عوامی لیگ اور پی پی پی کو ایک متحدہ پاکستانی ریاست کی سالمیت میں کوئی دلچسپی نہیں تھی۔
  نومبر 1971 میں روزنامہ آزاد کی اشاعت بند ہوگئی تھی، ائی اے رحمان کی خود
نوشت کا اردو ترجم ( گزشتہ سے پیوستہ )
روزنامہ’آزاد‘کی سرخیوں کی بات تو رہی ایک طرف لیکن یہ حقیقت اپنی جگہ اہم تھی کہ ’آزاد‘ اپنی اشاعت کے آغاز کے ساتھ ہی ایک مقبول`اخبار بن گیا تھا۔ہم نے پہلے روز اس کی پچیس ہزار اور اگلے دن پینتیس ہزار کاپیاں چھاپی تھیں۔اشتہارات کے بغیر زیادہ تعداد میں اخبار چھاپنے کا مطلب تھا زیادہ  مالی نقصان۔چنانچہ ہم نے زیادہ کاپیاں چھاپنے سے گریز کرنا شروع کردیا تاکہ نقصان کم سے کم ہو۔ہم نے اپنے اخبار کو متعارف کرانے کے لئے کراچی میں ایک نمائش کا اہتمام کیا جس  کی بدولت ہمیںاشتہارات ملنا شروع ہوگئے تھے۔اس کے علاوہ ہمیں اخبار میں سرمایہ کرنے کی آفرز آنا شروع ہوگئی تھیں۔
ذوالفقار علی بھٹو نے ’آزاد‘ کو خریدنے میں دلچسپی کا اظہار کیا تھا۔ڈاکٹر مبشر حسن نے  ایک دن اس مسئلے پر بات چیت کرنے کے لئے مجھے اپنی واکس ویگن میں بٹھایا اور ہم نے لاہور شہر کی سڑکوں پر  گھومنا شروع کردیا۔ڈاکٹر مبشر حسن انٹیلی جنس ایجنسیوں کو چکمہ دینے کے لئے عام طور پر یہ طریقہ استعمال کیا کرتے تھے۔انھوں نے اپنی گفتگو کے آغاز ہی میں یہ  کہہ کر مجھے کلین چٹ دے دی تھی کہ  انھیں میری سیاسی خیالات  پر کوئی اعتراض نہیں تھا لیکن اس کے ساتھ یہ نشاندہی بھی کی تھی کہ  میرے دوسنیئر ساتھی عبداللہ ملک اور حمید اختر ہیں اور اگر پیپلزپارٹی روزنامہ ’آزاد‘ خریدتی ہے تو ان دونوں کی بدولت اخبار کی پالیسی ترتیب دینے میں مسائل پیدا ہوسکتے ہیں۔میں نے یہ کہہ کر ڈاکٹر مبشر حسن کو مطمئن کرنے کی کوشش کی تھی کہ عبداللہ ملک اور حمید اختر کی نظریاتی وابستگی کو بدلنے کا وقت گذر چکا ہے اور مزید یہ کہ اگر پیپلزپارٹی ہمیں اخبار چلانے کے لئے فنڈز مہیا کرتی ہے تو اس کے باوجود پالیسی کا تعین ہم ہی کریں گے۔چنانچہ یہ معاملہ وہیں ختم ہوگیا تھا اور اس سے ہمارے چین نواز دوستوں کو بہت  اطمینان ہوا تھا کیونکہ وہ بھٹو پر روزنامہ `مساوات` جاری کرنے کے لئے زور دے رہے تھے۔ان دنوں ہمارے یہ دوست نظریاتی فرقہ پرستی کی دلدل میں بہت گہرے طور پر دھنسے ہوئے تھے
فیض احمد فیض اور سید امیر حسین ایک روز ’آزاد‘ کے دفتر آئے۔دونوں حضرات ’آزاد‘ کی کارکردگی سے بہت خوش  اور متاثرتھے۔فیض صاحب نے ہمارے دفتر کے ذیزائن کی تعریف کی اور ہمیں تاکید کی تھی کہ واش روم دفتر کے قریب ترین بنائے جائیں۔اس موقع پر  شاعر(فیض احمد فیض) جنھیں ان کے دوست کنجوس کہا کرتے تھے،نے چیک بک نکالی اور دس ہزار کا چیک  لکھ کردیا تھا۔سید امیر حسین نے بھی چیک بک نکال کر روزنامہ ’آزاد ‘ کے لئے دس ہزار روپے کا چیک دیا تھا۔’آزاد‘ کے لئے یہ ان  کی طرف سے یہ ابتدائی سرمایہ تھا۔سید امیر حسین اس کے فوری بعد انتقال کرگئے اور ہم ان کا دیا ہوا چیک ان کی فیملی کا واپس کردیا تھا۔
ملک کی سالمیت کے تحفظ کے لئے شیخ مجیب الرحمان سے انڈر سٹینڈنگ کی اپنی خواہش کو ہم چھپانے کی ضرورت محسوس نہیں کرتے تھے اور اس کی وجہ سے ہمیں اپنے محب الوطن دوستوں کی طرف سے مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔عبداللہ ملک نے  یونیورسٹی آف انجیئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی لاہور کے طلبا کی طرف سے منعقد کردہ سیمنار میں تقریر کرتے ہوئے مشرقی پاکستان کے عوام کا ذکر کوتے ہوئے بنگلہ دیش کا لفظ استعمال کردیا ۔مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش کہنے پر انھیں گرفتار کرلیا گیا اور ان پر فوجی عدالت میں مقدمہ چلایا گیا تھا۔پیل ہاوس میں قائم فوجی عدالت  میں پیش کرنے کے لئے انھیں صبح بہت جلدی لایا جاتا تھا۔لہذا جب وہ عدالت میں آتے تو میں ان سے قبل عدالت میں موجود ہوتا تھا۔’عدالت کے معاملات کو کبھی آسان نہ سمجھو‘۔ وہ مجھے نصیحت کیا کرتے تھےچنانچہ ہم فوجی عدالت کی کاروائی شروع ہونے سے پہلے عدالت کی سیڑھیوں میں بیٹھے رہتے تھے۔
فوجی عدالت نے اپنے لگے بندھے طریقہ کار اور قواعد و ضوابط کے تحت اپنی کاروائی جاری رکھی۔ متعدد سماعتوں کے بعد ایک دن چائے کے وقفے کے لئے سماعت میں وفقہ کرتے ہوئے اعلان کیا کہ  وقفے کے بعد مقدمہ کا فیصلہ سنایا جائے گا۔ابھی بمشکل دس منٹ ہی گذرے تھے کہ جج( جو فوجی افسر تھے)  فیصلہ سنانے کے لئے عدالت میںواپس آگئے۔وہ فیصلہ جو انہوں نے چائے کے وقفے کے  لئے مختص دس منٹوں کےدوران نہ صرف لکھا تھا بلکہ اسی دوران ٹائپ بھی ہوا تھا عدالت میں اس فیصلے کو پڑھنے میں پندرہ منٹ لگے تھے۔عبداللہ ملک کوایک سال سزا کے ساتھ ایک لاکھ جرمانے کی سزا بھی دی گئی تھی۔عدالت نے اپنے فیصلے میں لکھا تھا کہ کوڑوں کو سزا ملزم کی پیرانہ سالی کو مدنظر رکھتے ہوئے نہیں دی گئی۔عبداللہ ملک نے عدالت میں بڑے زور شور سے احتجاج کیا تھا کہ بھلے عدالت پھانسی چڑھانے کا حکم دے دے لیکن  اس کی مارکیٹ ویلیو خراب نہ کرے۔عبداللہ ملک عدالت کی طرف سے انھیں بوڑھا قراردینے پر سرابا احتجاج تھے۔

عبداللہ ملک کی سزا کے بعد میں نے آئی ۔ایس۔پی۔آر کے کرنل عتیق سے رابطہ کیا تھا۔ان جیسے شریف النفس انسان اس محکمے میں کم ہی پائے جاتے ہیں۔وہ میرے ہمراہ تھانہ مغل پورہ گئے جس کی حوالات میں عبداللہ ملک کو رکھا گیا تھا۔ہم نے دیکھا کہ عبداللہ ملک حوالات کے کچے فرش پر سوئے ہوئے ہیں۔ملک صاحب کی مشکلات کم کرنے کے لئے ہم نے ہمہ جہتی کوششیں جاری رکھیں ۔ چنانچہ ہماری کوششیں جلد ہی با رآور ہوئیں اور پہلے ان کا جرمانہ معاف ہوا اور پھر کچھ عرصے بعد وہ رہا ہوکر دوبارہ ہم سے آملے تھے

 پاکستان کو بچانے کے لئے مجیب اور بھٹو کے مابین ہم آہنگی پیدا کرنے کے لئے ہم نے اپنی کوششیں جاری رکھی تھیں۔ان دنوں پاکستان کے دونوں حصوں کے مابین فوری رابطے کا ایک ہی ذریعہ تھا اور وہ تھا ٹیلی فون۔ہم ڈھاکہ میں اپنے صحافیوں دوستوں کے ساتھ مسلسل رابطے میں رہتے اور اُن سے کہتے تھے کہ وہ مجیب کو بھٹو سے رابطہ قائم کرنے کے لئے انھیں قائل کرنےکی اپنی کوشش جاری رکھیں۔بھٹو جب مجیب سے مذاکرات کرنے کے لئے ڈھاکہ گئے تھےتو ہم نے عبداللہ ملک کو بھی وہاں بھیجا تھاکیونکہ وہ اپنے دیرینہ تعلقات کی بنا پر ان دونوں رہنماوں سے بات کرسکتے تھے۔اب میں جب اُس عہد کے واقعات پر پیچھے مڑ کرنظر دوراتا ہوں تو مجھے یقین ہوتا ہے کہ دونوں سیاسی جماعتوں۔۔۔ عوامی لیگ اور پی پی پی اور ان کے رہنماوں کو ایک متحدہ پاکستانی ریاست کی سالمیت میں کوئی دلچسپی نہیں تھی۔
مشرقی پاکستان میں جاری بحران کی بدولت مغربی پاکستان میں معاشی سرگرمیاں بری طرح متاثر ہوئی تھیں جس کی وجہ سے اخبار کو ملنے والے اشتہارات کے معاوضوں کی ادائیگی  میں بھی بے قاعدگی آنا شروع ہوگئی تھی۔ مزید برآں ہمیں مجیب کے کارخاص جیسے الزامات لگا کر مطعون کیا جارہا تھا۔ میں نے دوست احباب اور رشتے داروں سے جو معمولی رقم اکٹھی کی تھی وہ نیوز پرنٹ خریدنے کے لئے ناکافی تھی۔چنانچہ ہم نے ہار مان لی اور نومبر 1971 میں روزنامہ آزاد کی اشاعت بند ہوگئی تھی
میں انتہائی مایوس ہوگیا تھا۔میرے پاس نہ تو بجلی کا بل دینے کے لئے پیسے تھے اور نہ ہی کھانے پینے کی اشیا خریدنے کے لئے کوئی رقم موجود تھی۔میرے اہل خانہ تو پہلے ہی میرے والد اور میرے چھوٹے بھائی کے ہاں قیام کے لئے ملتان منتقل ہوچکے تھے۔میرے ایک دوست جس نے کچھ عرصہ قبل مجھ سے کچھ رقم ادھار لی تھی،نے اس میں سے چند سو روپے مجھے واپس کئے اور میں بھی بس میں سوار ہوکر ملتان چلا گیا۔
جوں ہی بھٹو نے اقتدار سنبھالا تو پاکستان ٹایمز کے ایڈیٹر کو یہ احساس ہوا کہ میں نہ صرف ابھی تک زندہ ہوں بلکہ ٹھیک ٹھاک بھی ہوں۔چنانہ انہوں نے مجھےملازمت پر واپس لینے کی خواہش کا اظہار کیا۔ عبداللہ ملک نے مجھے اکیلے پاکستان ٹایمز میں واپس جانے کے خلاف مشورہ دیا تھا۔۔۔ یہ ایسا مشورہ تھا جس کی ضرورت نہیں تھی۔میں ملتان سے لاہور واپسی کافی عرصے تک موخر رکھی تھی۔اس دوران بھٹو نے پی۔پیا۔یل کے سبھی برطرف ملازموں کو ان کی ملازمتوں پر بحال کردیا تھا۔
منہاج برنا جو فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے جنرل سیکرٹری تھے،نے کچھ عرصے بعد یونین کی مجلس عاملہ جس کے عبداللہ ملک اور میں رکن تھے ، کا اجلاس طلب کیا تھا۔ہم اس اجلاس میں شرکت کے لئے راولپنڈی پریس کلب گئے جہاں ہم نےمنہاج برنا کو سردیوں کی دھوپ سے لطف اندوز ہوتے پایا۔انہوں نے کہا کہ آپ دونوں یونین کی رکنیت کے اہل نہیں رہے کیونکہ اب آپ اخبار کے مالک بن چکے ہیں اور کوئی اخبار کا مالک صحافیوں کی یونین کا رکن نہیں بن سکتا۔میں منہاج برنا سے پوچھنا چاہتا تھا کہ میں اتنے سال کس لئے جووجہد کرتا رہا تھا، کوئی شوکاز نوٹس جو آپ نے اس ضمن میں ہمیں جاری کیا ہو،کوئی ایسی گفتگو یا کوئی فون کال جس میں آپ نے ہم سے پوچھا ہو کہ ہم نے کن حالات میں روزنامہ آزاد جاری کیا تھا اور پھر یہ کہ ہم نے بطور مالکان اس کی ملکیت سے کون سے معاشی فوائد حاصل کئے تھے۔لیکن عبداللہ ملک کی طرح میں بھی یونین سے لڑنا نہیں چاہتا تھا۔ وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ منہاج برنا سے میری دوستی گہری ہوتی چلی گئی لیکن پھر کبھی ان کے ساتھ یونین کے امور پر کبھی گفتگو نہیں ہوئی تھی