمنٹ کی کاروائیوں اور پارٹی کے اندر گروہ بندی سے شدید مایوسی ھو کر بائیں بازو کی جماعت نیپ ان کی تیسری سیاسی جماعت نیشنل عوامی پارٹی تھی اس پارٹی میں قیام کے دوران وہ باچا خان کے قریب ہو گئے اور ان کے فلسفہ عدم تشدد سے متاثر ہوئے۔ تاہم، NAP کے ساتھ قائدین کی پالیسیوں جن میں پاکستان کے مقابلے افغانستان اور بھارت کو اھمیت دینا جیسے بعض اختلافات نے انہیں پارٹی چھوڑنے پر مجبور کر دیا۔
رفیق احمد شیخ صاحب نے 1969 میں پاکستان پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کی ۔
17۔ دسمبر 1970 کو پنجاب اسمبلی انتخابات میں پاکستان پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پہ صوبائی اسمبلی حلقہ پی پی 75 لاھور V سے ایم پی ائے منتخب ھوئے ۔ اور 2 مئی 1972 کو بلا مقابلہ پنجاب اسمبلی کے سپیکر منتخب ھوئے ۔ انہوں نے بطور اسپیکر ملک غلام مصطفی کھر ، نواب صادق حسین قریشی اور محمد عباس خان عباسی گورنروں اور ملک معراج خالد ، ملک غلام مصطفی کھر ، حنیف رامے اور نواب صادق حسین قریشی وزراء اعلی کے ساتھ 11۔ اپریل 1977 تک کام کیا ۔
رفیق احمد شیخ صاحب پاکستان پیپلز پارٹی پنجاب کے صدر اور مرکزی جنرل سیکریٹری کے عہدے پہ فائز رھے ۔ اور انہوں نے 14۔ جولائی 2007 کو 85 سال کی عمر میں وفات پائی ۔ پاکستان پیپلز پارٹی ان کے وصال تک انکی سیاسی پارٹی رھی ۔ان کے پسماندگان میں ایک بیٹی اور بیٹا عتیق احمد جو جسمانی طور پر معذور اور ذہنی طور پر عدم استحکام کا شکار ہے ۔ جن سے میرا شیخ صاحب کی وفات کے بعد کبھی رابطہ نہ ھوسکا ۔ ان کا دوسرا بیٹا توثیق احمد 33 سال کی عمر میں شیخ صاحب کی وفات سے قبل برانڈرتھ روڈ پہ دکان پہ ڈکیتی پر مزاحمت کے دوران قتل ھو گیا تھا ۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے کارکنوں کو ایسی شخصیات کو کبھی فراموش نہیں کرنا چاھئے جنہوں نے لالج ، طمع ، بدعنوانی سے پاک اور سادہ زندگی گزاری ھو ۔