لاہور جو کبھی تہذیب و ثقافت کا گڑھ ہوا کرتا تھا وقت کے بے ہنگم ہجوم نے اس سے یہ تہذیب و ثقافت بھی چھین لی لاہور کا لکشمی چوک جہاں کبھی رات گئے جب سینما کا شو ٹوٹتا تو ٹانگوں کی بھرمار ہوا کرتی تھی . تھی لوگ دور دراز سے فلمیں دیکھنے لکشمی چوک کی سنیما مارکیٹ میں ایا کرتے تھے اگرچہ فلمیں ملتان روڈ کے بڑے اسٹوڈیوز میں بنائی جاتی تھی اور اسٹوڈیوز کے سیٹ بھی اس طرح ہوتے تھے جیسے پورا پورا گاؤں موجود ہو. لکشمی چوک کی رونقیں سینما ہی سے اباد تھی کھانے پینے کا بے شمار کاروبار تھا. یہاں سینماؤں کی درجن بھر تعداد ہوا کرتی تھی. کچھ عرصہ قبل راقم نے قیام پاکستان سے قبل تعمیر ہونے والے تاریخی رتن سینما کے بارے میں تحریرکیا تھا کہ تاریخ ایک اہم و نا قابل فراموش باب جو رتن سنیما کی موجودگی میں لاہور کی شان و شوکت کا گواہ تھا کیسے اب پلازہ مافیا کی زد میں ہے
میٹروپول اگرچہ اتنا پرانا نہیں مگر یہ ساٹھ و ستر کی دہائی کے سنیما کے اس سنہرے دور کی یاد دلاتا تھا . جب لاہور فلمی دنیا کا مرکز تھا اور جہاں ہر وہ شخص جو سلور سکرین پر جلوہ گر ہونا چاہتا تھا . اپنے خواب سجائے لاہور کے ان سینموں کا رخ کرتا تھا اور سنیما گھروں سے ملحقہ رائل پارک کے سینکڑوں دفتر جن میں فلم ڈسٹری بیوٹرز ، پروڈیوسر ، ڈائریکٹرز ، موسیقی کار اور فلم کے مخٹلف شعبوں سے وابستہ تخلیق کاروں کی سرگرمیاں شب و روز جاری رہتی تھیں . یہیں سے فلم ساز نئے فنکاروں کو اپنی فلموں کے چھوٹے بڑے کرداروں کے لیے اپنی فلموں میں سائن کرتےتھے
تقسیم سے پہلے لاہور کے 20 سینما کیپیٹل، ڈائمنڈ، کنگ ، نولکھا، نشاط، منروا، پربھات، رٹز، وکٹوریہ، پیراماؤنٹ کراؤن، جوبلی، لکشمی ٹاکیز، جسونت، پیلس، پلازا، ریگل، گولڈن ٹاکیز، پکچر ہاؤس اور امپیریل شامل تھے
1947 کے مارچ کے مہینے میں جب لاہور میں لوٹ مار کا بازار گرم ہوا تو فلمی صنعت سے وابستہ لوگوں کامستقبل ایک سوالیہ نشان بن گیا۔لاہور میں اگرچہ ہندؤں کی آبادی نِصف سے ذرا کم تھی لیکن کاروبار زیادہ تر ہندوں کے ہاتھ میں تھا۔ مال روڈ اور انار کلی میں مسلمانوں کی پراپرٹی بہت ہی کم تعداد میں تھی اور ہمارے بڑے اس بات کے گواہ تھے کہ ہندو کاروبار میں انتہائی ایمانداری کا مظاہرہ کرتے تھے
ہندؤں کے اس کاروباری غلبہ کی بناء پر یہ افواہ سارے شمالی ہندوستان میں گشت کر رہی تھی کہ تقسیم کے وقت لاہور ہندوستان کو دے دیا جائے گا۔ اسی بنا پر بہت سے لوگ مطمئن تھے کہ واپس لاہور ا جائیں گے مگر ایسا نہ ہو سکا
لاہور کی فلم انڈسٹری کی نوے فیصد مارکیٹ و سنیما ہاؤسز غیر مسلموں کے ہاتھ میں تھے ۔ متذکرہ فرقہ وارانہ فسادات نے زور پکڑا تو ہندو آبادی محفوظ مقامات کی طرف کوچ کرنے لگی جس سے یہ انڈسٹری بہت متاثر ہوئی
پران نے 11 اگست 1947 کو اشکبار آنکھوں سے لاہور کو خیر باد کہا
اداکار پران جو لاہور کو دل و جان سے چاہتے تھے آخری وقت تک حالات بہتر ہونے کا انتظار کرتے رہے انھوں نے اپنی بیوی اور ایک سالہ بچے کو اِندور بھیج دیا تھا لیکن خود لاہور چھوڑنے کو انکا دل نہ چاہتا تھا
تقسیم کے وقت پاکستان میں کُل 238 سینما گھر تھے جن میں سے صرف 78 کو متروکہ قرار دیا جا سکا۔ یہی حال اُن بے شمار فلموں کا ہوا جنھیں ہندو پروڈیوسر اور ڈسٹری بیوٹر اپنے دفاتر میں چھوڑ کر محفوظ مقامات پر چلے گئے تھے اور 47 کے بعد یہ لوگ کبھی لوٹ کے واپس نہ ائے
ہم نے لاہور کے خوبصورت اثاثہ کو نہ چھوڑا جہاں کئی پرانی عمارت نظر ائی توڑ کر پلازہ بنا دیا
فلم انڈسٹری تو کئی سالوں سے زوال پذیر ہے جس پر کسی بھی حکومت نے توجہ نہ دی تواخر کار اسی کی دہائی کے اختتامی سالوں سے اپنے وقت کے عالی شان اور انتہائی خوبصورت سینما توڑ کر پلازوں ، پیٹرول پمپس، شو روم ، کار پارکنگ ، تھیٹر میں تیزی سے تبدیل ہونے لگے جبکہ کوئی بھی اس تاریخ و ثقافت دشمن اقدام کی ذمہ داری قبول کرنے کو تیار نہیں چانچہ ہم نے اپنے ہی ہاتھوں سے اپنی ثقافتی نشانیوں کو ختم کرنے کا عمل شروع کر دیا .
بہرحال میٹروپول سینما کو گراتے وقت اس پر جو ضربیں لگائی گئی اس کی اوازیں اج بھی میں محسوس کر رہا ہوں یہ تصاویریں بہت مشکل سے بنائی گئی چونکہ یہاں کچھ م*** افراد کھڑے تھے جو تصویریں اتارنے سے منع کر رہے تھے لیکن پھر ریکویسٹ کرنے پر انہوں نے اتارنے دی تاکہ میں اس یاد کو اپنی گیلری میں محفوظ کر سکوں
بس اب کہنے کو میری ہر تحریر کا عنوان کہ
لاھور جو ایک شہر تھا اب ایک بے ہنگم ہجوم ہے