بھٹوسے منسوب  ’اُدھر تم ،ادھر ہم‘ کی پاس پردہ کہانی
 روزنامہ `آزاد` کی بدنام زمانہ سرخی کی تخلقیق کیسے ہوئی ،  ائی اے رحمان کی خود نوشت کے ایک باب سے اقتباس
(گزشتہ سے پیوستہ )

 آئی ۔اے رحمان کسی تعارف کے محتاج نہیں ہیں۔ وہ تمام عمر روشن خیالی، انسانی حقوق اور سماجی انصاف کی تحریک کا حصہ رہے۔صحافت میں معروضیت اور غیر جانبداری ان کی شخصیت کے تعارف کا خاص حوالہ ہے۔ پاکستان میں انسانی حقوق کی تحریک کی تاریخ ان کے ذکر کے بغیر نامکمل ہے۔ اپنی وفات سے کچھ عرصہ قبل انہوں نے اپنی سوانح عمری انگریزی میں لکھی جو ان کی وفات کے بعد شایع ہوئی ہے۔ذیل میں ان کی خود نوشت کے دسویں باب کا اردو ترجمہ ہے۔

روزنامہ ’آزاد‘ کا اجرا اور ’ادھر تم اور ادھر ہم‘ کی سرخی
کے ۔جی مصطفےٰ پی ۔ایف ۔یو ۔جے کی ایک میٹنگ میں شرکت کے لئے اسلام آباد آئے۔ عبداللہ ملک ،حمید اختر اور میں انھیں ملنے کے لئے اسلام آباد گئےاور بعد ازاں ہم سب حمید اختر کی کار جسے وہ خود ڈرائیو کررہے تھے میں واپس لاہور آگئے۔کے۔جی مصطفےٰنے ہمیں تجویز دی کہ تمہاری ملازمت سے برطرفی کا ایک ہی جواب ہے کہ تم اپنا اخبار جاری کرو۔ہم نے ان کی یہ تجویز مان لی اور اخبار نکالنے کی تیاریاں شروع کردیں۔
روزنامہ ’آزاد‘ کی اشاعت دراصل صحافت کی آزادی پر حملے کا صحافیوں کی طرف سے جواب تھا۔روزنامہ’آزاد‘ کی اشاعت بہت حد تک عبداللہ ملک کے فراہم کردہ وسائل کی بدولت ممکن ہوئی تھی۔انھوں نے اخبار کے دفتر کے لئے اپنے برادر نسبتی کو نکلسن روڈ پر واقع اپنا ملکیتی مکان نہایت معمولی کرائے پر دینے پر راضی کیا تھا لیکن ہم جلد ہی لارنس روڈ پرمنتقل ہوگئے تھے جہاں ہمیں ایم۔اسحاق خان نے ہارون کمپلیکس میں ایک بڑا ہال دے دیا تھا۔
روزنامہ آزاد ہمارے پاس آنے سے قبل ڈمی اخبار تھا جس کے مالک شیخ حسام الدین (احراری رہنما) کے فرزند شیخ ریاض الدین تھے۔عبداللہ ملک نے شیخ ریاض الدین سے اپنے دیرینہ تعلقات کو استعمال کرتے ہوئےانھیں راضی کیا کہ وہ انتہائی معمولی ماہانہ معاوضے پر’ آزاد ‘کا ڈیکلریشن ہمیں استعمال کرنے کی اجازت دے دیں۔انھوں ( عبداللہ ملک) نے مولانا مفتی محمود کے کچھ صاحب ثروت حامیوں سے بھی اخبار کے لئے عطیات فراہمی کا بندوبست کیا تھا۔ابتدائی طور پرروزنامہ’ آزاد‘کی اشاعت کے لئے عطیات دینے والوں میں عبدالحفیظ کاردار(کرکٹر) چوہدری خالد محمود( وکیل اور بعدازاں لاہور ہائی کورٹ کے جج) عمر محمود قصوری اور فلم سٹار محمد علی شامل تھے۔عبداللہ ملک کے ایک کزن جنھیں اخبار کے انتظامی امور چلانے کا تجربہ تھا ہماری ٹیم میں بطور جنرل مینجر شامل ہوگئے تھے۔دفتر میں سٹاف  کے بیٹھنے کے لئے کیبن بنوانے اور خستہ حال پرنٹنگ مشین خریدنے کے بعد ہمارے پاس روزنامہ ’آزاد‘ جاری کرنے کے لئے5000 3 روپے بچےتھے۔ہم نے فیصلہ کیا کہ کسی ایک شخص کو ایڈیٹر کے عہدے پر فائز کرنے کی بجائے ’آزاد‘ کا ادارتی بورڈ تشکیل دیا جائے۔چنانچہ عبداللہ ملک،حمید اختر اور آئی۔اے رحمن اس ادارتی بورڈ کے رکن بن گئے۔
ہم نے نومبر1970میں روزنامہ ’آزاد ‘ کی باقاعدہ اشاعت کا آغاز کردیا تھا۔زیادہ تر سٹاف مئی 1970 میں برطرف کئے گئے صحافیوں پر مشتمل تھا۔ان کے علاوہ کاتبوں کی ایک بڑی تعداد روزنامہ’جنگ‘ سے لی گئی تھی۔دو سنئیر صحافی ابراہیم جلیس اور بشیرالاسلام نے ’آزاد ‘ کی اشاعت میں ہماری مدد کی تھی۔ منہاج برنا کو چونکہ ’پاکستان ٹایمز‘ کی انتظامیہ نے برطرف کردیا تھااس لئے وہ ڈھاکہ نہیں جاسکے تھےوہ بطور چیف رپورٹرہماری ٹیم میں شامل ہوگئے۔اے۔ ٹی چوہدری کے پاس ہمارے لئے وقت نہیں تھا کیونکہ انھوں نے روزنامہ ’ڈان‘ کے لیے  کالم لکھنا شروع کردیا تھا اور اس بنا پر وہ بہت مصروف ہوگئے تھے۔ نثا ر عثمانی وہ واحد شخص تھے جو برطرفیوں کے خلاف لبیر کورٹ میں زیر سماعت کیس کی ہر پیشی پر حاضر ہوا کرتے تھے۔

روزنامہ ’آزاد‘ کے ادارتی بورڈ کے ارکان کی عمروں میں پانچ پانچ سال کا فرق تھا۔ عبداللہ ملک( پیدایش1925 )،حمیداختر(1930 ) اور آئی۔اے رحمن(1935  )۔عمروں کے اس فرق کی بنا پر میرے سنئیر دوستوں نے یہ سمجھ لیا کہ میں 14 سے 15گھنٹے مسلسل دفتر میں بیٹھ سکتا ہوں اور تھوڑا بے وقوف بھی ہوں لہذا انھوں نے مجھے اخبار کی ترتیب و تدوین( لے آوٹ ) کے شعبے کا انچارج بنادیا تھا۔عباس اطہر اور عزیز اختر صبح دفتر کھلتے ہی اگلے دن کے اخبار کی تیاری شروع کردیتے تھے۔اخبار کی پیشانی جس پر اخبار کا نام ،تاریخ اشاعت اور ادارتی بورڈ کے ارکان کے نام ہوتے تھےکو متعین جگہ دینے کے وہ قائل نہیں تھے۔وہ اخبار کے فرنٹ پیج پرپیشانی کی جگہ مسلسل بدلتے رہتے تھے ۔ وہ ایسا اس لئے کرتے تھے تاکہ بک سٹالز پر رکھا اخبار لوگوں کو نمایاں اور منفرد پر نظر آئے۔
’آزاد‘ کا پہلا شمارہ4۔نومبر1970کو شایع ہوا تھا۔ اخبار کی ہیڈ لائن یہ ظاہر کرتی تھی کہ عباس اطہر سرخیوں کے حوالے سے لگے بندھے طریقوں،تکنیک اور روایت پر یقین نہیں رکھتے تھے۔ وہ مختلف انداز میں سرخیاں بناتے تھے۔ان کی سرخیاں چیختی چنگھاڑتی تھیں۔’آزاد‘کی اشاعت سے ایک روز قبل کراچی ائیر پورٹ پر پاکستان کے دورے پرآئے ہوئے پولینڈ کے نائب صدر ایک حادثے میں ہلاک ہوگئے تھے۔انھیں پی ۔آئی۔اے کے وین ڈرائیور نے اپنی گاڑی کی ٹکر مار کر ہلاک کردیا تھا۔’آزاد ‘ کے علاہ سبھی اخبارات کی سرخی تھی کہ پولینڈ کے مہمان ایک حادثے میں ہلاک ہوگئے جب کہ ’آزاد‘ کی سرخی کا مفہوم تھا کہ انھیں ارادتاً ہلاک کیا گیا تھا۔’آزاد‘ کی سبھی سرخیاں غیر متنازعہ نہیں ہوتی تھیں۔1970کے انتخابات کے نتایج جب آئے تو ’آزاد‘ کی ہیڈلائن تھی ’بھٹوآگیا‘ جبکہ  مشرقی پاکستان میں مجیب کی فقیدالمثال کامیابی کو ثانوی اہمیت دیتے ہوئےہیڈ لائن کے نیچے دو کالمی سرخی کے طورپر جگہ دی گئی تھی۔ان سرخیوں میں عدم توازن صاف ظاہر تھا۔بھٹو کی کامیابی کو ہیڈ لائن بناتے ہوئے عباس اطہر نے شاید ’آزاد‘ کی سرکولیشن بارے سوچا ہوگا۔’ آزاد‘ کی سرکولیشن کا محور اور مرکز چونکہ مغربی پاکستان تھا اور یہاں کے عوام کے لئے بھٹو کی کامیابی زیادہ اہمیت رکھتی تھی

 آزاد‘ کی سرخی ’ اُدھر تم ،ادھرہم‘ اس کے لئے نہ ختم ہونے والی بدنامی کا باعث بن چکی ہے۔ اس سرخی کی کہانی اس قابل ہے کہ اسے بیان کیا جائے۔یکم مارچ کو جنرل یحییٰ خان نے نو منتخب قومی اسمبلی کا اجلاس طلب کیا تھا لیکن بھٹو اس وقت تک قومی اسمبلی کے اجلاس کا انعقاد نہیں چاہتے تھے جب تک کہ شیخ مجیب الرحمان کے زیر اقتدار مغربی پاکستان کی حیثیت اور مقام کا تعین نہ ہوجائےبھٹو نے قومی اسمبلی میں دو اکثریتی پارٹیوں۔۔ مشرقی پاکستان میں عوامی لیگ اور مغربی پاکستان میں پیپلزپارٹی ۔ کا نظریہ پیش کردیاتھا۔بھٹو کا یہ نظریہ بہت خطرناک تھا۔بھٹو کا قومی اسمبلی میں دو اکثریتی پارٹیوں کا یہ نظریہ بلاشبہ جنرل یحییٰ خان کے کانوں کے لئے بہت مسحور کن تھا۔ بھٹو نے قومی اسمبلی کے طلب کردہ اجلاس سےقبل 27 فروری 1970 کو لاہور میں جلسہ عام منعقد کرنے کا اعلان کیا تھا اور توقع کی جارہی تھی کہ وہ اس جلسے میں آئین کی تشکیل کے عمل سے پی پی پی کو باہر رکھے جانے کی بابت اپنے خدشات ، اس کے ممکنہ مضمرات اور آئندہ لایحہ عمل بارے اظہار خیال کریں گے۔

عبداللہ ملک،حمید اختر اور میں فیض صاحب کو لے کر لائل پور گئے ہوئے تھے تاکہ وہ ’آزاد‘ کے لئے اپنے دوستوں اور مداحوں سے ہمیں عطیات لے کردیں۔ جب ہم لائل پور سے واپس لاہور آرہے تھے تو راستے میں عبداللہ ملک نے لاہور میں بارش کی دعا مانگنا شروع کردی تھی تاکہ بھٹو کا ہونے والاجلسہ منعقد نہ ہوسکے کیونکہ وہ فضا میں سیاسی بحران مزید پیچیدہ اورگہرا ہونے کی بو سونگھ رہے تھے۔بعد از دوپہر جب ہم نے راوی پل پار کیا تو دیکھا کہ منٹو پارک دھوپ میں چمک رہا تھا اور پرجوش عوام جو ق و جوق در جلسے میں شرکت کے لئے آرہے تھے. ہم ناکام ہوگئے‘۔ عبداللہ ملک نے مایوسی کے عالم میں کہا۔ہم نے بھٹو کے جلسے میں شریک نہ ہونے کا فیصلہ کیا ۔ عباس اطہر اسی دن شام کو روزنامہ ’آزاد‘ کے دفتر کی سیڑھیوں میں بیٹھے ہوئے تھے جب نثار عثمانی جو ان دنوں روزنامہ ’ڈان‘ کے رپورٹر تھے اپنے دفتر جاتے ہوئے ان کے پاس سے گذرے۔عباس اطہر نے عثمانی صاحب سے بھٹو کے جلسے کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے چہکتے ہوئے کہا’اُدھر تم ،ادھر ہم‘۔عباس اطہر نے عثمانی صاحب کے کہے ہوئے اس فقرے کو اگلے دن روزنامہ’آزاد‘ کی ہیڈلائن بنادیا ۔