وہ ایام جن میں پاکستان کے اخبارات شائع نہیں ہوۓ تھے
آئی ۔اےرحمان کی خود نوشت “ A Lifetime of Dissent
A Memoir (Hardback)“ سے اقتباس
آئی ۔اےرحمان کسی تعارف کے محتاج نہیں ہیں۔ وہ تمام عمر روشن خیالی، انسانی حقوق اور سماجی انصاف کی تحریک کا حصہ رہے۔صحافت میں معروضیت اور غیر جانبداری ان کی شخصیت کے تعارف کا خاص حوالہ ہے۔ پاکستان میں انسانی حقوق کی تحریک کی تاریخ ان کے ذکر کے بغیر نامکمل ہے۔ اپنی وفات سے کچھ عرصہ قبل انہوں نے اپنی سوانح عمری انگریزی میں لکھی جو ان کی وفات کے بعد شایع ہوئی ہے۔ذیل میں ان کی خود نوشت کے دسویں باب کا اردو ترجمہ ہے۔
جنرل یحیی خان کا دور حکومت
جنرل یحییٰ خان کا دور حکومت گو کہ مختصر تھا لیکن یہ نہ صرف پاکستان کی ریاست اور سیاست بلکہ خود میرے لئے بھی بہت ہنگامہ خیز ثابت ہوا تھا
جنرل آغامحمد یحییٰ خان نے مارشل لا کے نفاذ کے بعد جو پروگرام اور اہداف متعین کیے وہ اپنے پیش رو فوجی آمروں کی نسبت زیادہ وسیع اور ہمہ جہتی تھے۔جنرل یحییٰ خان نے صنعتی تعلقات اور تعلیم کے شعبوں میں اصلاحات متعارف کرانے کے علاوہ ملک میں عام انتخابات منعقد کرانے، مغربی اور مشرقی پاکستان کے مابین قومی اسمبلی میں موجود پیرٹی ختم کرنے اور مغربی پاکستان میں ون یونٹ جس کی چھوٹے صوبوں میں بہت زیادہ مخالفت پائی جاتی تھی ، کو ختم کرنے کا اعلان کیا تھا۔ جنرل یحییٰ خان نے جو لیگل فریم ورک آرڈر جاری کیا تھا اس میں یہ شرط رکھی گئی تھی کہ نو منتخب قومی اسمبلی اپنے پہلے اجلاس کے انعقاد کے بعد 120دنوں میں نیا آئین تشکیل و ترتیب دینے کی پابند ہوگی اور اگر وہ ایسا کرنے میں ناکام رہی تو خود بخود تحلیل ہوجائے گی۔جنرل یحییٰ خان نے نہ صرف مغربی پاکستان کے صوبوں جنھیں ون یونٹ میں ضم کرکے ان کی صوبائی شناخت کو ختم کیا گیا تھا، کی سابقہ حیثیت بحال کردی بلکہ بلوچستان کو بھی صوبائی درجہ دے دیا تھا۔
بنگالی مغربی پاکستان میں اپنے ممکنہ سیاسی حلیفوں کی تلاش میں تھے۔ اس مقصد کے لئے عوامی لیگ سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر کمال حسین(بنگلہ دیش کے قیام کے بعد وزیر خارجہ)او ر رحمان سبحان نے مغربی پاکستان کا دورہ کیا اور یہاں مختلف سیاسی پارٹیوں کے رہنماوں ،دانشوروں اور صحافیوں سے ملاقاتیں کی تھیں۔مشرقی پاکستان واپس جاکر اس دورکنی وفد نے جو رپورٹ اپنی قیادت کو پیش کی اس کے مطابق آئندہ عام انتخابات میں مغربی پاکستان میں کونسل مسلم لیگ(ممتاز دولتانہ کی مسلم لیگ) کو عددی اکثریت ملنے کا امکان ظاہر کیا گیا تھا۔ہم نے اپنے طورپر شیخ مجیب الرحمان اور ذوالفقار علی بھٹو کے مابین روابط استوار کرنے کی ذمہ داری سنبھالی کیونکہ ہمارے نزدیک ملک کو جمہوریت کی راہ پر چلانے کے لئے ان دونوں سیاسی رہنماوں کے مابین قریبی سیاسی روابط کا قیام بہت ضروری تھا۔
مشرقی پاکستان کے دانشوروں سے ملاقات کا موقع ہمیں پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس نے یوں فراہم کیا کہ جنوری1970میں پی۔ایف۔یو ۔جےنے اپنی سالانہ کانفرنس ڈھاکہ میں منعقد کرنے کا فیصلہ کیا اور اس کانفرنس میں شرکت کے لیے ہم ڈھاکہ گئےتھے۔ڈھاکہ میں قیام کے دوران نورالامین کے بیٹے نے کانفرنس کے شرکاکے اعزاز میں ڈنر کا اہتمام کیا تھا جہاں عوامی لیگ کے رہنماوں ڈاکٹر کمال حسین، رحمان سبحان اور بدرالدین کے ساتھ سیاسی مسائل اور مغربی اور مشرقی پاکستان کے مابین آئندہ تعلقات کے حوالے سے تفصیلی گفتگو ہوئی تھی۔زیادہ گفتگو عبداللہ ملک اور حمید اختر نے کی تھی جب کہ میں دو اور دو چار کرنے کی کوششوں میں مصروف رہا تھا۔ہمارے ڈھاکہ کے دوستوں نے مغربی پاکستان میں پیپلزپارٹی کی بھاری اکثریت سے کامیابی کی ہمارے اندازوں کو مسترد کردیا تھا۔لہذا ان دونوں پارٹیوں کے مابین انتخابات کے بعد آئندہ کے لئے مشترکہ لایحہ عمل کے حوالے سے بات چیت آگے نہ بڑھ سکی تھی۔
ڈھاکہ میں قیام کے دوران میں نے اپنے پی ۔ایف ۔یو۔جے کے متعدد دوستوں سے انتخابات میں عوامی لیگ کی انتخابی کامیابی کے امکانات بارے پوچھا تو سب کا ایک ہی جواب تھا کہ عوامی لیگ فقید المثال کامیابی حاصل کرئے گی۔پی۔ایف۔یو۔جے کے صدر کے جی۔مصطفےٰ کا کہنا تھا کہ عوامی لیگ بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کرئے گی۔ان (کے۔جے مصطفیٰ) کے اندازوں کی بنیاد ماضی میں مشرقی پاکستان کے ووٹرز کے رحجانات پر تھی۔ان کا موقف تھا کہ بنگالی عوام مقبول سیاسی پروگرام کو ہمیشہ بھاری اکثریت سے ووٹ دیتے اور کامیاب بناتے ہیں ۔میرے پاس ان کے اندازوں کی تردید کے ذرایع نہیں تھے۔
ڈھاکہ سے واپسی پر جب میں لاہور پہنچا تو سید سبط حسن جنہوں نے ہفت روزہ ’’ لیل ونہار‘‘ کا دوبارہ اجراکیا تھا،نے مجھے فون کیا اور مشرقی پاکستان کی صورت حال بارے میرے تاثرات پوچھے۔ میں نے انھیں بتایا کہ اس بات کا قوی امکان ہے کہ عام انتخابات میں قومی اسمبلی کی 94فی صد نشستیں عوامی لیگ جیتے گی۔انہوں نے کہا کہ میں اپنے ڈھاکہ کے دورہ کی رپورٹ انھیں ارسال کروں تاکہ اسے ہفت روزہ ’لیل ونہار‘ میں شایع کیا جاسکے۔چنانچہ میں نے رپورٹ لکھی جو ہفت روزہ ’لیل ونہار‘ میں شایع ہوئی تھی۔ہفت روزہ ’لیل ونہار‘ وہ پہلا اخبار تھاجس نے عوامی لیگ کی انتخابات میں فقیدالمثال کامیابی بارے مغربی پاکستان کے عوام کو آگاہ کیا تھا۔
اے۔ٹی چوہدری کا جو موقف تھا وہ پی۔ایف ۔یو۔جے کے تنظیمی ڈھانچے میں بنیادی تبدیلیوں کا باعث بن سکتا تھا اور اس کو تفصیلی بحث و تمحیص کے لئے آیندہ منعقد ہونےوالے اجلاس تک ملتوی کردینا چاہیے تھا لیکن بوجوہ ایسا نہ ہوسکا اور کے ۔جی۔مصطفےٰ کو اے۔ٹی چوہدری کی لفاظی کے سامنے ہتھیار ڈالنے پڑے تھےجب کہ مغربی پاکستان کے مندوبین میں سے کسی نے ان کے موقف سے اختلاف نہیں کیا تھا۔اجلاس میں فیصلہ ہونے کے بعد یہ طے ہوگیا تھا کہ پی۔ایف۔یو ۔جے ویج بورڈ ایوارڈ کو وسعت دے کر اسے پریس ورکرز پر لاگو کرنے کے لئے جدوجہد کرے گی۔
حیران کن طور پر ہڑتال شروع ہونے سے ایک روز قبل میاں ریاض الدین جو شائد اس وقت سیکرٹری لیبر تھے ایکشن کمیٹی سے بات چیت کے لئے کراچی آئے تھے ۔ایکشن کمیٹی نے فیصلہ کیا تھا کہ میں ان سے ملوں۔
میاں ریاض الدین مرکزی سیکرٹری محنت سے ملاقات وزارت صنعت کے دفتر میں ہوئی تھی اور یہاں میں نے پہلی بار نبی احمد ( معروف مزدور رہنما) کو دیکھا تھا۔ اُن سے ملاقات بہت مختصر تھی۔میاں ریاض الدین یہ جاننا چاہتے تھے کہ صحافیوں کے لئے ماسوائے پریس ورکرز ویج ایوارڈ منظور ہونے کے باوجود پی۔ایف۔یو۔جے کیوں ہڑتال کررہی تھی۔میرا جواب تھا کہ اگر ویج بورڈ ایوارڈ پریس ورکرز پر لاگو کرنے کا اعلان کردیا جائے تو ہڑتال کی کال فوری طورپر واپس لی جاسکتی ہےلیکن میاں ریاض الدین میرے موقف سے متفق نہ ہوئے اور میرے پاس چونکہ انھیں کوئی رعایت دینے کا اختیار نہیں تھا لہذا نہ صرف ہڑتال ہوئی بلکہ یہ کامیاب بھی رہی تھی۔روزنامہ ’ڈان ‘ کا عملہ چونکہ ہڑتال پر تھااس لئے انتظامیہ کے ارکان سعید ہارون کی سربراہی میں خبروں اور دیگر مواد کو قابل اشاعت بنانے کی مشقت کرنے پر مجبور تھی۔روزنامہ ’جنگ‘ کے مالک میر خلیل الرحمان ہڑتالی ملازموں جن کی قیادت نیوز ایڈیٹر اجمل کررہے تھے،کے کیمپ میں سے گذر کر خاموشی سے دفتر کی سیڑھیاں چڑھتے تھے۔ہمارے نوجوان ساتھی بالخصوص اقبال جعفری اور عبدالحمید چھاپرا بڑے اقدام جیسا کہ پٹرول پمپ جلانا وغیرہ شامل تھےکرنا چاہتے تھے لیکن انھیں سمجھا بجھا کر اس قسم کے اقدامات سے باز رکھا گیا تھا۔