جمہوریت کا الاؤ ۔ یعقوب پرویز کھوکھر

 بھٹو شہید کی  پھانسی کی سزا کے خلاف احتجاجی خود سوزی کرنے والے بہادر جیالے کو پارٹی نے فراموش کر دیا ہے 

وہ الاؤ جو 5 ۔ اکتوبر 1978ء کو بھٹو شہید کو عدالتی فیصلے پھانسی کی سزا کے خلاف اپنے جسم کو آگ لگا کر جلایا تھا اور اس الاؤ کی روشنی میں پاکستان پیپلز پارٹی کا جمہوری سفر آج تک جاری ہے گزشتہ ماه  پاکستان سپریم کورٹ نے بھی اس الاؤ کی حدت کو محسوس کرتے اور واضح روشنی میں بھٹو شہید کی پھانسی کو عدالتی قتل تسلیم کیا ۔ اب کوئی ہے جو پاکستان کی سیاسی تاریخ کے گمنام کردار یعقوب پرویز کھوکھر کو یہ بتائے کہ تمہاری قربانی رائیگاں نہیں گئی ۔ وہ الاؤ جو یعقوب پرویز کھوکھر نے اپنے جسم کی چربی ، خون اور گوشت سے جلایا تھا ، کیا پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت اسے بھول تو نہیں گئی ؟ کیوں آج کے سرمایہ دار سیاستدان ایسے ہی جمہوریت کے پروانوں کو ویہلے اور فارغ بندے کہہ رہے ہیں ۔ انہیں کیا معلوم یعقوب پرویز کھوکھر کون تھا ؟ راقم  ان سرمایہ داروں کو  یعقوب پرویز کھوکھر اور ہر کارکن کا تعارف کرواؤں گا تاکہ وہ ان جانثاروں کی قربانیوں سے آگاہ ہو کر شہدا جمہوریت کو احترام اور آج کے سیاسی کارکنوں کے ساتھ طبقاتی تفریق کی بجاے برابری کی سطح کا مقام دیں .
یعقوب پرویز کھوکھر مسیح کا تعلق گجرانوالہ سے تھا اور وہ شادی کے بعد اندرون لاہور درپائی ویڑا بھاٹی گیٹ لاہور میں اپنی بیوی اور کمسن بیٹی کے ساتھ رہائش پذیر تھے ۔ یعقوب پرویز کھوکھر اور ان کے ساتھیوں کا ذکر معروف صحافی اعظم معراج نے اپنی کتاب ”دھرتی جائے کیوں پرائے“ میں بھی کیا ہے۔ جس کا ایک اقتباس حاضر ہے۔
 ”بوڑھے پلکن کی یہ سوچ کر روتے ہوئے گگی بندھ  جاتی جب گوجرانوالہ کی پانچ اکتوبر کی ایک ٹھٹھرتی شب میں پولیس کے پہرے میں جوان بیٹے کے لاشے کو دفناتے ہوئے یعقوب عنائت کھوکھر کو جو کہ بحکم سرکار اکیلا اپنے جوان بیٹے یعقوب پرویز کھوکھر کے لاشے کو دفنانے آیا تھا کو پولیس والوں نے یہ کہا کہ” بابا تم نے جوان بیٹا پال پوس کر بے حس دیوتوں کے چرنوں میں قربان کر دیا“۔ بوڑھا عنائت کھوکھر دل میں سوچتا ہے سرکاری تنخواہ دار کیا جانے میرے بیٹے نے اس وطن میں جمہوری قدروں اور جمہوروں کو ذلتوں سے نکالنے کے لئے جان دی ہے لیکن کچھ سالوں بعد ہی اس بوڑھے کی ساری غلط فہمی دور ہو گئی جب اس کا دکھ روز بروز دوگنا ہوتا جب وہ جمہوریت کے نام پر چند گھرانوں کو لاکھوں سے کروڑ اور پھر ارب سے کھرب پتی ہوتے دیکھتا پھر وہ یہ آس اُمید لئے اس دنیا سے رخصت ہوا کہ کبھی غریبوں کے دن بھی بدلیں گے لیکن آج چالیس سال گزرنے کے بعد بھی اس کے دوسرے دونوں بیٹے گوجرانوالہ کے اسی گھر میں غربت سے جنگ لڑتے ہیں اور اگر کبھی کوئی بھولے بسرے ان سے ان کے بھائی کی قربانی کی بات کرے تو اس سے جان چھڑاتے ہیں۔ حالانکہ بھٹو کے لئے خود سوزی کرنے والے وحید قریشی، پرویز یعقوب کھوکھر، عزیز ملک، عبدالرشید عاجز، منور حسین اور عبدالعزیز جیسے بھٹو کی خاطر جیل میں  مرنے والے اپنے پروانوں کیلئے بھٹو نے جیل سے اپنے وارثوں کو کہا تھا
” جب کبھی تم میری یادگار بناو تو اس وقت ان شہدائے اکتوبر کو مت بھولنا جنہوں نے خود کو جلا ڈالا( حوالہ “فرخ سہیل گوندی کی کتاب ”میرا لہو“)
 لیکن پچھلے 40سالوں میں بھٹو کی یاد گاریں تو کئی بنیں  لیکن ان آشفتہ سروں کے جیتے جاگتے بیوی، بچے، ماں ، باپ، بہن، بھائی کچی قبروں کی طرح ڈھے گئے۔

قارئین ان سیاسی ورکروں کے سیاسی نقطہ نظر سے اختلاف کیا جا سکتا ہے لیکن ان کی اپنے مقصد سے لگن اور اس مقصد کے لئے قربانی دینے کے جذبے کو انسان سراہے بغیر نہیں رہ سکتا۔ لیکن افسوس صد افسوس انہیں ان لوگوں نے بھی بھلا دیا۔ جو انہی آشفتہ سروں کی بدولت رفعتیں پاتے رہے ۔ پیپلز پارٹی کے جن آٹھ ورکروں نے اپنے قائد کی پھانسی کی سزا کے خلاف احتجاجاً خود سوزی کی ان میں گوجرانوالہ کے متذکرہ  مسیحی نوجوان یعقوب پرویز کھوکھر بھی تھے لیکن دکھ کی بات ہے کہ جمہوریت کی بحالی اور شہید بھٹو ڈھاۓ جانے والے مظالم کے خلاف اپنی  
 بے مثال و لا زوال قربانیوں  کی بدولت رفعتیں پانے والے اور مزید عہدوں کی توقعات والوں نے بھی انہیں بھلا دیا۔ اگر پیپلز پارٹی کی اعلیٰ قیادت کو اپنے ان شہیدوں کا خیال نہ بھی ہو جو کہ نہیں ہے ” کیونکہ اگر ہوتا تو ملک میں کہیں ان کی یادگاریں بھی ہوتیں“کم از کم یعقوب پرویز کھوکھر جیسوں کی بدولت پیپلز پارٹی پنجاب کے اعلیٰ عہدے حاصل کرنے والی قیادت کو ضرور اپنے ایسے ورکروں کی قبروں پر جا کر انہیں خراج عقیدت پیش کرنا چاہیے۔