کارل مارکس اور بہادر شاہ ظفر
آخری مغل بادشاہ بہادرشاہ ظفرکارل مارکس کا ہم عصرتھا۔ اس کے بارے میں کارل مارکس کی رائے اچھی نہیں تھی وہ اسے فرسودہ جاگیرداری عہد کا نمائندہ سمجھتا تھا اور جوکہ وہ حقیقت میں تھا۔20جولائی 1853 کو امریکی اخبار نیویارک ڈیلی ٹریبیون میں ہندوستان کی حکومت کے عنوان سے کارل مارکس کا جو مضمون شایع ہوا تھا جس میں کارل مارکس نے بہادر شاہ ظفر کی نام نہاد بادشاہت اور اس کے اردگرد موجودماحول کے سطحی پن کو بہت اچھے انداز میں ایکسپوز کیا ہے۔ بہادر شاہ ظفر کے بارے میں کارل مارکس کے مضمون کا یہ اقتباس اس وقت کے ہندوستان کی سیاست اور متحرک سیاسی قوتوں کے کردار کو نہایت معروضی انداز میں بیان کرتا ہے۔
مارکس لکھتا ہے کہ برطانوی حکومت نے وظیفہ خوار بادشاہوں کے لئے 24لاکھ پونڈز سالانہ کی رقم سرکاری خزانے سے مختص کر رکھی ہے۔حالانکہ ان بادشاہوں کا اب کوئی مصرف ہے تو محض یہ ہے کہ بادشاہت کی زبوں حالی اور نہایت شرمناک حالت کا مظاہرہ کیا کریں۔مثال کے طورپر تیمور لنگ کی اولاد خاندان مغلیہ کے چشم و چراغ کو لے لیجیے۔اُ سے 120000پونڈز سالانہ وظیفہ ملتا ہے۔ اس کا رعب و دبدبہ اس کے محل کی ان دیواروں کے اندر محدود ہے جہاں یہ فاترالعقل شاہی خاندان اکیلے پڑے پڑے خرگوشوں کی طرح اپنی نسل بڑھاتا رہتا ہے۔ دہلی کی پولیس بھی اس کے اختیار سے باہر انگریزوں کے ہاتھ میں ہے۔وہاں یہ لاغر، زرد رو بوڑھا انسان نمائشی لباس میں بن سنور کر اپنے تخت پر بیٹھا کرتا ہے اور سونے کے زیورات میں یوں آراستہ ہوتا ہے جیسے ہندوستان کی رقاصہ عورتیں۔کبھی کبھی سرکاری تقریبات میں ، یہ نمائشی کٹھ پتلی زرق برق لباس میں اپنا درشن دیا کرتی ہے جس سے وفاداروں کا دل باغ باغ ہوجاتا ہے۔
بہاد ر شاہ کے دربار میں آنے والوں کو اشرفی نذر دینی پڑتی ہے اور وہ اپنی طرف سے لوگوں کو عمامے اور ہیرے جواہرات وغیرہ عطا کرتا ہے لیکن ان ہیرے جواہرات کو قریب سے دیکھنے پر معلوم ہوتا ہے کہ شاہی جواہرات معمولی شیشے کے ٹکڑے ہیں جن پر نہایت معمولی طریقے سے رنگ چڑھادیا گیا ہے اور وہ جواہرات کی نہایت بھدی نقل ہوتے ہیں اور انھیں اتنی بد سلیقگی سے جوڑا جاتا ہے کہ ہاتھ میں آتے ہی خستہ روٹی کی طرح چور چور ہوجاتے ہیں۔۔۔۔۔ یہ ماننا پڑے گا کہ انگریز کو مہاجن اور ان کے ساتھی انگریز رئیس زادے بادشاہت کو ذلیل کرنے کے فن سے خوب واقف ہیں۔ اپنے گھر میں انھوں نے بادشاہت کو دستور کا لبادہ پہنا کر ایک بے حقیقت شے بنا رکھا ہے جب کہ دوسرے ممالک میں اسے درباری رسوم ادا کرنے کے لئے ایک گوشہ میں چھوڑ دیا ہے اور اب اس نظارے کو دیکھ کر ترقی کے دلدادہ لوگ آپے سے باہر ہورہے ہیں۔
تاریخ و تہذیب از قاضی جاوید سے لیا گیا صفحات 93- 94