۔5جولائی کی عفریت سے کیسے جان چھڑائی جائے؟ 

نئی نسل کو یہ معلوم نہیں کہ 5جولائی 1977کا دن اس ملک اور عوام کی زندگی میں کتنی نحوست اور عذاب لے آیا تھا – نہ صرف یہ کہ جمہوری حکومت کو ختم کرکے منتخب وزیرآعظم کو پھانسی پر لٹکایا گیا بلکہ ملک کی سماجی،ثقافتی ہیت کو یکسر بدل دیا گیا۔ کوئی مانے یا نہ مانے اس ملک کی عمومی زندگی آج بھی ضیاء کی ڈریکولائی سایے میں دمے کے مریض جیسی کیفیت میں سانسیں لے رہی ہے۔ 47 سال سے مسلسل یہ سوال مترقی جمہوریت پسند دانشوروں اور سیاسی پارٹیوں کا پیچھا کر رہا ہے۔ وجوہات جاننے کے باوجود فکری زوال پذیری اور سیاسی دیوالیہ پن کی وجہ سے سبھی جواب دینے سے قاصر ہیں۔ ہر کوئی ضیاء آمریت اور عفریت کی تباہ کاریوں اور سیاہ کاریوں کا رونا روتا ہے۔ لیکن بنیادی وجوہات پر کھلے عام نہ صرف واضح نظریاتی اور سیاسی پوزیشن لی جاتی ہے بلکہ ضیاء Legacy کے علمبرداروں سے مکمل لڑائی لڑنے سے گریز بھی کیا جاتا ہے۔

آج جو ہم فرقہ واریت، فسطائیت، دہشت گردی، مذہبی انتہاپسندی اور عسکری بالا دستی فصل کاٹ رہے ہیں۔ اس کا بیج پاکستان بننے کے فورا” بعد قرارداد مقاصد لاگو کرکے ریاست اور اس کے رجعتی حواریوں نے بویا تھا۔ اس وقت کے ایک دور اندیش کانگریسی ممبر اسمبلی نے متنبہ کیا تھا کہ یہ قرار داد ایک ایسے مہم جو کو جنم دے گا جو یہ دعوی کرے گا کہ وہ خدا کا نامزد کردہ خلیفہ ہے اور پھر ضیاء نے اسی طرح اپنے آپ کو پیش کیا۔

اگرچہ سقوط ڈھاکہ کے بعد شکست خوردہ ریاست اور اس کے سیاسی اتحادیوں سے مستقل طور پر جان چھوٹنے کا سنہری موقع ہاتھ آیا تھا لیکن 1973 کے آئین میں نہ صرف قرارداد مقاصد کو دوبارہ شامل کیا گیا بلکہ کونسل آف اسلامک آئیڈیالوجی بنانا قادیانیوں کو اقلیت قرار دیکر اور بلوچستان میں فوج کشی کر کے ریاست اور اس کے اتحادیوں کو طاقت فراہم کرکے دوبارہ ان کی واپسی کا راستہ ہموار کیا گیا۔ یہی سے جمہوری قوتوں کا زوال، پسپائی اور ریاست اور رجعتی قوتوں کے عروج کا آغاز ہوا۔5جولائ 1977 اور ضیاء کا آنا اسی پس منظر میں ہوا۔

1978 میں افغان ثور انقلاب کا آنا اور 1979 میں افغانستان میں روسی فوجوں کا آنا اور ایران میں قم کے بنیاد پرست مولویوں کے اقتدار پر قبضے نے ضیاء رجیم کو امریکی سامراج اور انکے عرب اتحادیوں کے آنکھوں کا تارا بنا دیا۔امریکہ اور برطانیہ میں ریگن اور تھیچر کی شکل میں Neoconservative` s کے آنے سے ضیاء کو اپنا رجعتی بنیاد پرست ایجنڈا لاگو کرنے کی کھلی اجازت دی گئی۔
ضیاء اور ان کے حواری عالمی سامراجی قوتوں اور عرب شیوخ کی پشت پناہی سے مذھبی بنیاد پرست اور neocons کا معاشی و سیاسی ایجنڈا لے کر ,سیاست کو پراگندا کر کے سماج کو رجعتی اور غیر سیاسی بنا دیا جس کا خمیازہ آج تک سماج بھگت رہا ہے .

مجاھد اول بن کر افغانستان میں مداخلت کرکے نہ صرف افغانستان کو تاراج کیا گیا بلکہ علاقے کو ایک گہرے بحران میں ڈال کر غیر یقینی صورت حال سے دوچار کیا گیا .اگرچہ ضیا رجیم کو اس وقت کی جمہوری قوتوں خصوصآ پاکستان پیپلز پارٹی اور بائیں بازو کے کارکنوں نے شھید بھٹو ,شھید نذیر عباسی ,کی شھادتوں جیلوں اور ایم آر ڈی کی تحریک کی شکل میں لازوال قربانیاں دے کر مجاھد اول کو سخت مزاحمت سے دوچار کیا ,لیکن بعد میں بحیثیت ایم آر ڈی الیکشن میں نہ جانے سے جمہوری قوتوں کو اور خصوصآ پیپلز پارٹی کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا .
آج 47 سال گزرنے کے بعد بھی مجاھد اول اپنی تاریک سوچ کے ساتھ status qou کی صورت میں پورے آب و تاب کے ساتھ پاکستانی ریاست، سیاست اور سماج پر حکمرانی کر رہا ہے اور کیوں براجمان نہ ہو ، آج کا عالمی منظر نامہ خصوصآ Neoconservatives کی شکل میں عالمی سرمایہ دارانہ معیشت مشرق وسطی اور مسلم دنیا خصوصآ افغانستان کے حالات ان کی سوچ کو مزید توانائی بخش رہی ہے ,آج کے 5 جولائ کا بنیادی سوال یہ ہے کہ آیا چھیالیس سال کے بعد بھی آخر ہم ماضی کا جائزہ کیوں نہیں لیتے ۔ تاکہ نہ صرف اپنی غلطیوں اور کو تاہیوں سے سیکھ کر اس بات پر غور کریں کہ آیا روایتی نظریات اور سیاست سے ضیاء Legacy کو انکی پچ پر کھیل کر شکست دی جاسکتی ہے یا نہیں۔آج چھیالیس سال بعد بھی اس بات سے چشم پوشی اور پہلو تہی کیوں کی جا رہی ہے؟

بھٹو شھید نے کہا تھا “میں اس آزمائش میں اس لیے مبتلا ہوں کہ میں نے ملک کے شکستہ ڈھانچے کو پھر سے جوڑنے اور متضاد مفادات کے درمیان آبرومندانہ ہم آہنگی پیدا کرنے کی کوشش کی تھی ـ یوں معلوم ہوتا ہے کہ اس فوجی بغاوت کا سبق یہ ہے کہ درمیانی راستہ قابل قبول حل یا مصالحت محض یوٹوپیائی خواب ہے ـ فوجی بغاوت ظاہرکرتی ہے کہ طبقاتی کشمکش ناقابل مصالحت ہے ـ اور اس کا نتیجہ ایک یا دوسرے طبقے کی فتح کی صورت میں ہی نکلے گا .”

اگرچہ بھٹو شھید نے نہ صرف اپنی غلطیوں کا اعتراف کیا تھا بلکہ انھوں نے پارٹی کی بنیادی نظریات سے ایک بار پھر ناطہ جوڑ کر مستقبل کی آخری لڑائی کے لیے واضح لکیر بھی کھینچی تھی جس پر آگے چل کر پارٹی اور پارٹی کارکنان نے سقراط سے لیکر بھٹو تک مزاحمت اور جدوجہد کی مسلسل روایات کو برقرار رکھنا تھا – لیکن آج بدقسمتی سے 5 جولائ2024 ضیاء کا منحوس سایہ اور گہرا ہو گیا ہے – ایک طرف جدوجہد اور مزاحمت کی علامت PPP اپنی زوال پزیری اور شکست وریخت کی اصل وجوہات ماننے کے لیے تیار نہیں اور دوسری طرف وردی کا منحوس سایہ اور گہرا ہوتا جا رہا ہے اس 5 جولائی پر میری تمام نوجوانوں سے یہ اپیل ہے کہ وہ فکری اور سیاسی طور پر بھٹکنے کے بجائے تاریخ کی طرف رجوع کرکے اپنی تباہیوں اور تاریک مستقبل کی 5 جولائی 1977 میں وجوہات ڈھونڈنے کی کوشش کرکے صحیح سیاسی راستے کا تعین کرکے اجتماعی جدوجہد کی طرف بڑھیں-

Author