ہر فلم اسٹار کی طاقت اس کی مخصوص حد تک ہے لیکن ہندی سینما نے اپنی 110 سالہ (1913 تا 2023) تاریخ میں بعض ایسے ستاروں کو بھی جنم دیا ہے جن کی اسٹار پاور لامحدود ہے ـ ان فلمی ستاروں نے جہاں سرمائے کی بڑھوتری میں بھرپور حصہ ڈالا وہاں انہوں نے عالمی سطح پر بھارت کے امیج کو بہتر بنانے میں بھی اپنا کردار ادا کیا اس کے ساتھ ساتھ وہ بھارتی (بڑی حد تک پاکستانی بھی) ثقافت، سماج اور فیشن کے بدلتے انداز پر بھی اثر انداز ہوتے رہے ـ
تین مردوں میں چوتھا نام ایک عورت کا ہے ـ اس عورت نے پہلی دفعہ ہندی سینما کے نسائی پہلو کو عالمی سطح تک پہنچایا ـ وہ عورت ہے مڈل کلاس پسِ منظر سے تعلق رکھنے والی مادھوری ڈکشت ـ
اس مضمون میں ہم جاننے کی کوشش کریں گے کہ پدرسری سماج کی ایک مڈل کلاس لڑکی برصغیر کی پاور فل فلم اسٹار کیسے بنی ـ وہ کیسے بڑے بڑے مرد سپراسٹارز کی موجودی میں اس منصب کو پانے میں کامیاب رہیں ـ
مادھوری ڈکشت 15 مئی 1967 کو ممبئی کے ایک روایتی مڈل کلاس مراٹھی گھرانے میں پیدا ہوئیں ـ ان کے والد شنکر ڈکشت ایک انجینئر تھے ـ مادھوری کے مطابق ان کی والدہ کو آرٹ سے بے حد لگاؤ تھا بالخصوص انہیں کلاسیک انڈین موسیقی میں گہری دلچسپی تھی ـ والدہ نے ہی بچپن میں انہیں کتھک رقص سیکھنے بھیجا اور اس فن کے عبور میں ان کی حوصلہ افزائی کی ـ بھارت کی اکیڈمک فلمی ناقد نندنا بوس کے مطابق مادھوری کا رقص کمسنی میں ہی ممبئی کے اسکولوں میں معروف ہوچکا تھا ـ وہ اسکول کے زمانے میں مختلف ثقافتی تقریبات میں اپنے رقص کا مظاہرہ کرتی تھی ـ یہ سلسلہ کالج تک جاری رہا ـ اس دوران ان کے رقص کی صلاحیت کو دیکھتے ہوئے انہیں نیشنل ڈانس اسکالر شپ بھی ملا ـ
مادھوری بتاتی ہیں ان کا فلموں میں آنے کا کوئی ارادہ نہ تھا ـ اس بارے میں انہوں نے کبھی سوچا بھی نہ تھا ـ یہ تو ان کے والد کے ایک دوست تھے جو انہیں فلم انڈسٹری میں لائے ـ راجشری پروڈکشن سے منسلک ان کے والد کے دوست نے بالاصرار مادھوری کو کمپنی کی فلم “ابودھ” (1984) کا حصہ بنایا ـ اس وقت وہ صرف 17 سال کی تھی ـ مادھوری کا قدامت پرست ننھیال سینما کو گھٹیا شعبہ سمجھتا تھا ـ بڑی مشکل سے ننھیال کو یہ بتا کر راضی کیا گیا کہ یہ ایک فیملی ڈرامہ فلم ہے جس میں کوئی لچر بازی نہیں ہے ـ
مادھوری ڈکشت کے رقص کی وجہ سے تاہم فلم ساز انہیں کاسٹ کرنے پر مصر رہے ـ “ابودھ” کے بعد انہوں نے “آوارہ باپ” (1985) ، “سواتی” (1986) ، “مانو ہتھیا” (1986) “حفاظت” (1986) اور “دیاوان” (1988) وغیرہ فلمیں کیں یہ سب فلمیں ماسوائے “دیاوان” یکے بعد دیگرے باکس آفس پر فلاپ ہوتی رہیں ـ
“دیاوان” کی کامیابی میں بھی ان کا کوئی کردار نہ تھا ـ اس فلم میں نہ صرف ان کا کردار واجبی سا تھا بلکہ فلم کے ہیرو ونود کھنہ کے ساتھ ان کی مرضی کے برخلاف بولڈ سین نے خاصی تلخی بھی پیدا کی ـ ان کے روایتی مراٹھی گھرانے میں بھی اس سین کو لے کر اچھا خاصا ہنگامہ کھڑا ہوگیا ـ اس تلخ واقعے کے بعد انہوں نے دوبارہ کبھی بھی اس قسم کے سینز نہیں کئے ـ اس سین کا ہی اثر تھا کہ اس کے بعد مادھوری کی ہر شوٹنگ میں ان کا کوئی نہ کوئی بزرگ فیملی ممبر ساتھ آتا تھا ـ مادھوری بتاتی ہیں کہ میری فیملی کو کاسٹنگ کاؤچ کا بھی ڈر لگا رہتا تھا کہ کہیں کوئی میرا جنسی استحصال نہ کرے ـ بہرکیف ؛ مختصر یہ وہ مسلسل تین سال تک ایک ناکام اداکارہ رہیں ـ
اس دوران ایک اور واقعہ بھی ہوا جس نے مادھوری ڈکشت سمیت ہندی سینما کو بھی بدل دیا ـ اس واقعے کی تصدیق مادھوری ڈکشت سمیت متعدد صحافی بھی کر چکے ہیں ـ
ہوا یہ کہ مادھوری فلم “آوارہ باپ” کی شوٹنگ میں مصروف تھی اسی وقت ہدایت کار سبھاش گئی اپنی فلم “کرما” (1985) کے لئے لوکیشن تلاش کرتے کرتے اس طرف آ نکلے ـ مادھوری کے میک اپ مین جو ان کی صلاحیتوں کے معترف تھے نے سبھاش گئی سے مل کر مادھوری کی تعریف میں زمین آسمان ایک کرکے ان سے لڑکی کو ایک چانس دینے کی درخواست کی ـ سبھاش گئی اسکرین ٹیسٹ لینے پر آمادہ ہو گئے ـ
اسکرین ٹیسٹ کے بعد سبھاش گئی کے منہ سے نکلا “یہ لڑکی تو ٹیلنٹ کا آتش فشاں ہے” ـ “کرما” کی کاسٹ اور آدھی شوٹنگ مکمل ہوچکی تھی اس لئے مادھوری کو اس کا حصہ بنانا ممکن نہ تھا ـ سبھاش گئی نے فلم میں مادھوری کا ایک ڈانس نمبر ڈال دیا ـ فلم کی فائنل ایڈیٹنگ میں اس رقص کو دوبارہ دیکھ کر سبھاش گئی نے ارادہ بدل دیا ـ انہوں نے فلم سے رقص حذف کیا اور سیدھے پہنچے مادھوری کے پاس ـ
سبھاش گئی نے مادھوری سے کہا کہ ایک رقص آپ کے ٹیلنٹ کی گواہی نہیں دے سکتا میں آپ کو اپنی اگلی فلم کی ہیروئن بنانا چاہتا ہوں ـ انہوں نے اسی وقت “رام لکھن” (1989) کے لئے مادھوری سے معاہدہ کر لیا ـ
مادھوری اس سے پہلے ہدایت کار این چندرا کے ساتھ فلم “تیزاب” کا معاہدہ کر چکی تھی ـ سبھاش گئی کی ہی درخواست پر “تیزاب” کی ریلیز سے پہلے مادھوری کی ری لانچنگ پر ایک اشتہار تیار کیا گیا جس میں انہیں “مدھو بالا کا دوسرا جنم اور مینا کماری کی بازگشت” کے نام سے پکار کر مستقبل کی سپراسٹار قرار دیا گیا ـ
سبھاش گئی “کالی چرن” ، “قرض” ، “ہیرو” ، “میری جنگ” اور “ودھاتا” جیسی سپرہٹ فلمیں دینے کے باعث انڈسٹری کے “شومین” سمجھے جاتے تھے ـ ان کی جانب سے جب اشتہار چلا تو ہر کس و ناکس کی توجہ مادھوری کی جانب چلی گئی جو فلم “تیزاب” کی صورت دھماکہ کرنے والی تھی ـ
“تیزاب” میں جاوید اختر کے لکھے گیت “اک دو تین” پر مادھوری کے رقص اور فلم میں ان کی اداکاری نے انہیں راتوں رات شہرت کی بلندیوں پر پہنچا دیا ـ وہ جو ناکامی کے ٹیگ سے ڈر رہی تھی اس نے فلمی دنیا کو تہہ و بالا کرنے کا آغاز کردیا ـ
اس کے بعد مادھوری نے پھر پیچھے مڑ کر نہ دیکھا ـ وہ مدھو بالا کا دوسرا جنم تسلیم کی گئیں ـ تاہم مقبولیت میں انہوں نے ماضی کی حسین ساحرہ کو بھی کوسوں پیچھے چھوڑ دیا ـ ایک وقت ایسا آیا جب ان کا تقابل امیتابھ بچن سے کیا جانے لگا ـ گارجین نے ان کی عوامی مقبولیت پر تبصرہ کرتے انہیں “ون وومن آرمی” کا خطاب دیا ـ
مادھوری کے فلمی کیریئر اور اسٹار پاور کے ارتقا پر بحث سے پہلے مختصرا ان حالات کا جائزہ لینا بہتر ہوگا جو فلم انڈسٹری میں ان کے آنے سے پہلے چل رہے تھے ـ
ہندی سینما کی تاریخ میں معیار اور سمت کے لحاظ سے بدترین وقت 80 کا عشرہ ہے ـ یہ دہائی وزیراعظم اندرا گاندھی کی نافذ کردہ ایمرجنسی (1975-77) کے زہر سے آلودہ ہوچکا تھا ـ اندرا گاندھی کی پالیسیوں کے ردعمل سے جنم لینے والا اینگری ینگ مین سینما بھیڑ چال کے باعث اپنی احتجاجی خو چھوڑ کر اوٹ پٹانگ تشدد کا بدبو دار ملغوبہ بن چکا تھا ـ بدلہ، ریپ، مضحکہ خیز حب الوطنی اور چیختے چلاتے مکالموں نے کمرشل ہندی سینما کو تاریک راہوں کا راہی بنا دیا تھا اس زمانے میں عام طور پر ملٹی کاسٹ فلمیں بنانے کا رواج تھا ـ فلم میں عموماً دو سے تین ہیرو اور ہیروئن ہوا کرتے تھے ـ ہیروؤں کی بھرمار اور مار دھاڑ کے باعث اداکاراؤں کو خاصا کم اسکرین ٹائم ملتا تھا ـ
سینما ابھی سیاسی و سماجی اتھل پتھل سے جھٹکے کھا ہی رہا تھا کہ رہی سہی کسر آپریشن بلو اسٹار (1984) اور اس کے ردعمل میں اندرا گاندھی کے قتل نے پوری کردی ـ
اندرا گاندھی کے قتل کے بعد راجیو گاندھی وزیراعظم منتخب کئے گئے ـ انہیں ورثے میں سیاسی لحاظ سے ایک غیر مستحکم حکومت ملی ـ ان کی سیاسی سمجھ بوجھ بھی اپنی ماں کی نسبت اوسط درجے کی تھی ـ انہوں نے کانگریس کی گرتی ساکھ کو سنبھالنے کے لئے نہایت ہی کم زور پالیسیاں مرتب کیں ـ ان کی کم زور پالیسیوں سے ہندو قوم پرست قوتوں کو بے حد بڑھاوا ملا جنہوں نے نہرو کے ہندوستان کو ہمیشہ کے لئے دفن کر دیاـ 80 کے عشرے کا سینما ملک میں جاری سیاسی عدم استحکام کا عکس بن کر رہ گیا ـ
بے سمت سینما کو ایک اور بحران کا بھی سامنا تھا ـ یہ وی سی آر اور ویڈیو کیسٹ کا زمانہ تھا جس نے سینما کی افادیت پر سوالیہ نشان لگا دیا تھا ـ ممبئی فلم انڈسٹری کے کرتا دھرتا اس نئی ایجاد کا توڑ نکالنے میں مسلسل ناکام ثابت ہو رہے تھے ـ اسی دوران ہدایت کار رامانند ساگر نے دوردرشن پر “رامائن” سیریز (1987) دکھانی شروع کردی ـ رامائن کی بے پناہ مقبولیت نے جہاں شکست و ریخت کے شکار سماج کو مذہب کی جانب دھکیلا وہاں اس نے سینما پر جاری دباؤ کی شدت کو بھی کئی گنا بڑھا دیا ـ
بعض سیاسی تجزیہ کاروں کا دعوی ہے کہ رامانند ساگر کو اس کی ترغیب میڈیا میں سرایت کر جانے والے آر ایس ایس کے اذہان نے دی ـ یہ خیال بھی ظاہر کیا جاتا ہے کہ کانگریس نے حل طلب سیاسی و معاشی مسائل سے محنت کشوں کی توجہ ہٹانے کے لئے انہیں بقول کارل مارکس مذہب کا افیون فراہم کرنے کی کوشش کی ـ رامانند ساگر خود اس تصور رام راج کے ماننے والے تھے یا وہ واقعی آر ایس ایس کی خواہشات پر عمل کر رہے تھے یا اس کے پیچھے انڈین نیشنل کانگریس کی کوئی چال تھی ؛ اس کا حتمی جواب تو نہیں ہے مگر یہ طے ہے کہ اس ڈرامے نے سینما اور سماج کی شکل بدلنے میں کلیدی کردار ادا کیا ـ
“کلیدی” پر معروف بھارتی دانش ور ارون دھتی رائے کا تبصرہ بھی گہری معنویت رکھتا ہے ـ انہی ادوار میں راجیو گاندھی کے حکم پر بابری مسجد کا قفل کھولا گیا ـ اس واقعے پر نوے کی دہائی میں ارون دھتی رائے نے فرمایا”ملک میں دو قفل کھولے گئے ، ایک بابری مسجد کا تالا جس نے اکثریت کی بنیاد پرستی (ہندو بنیاد پرستی) کو جنم دیا اور دوسرا تالا سرمائے کا ہے جس نے سرمایہ دارانہ بنیاد پرستی کے جن کو آزاد کیا، آج کا بھارت ان دونوں کھلے تالوں کے درمیان جھول رہا ہے”
رامانند ساگر نے “رامائن” کے بعد اسی انداز میں عظیم رزمیہ داستان “مہا بھارت” کو بھی ڈرامے کے قالب میں ڈھالا ـ ان دونوں سیریلز نے شمالی ہندوستان کی مذہبی ثقافت پر گہرے اور دور رس اثرات مرتب کئے ـ بقول ارون دھتی رائے اکثریت کی بنیاد پرستی نے اپنے پر پھیلائے ـ
بھارت کے معروف فلم ناقد وجے مشرا نے ہندی سینما پر لکھے اپنے ایک تنقیدی مضمون میں ان دونوں ڈراموں کا حوالہ دیتے موقف اپنایا ہے کہ انہوں نے ہندو سماج کو “اجتماعی ہسٹریا” کا شکار بنا دیا ـ مشرا نے ہندی سینما میں ہندو توا سیاست کے محرکات پر بحث کرتے ہوئے ان دونوں سیریز پر خصوصی توجہ دی ہے ـ ان کے مطابق بھارت میں ہندو توا کی بڑھوتری میں جہاں بھارتیہ جنتا پارٹی کے رہنما ایڈوانی کی “رتھ یاترا” کا کردار ہے وہاں اس “رتھ یاترا” کو نظریاتی ماحول رامانند ساگر کی “مہا بھارت” نے ہی فراہم کیا جس میں اسی قسم کا رتھ اور اس کے ساتھ چلتے پرجوش سیوکوں کو پورے اہتمام کے ساتھ دکھایا گیا ـ
اسی (80) کے عشرے کے ہنگامہ ماہ و سالوں میں نام نہاد افغان جہاد ، پاکستان میں ضیا کا اسلام، ایرانی انقلاب، اندرا گاندھی کی متشدد اور راجیو گاندھی کی کم زور پالیسیوں کے گونا گوں اثرات نے جہاں ایک طرف اس دہائی کے سینما کو بے سمت بنا دیا وہاں اگلے عشرے یعنی نوے کی دہائی میں اس عشرے کے اثرات نے پوری کہانی ہی پلٹ دی ـ چوں کہ اس مضمون کا بنیادی موضوع نوے کی دہائی ہے اس لئے مادھوری کے اسٹارڈم کے ارتقا پر بحث کے دوران زیادہ توجہ نوے کے عشرے پر ہی دی جائے گی ـ
80 کی دہائی میں ہندی سینما پر امیتابھ بچن کا بلا شرکت غیرے راج تھا ـ البتہ اس دہائی کے آخری سالوں میں سری دیوی نے بھی اپنا آپ منوایا اور وہ ہندی سینما کی پہلی باضابطہ خاتون سپراسٹار بن کر سامنے آئی ـ بالخصوص “نگینہ” (1986) , “آخری راستہ” (1986) “مسٹر انڈیا” (1987) , “چالباز” (1989) اور “چاندنی” (1989) کی شان دار کامیابیوں نے انہیں شہرت کے اونچے سنگھاسن پر پہنچا دیا ـ ان کا دلفریب رقص جس میں بھرت ناٹیم کی بھی بھرپور آمیزش ملتی ہے نے انہیں ماضی میں جنوب سے آنے والی تمام اداکاراؤں پر سبقت دلا دی تھی ـ
مادھوری ڈکشت جس سینما میں اپنی جگہ بنانے کی کوشش کر رہی تھی اس کے زنانہ شعبے پر بلاشبہ اس وقت سری دیوی کا راج تھا ـ تاہم سری دیوی زبردست ٹیلنٹ کے باوجود “ون وومن آرمی” نہ بن سکی ـ اس کی وجوہات پر آگے چل کر مزید تفصیل سے بحث کریں گے ـ
اس تباہ کن دہائی کے اواخر میں عامر خان (“قیامت سے قیامت تک ـ 1988) اور سلمان خان (میں نے پیار کیا ـ 1989) جیسے نئے نوجوانوں کی انٹری ہوئی جو اپنے ساتھ مضحکہ خیز حب الوطنی، بدلہ، ریپ اور سنسنی خیز تشدد کی بجائے لطیف رومانٹک فلموں کی بہار لائے ـ ان دونوں کے بعد اجے دیوگن (پھول اور کانٹے ـ 1991) اور شاہ رخ خان (دیوانہ ـ 1992) آئے، انہوں نے بھی دیگر دو خانز کی طرح رومانس کا ہی دامن تھاما ـ نئے خون اور فریش چہروں کی آمد نے فضا بدلنے میں اہم کردار ادا کیا ـ فلم بین ایک دفعہ پھر فیملی کے ساتھ سینما دیکھنے آنے لگے ـ نئے نوجوان چہروں نے رومانٹک فلموں کی جو بنیاد رکھی اس نے نوے کی پوری دہائی میں خود کو برقرار رکھا ـ
ہندی سینما میں جو رومانس 60 کی دہائی میں پیش کیا گیا پھر جسے راجیش کھنہ (ارادھنا ـ 1969) نے نیا آہنگ دیا وہ نوے کے عشرے میں پوری طرح بدل گیا ـ نوے کے عشرے کے رومانس پر لبرل تفکر حاوی رہا جو نہرو کی مکسڈ اکانومی پر نرسہما راؤ کی نیو لبرل معیشت کی فتح کا اشاریہ ہے ـ
مادھوری ڈکشت دونوں رجحانات کے ہمراہ آئی ـ جب انہوں نے فلم ابودھ (1984) کے ساتھ فلمی دنیا میں قدم رکھا تب نہرو پالیسی اندرا گاندھی کی شکل میں اپنی آخری سانسیں گن رہی تھی ـ مادھوری ڈکشت کو پہلی کامیابی “تیزاب” 1988) سے ملی ، اس وقت سیاسی ماحول افراتفری کا شکار ہو کر مکسڈ اکانومی کا گورکن بن چکا تھا ـ اگر یہ سلسلہ چلتا رہتا تو شاید مادھوری اپنے ٹیلنٹ کے باوجود شہرت و مقبولیت کے اس اونچے مینار پر نہ پہنچتی جہاں وہ نوے کے عشرے (راجیو گاندھی قتل کے بعد) میں پَر لگا کر پہنچی ـ ان کے اسٹار پاور کو انڈین نیشنل کانگریس کی نئی معاشی پالیسی کے اثرات کے ساتھ ہی دیکھنا ہوگا ـ اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ وی سی آر جس نے 80 کے عشرے میں ہندی سینما کو پریشان کر رکھا تھا
ہندی سینما ایک نیم جاگیردارانہ پدر شاہی صنعت ہے ـ اس صنعت میں داخلے اور کامیابی کے لئے آزادانہ مقابلے کا کوئی گزر نہیں ہے چاہے داخلے کا خواہش مند کتنا ہی قابل کیوں نہ ہو ـ اگر معاملہ کسی عورت کا ہو تو مردانہ اجارہ داری کے باعث اس کی کامیابی کا سوال مزید پیچیدہ ہوجاتا ہے ـ چالیس اور پچاس کی دہائیوں میں نوآبادیاتی جاگیردارانہ کلچر کے باعث کسی مخصوص طاقت ور فرد یا ادارے کی حمایت سے کسی حد تک کامیاب ہونا ممکن تھا مگر 60 کے عشرے میں آنے والی سماجی و معاشی تبدیلیوں نے کامیابی تک پہنچنے کے عمل کو گنجلک بنا دیا ـ
مادھوری ڈکشت جیسی “آؤٹ سائیڈر مڈل کلاس” جس کا کوئی بھی فلمی بیک گراؤنڈ نہیں تھا کے لئے تن تنہا کامیابی کی سیڑھیاں چڑھنا ممکن ہی نہ تھا ـ مردانہ بالا دستی پر مبنی صنعت میں کسی طاقت ور مرد یا مردوں کی حمایت کے بنا ایک قدم چلنا بھی ماؤنٹ ایورسٹ سر کرنے جیسا ہے ـ
مادھوری ڈکشت کے اسٹارڈم کے پیچھے بھی صرف ان کی قابلیت کا کردار نہیں ہے بلکہ اس کے پسِ پشت سیاسی و سماجی عوامل کے ساتھ ساتھ بااثر افراد کا بھی اہم کردار ہے ـ ذیل میں ہم فرداً فرداً ان کرداروں کا مختصر جائزہ لیں گے ـ
بھارت کی اکیڈمک فلمی ناقد نندنا بوس کے مطابق مادھوری ڈکشت کو اسٹار بنانے میں اہم ترین کردار ہدایت کار سبھاش گئی کا ہے ـ وجے مشرا نے بھی نوے کے عشرے کے ہندی سینما پر لکھے اپنے مضمون میں سبھاش گئی کو مادھوری کا گاڈ فادر بتایا ہے، ان کے مطابق سبھاش گئی کا مادھوری کی فلمی زندگی میں وہی کردار ہے جو راج کپور کا نرگس اور گرودت کا وحیدہ رحمان کے لئے رہا ـ
اس میں کوئی شک نہیں سبھاش گئی وہ پہلے فرد تھے جنہوں نے مادھوری کی صلاحیتوں کو نہ صرف پہچانا بلکہ عوامی سطح پر انہیں مستقبل کا سپراسٹار بھی قرار دیا ـ وہ مسلسل اپنے بیانات میں مادھوری کو باصلاحیت اور مستقبل کی بہت بڑی اداکارہ کے نام سے پکارتے رہے ـ انہوں نے مادھوری کو پہلا بڑا بریک اپنی فلم “رام لکھن” (1989) میں دیا جس میں دو ہیرو (انیل کپور و جیکی شیروف) اور اس دور کی معروف اداکارہ ڈمپل کپاڈیا کی موجودگی کے باوجود انہیں ان کے حصے سے زیادہ اسکرین ٹائم دیا اس کے ساتھ ساتھ لتا منگیشکر کی آواز میں سدا بہار گیت “او رام جی بڑا دکھ دینا تیرے لکھن میں” کے ذریعے ان کے کتھک ڈانس کو شان و شوکت کے ساتھ دکھانے کا زبردست موقع بھی فراہم کیا ۔
سبھاش گئی کے نام کے ساتھ جُڑت ہی وہ سب سے بڑی وجہ تھی جس نے مادھوری کے در کے سامنے پروڈیوسرز کی لائن لگا دی ـ گئی نے بعد ازیں اپنی بلاک بسٹر فلم “کھل نائیک” (1993) میں مادھوری کی صلاحیتوں کا اتنا عمدہ استعمال کیا کہ فلم کے دوسرے ہیرو اور سبھاش گئی کے پسندیدہ اداکار جیکی شیروف پسِ منظر میں چلے گئے ـ یہ فلم اس وقت اور آج بھی سنجے دت اور مادھوری کے نام سے پہچانی جاتی ہے ـ “کھل نائیک” مادھوری کے اسٹار پاور کو کئی گنا بڑھانے کا سبب بھی بنی ـ
مادھوری ڈکشت خود بھی اپنے متعدد انٹرویوز میں سبھاش گئی کو اپنا گاڈفادر مان چکی ہیں ـ مادھوری بتاتی ہیں کہ اگر سبھاش میرا ہاتھ نہ تھامتے تو شاید آج میں وہ نہ ہوتی جو ہوں ـ
*انیل کپور*
ہندی فلم انڈسٹری کے معروف ٹریڈ تجزیہ کار کومل نھٹا (ٹریڈ تجزیہ کار ترن آدرش کے کزن) مادھوری کی فلموں کے تجارتی تجزیے میں لکھتے ہیں “ڈکشت کی تجارتی کامیابیوں میں سب سے بڑا کردار بونی کپور اور انیل کپور کا ہے” ـ انیل کپور خود مادھوری کے متعلق بتاتے ہیں فلم “حفاظت” (1987) میں ان کی ہیروئن مادھوری تھی ، جب میں نے پہلی بار ان کو سیٹ پر دیکھا تو مجھے وہ ایک شرمیلی اور چھوئی موئی سی لڑکی لگی ، مجھے سخت غصہ آیا اور میں نے فلمی ٹیم سے کہا یہ کس گنوار کو پکڑ کر لائے ہو ـ انیل مزید بتاتے ہیں پھر رفتہ رفتہ مجھے احساس ہوا وہ ایک سلجھی ہوئی سمجھ دار خاتون ہیں ـ
مادھوری خود بھی اعتراف کرتی ہیں کہ شوٹنگ کے دوران ان کے شرمیلے پن اور گبھراہٹ کو دور کرنے میں انیل کپور نے ان کی بہت مدد کی ـ انیل کپور “وہ سات دن” (1983) ، “مسٹر انڈیا” (1987) اور “مشعل” (1984) کی زبردست کامیابیوں کے باعث اس وقت ہندی سینما کے اہم اداکاروں میں شمار ہوتے تھے پھر ان کا فلمی پسِ منظر بھی خاصا مضبوط تھا ـ وہ فلم انڈسٹری کے پاور فُل خاندان راج کپور کا حصہ تھے، ان کے بڑے بھائی بونی کپور ایک کامیاب پروڈیوسر تھے ـ بونی کپور اور انیل کپور نے مادھوری کو انڈسٹری میں قدم جمانے میں کماحقہُ مدد فراہم کی ـ انیل کپور کے ساتھ ان کی مسلسل فلموں جیسے “تیزاب” ، “رام لکھن” ، “پرندہ” ، “جیون اک سنگھرش” ، “جمائی راجہ” ، “پرتیکار” اور “بیٹا” وغیرہ وغیرہ نے ان کے اسٹارڈم کو آگے بڑھانے میں خصوصی کردار نبھایا ـ
مادھوری جب خود ایک پاور فُل اسٹار بن گئیں تب بونی کپور کی درخواست پر انہوں نے سابقہ مہربانیوں کے بدلے اپنی اسٹار پاور کو استعمال کرکے ان کے چھوٹے بھائی سنجے کپور کے کیریئر کو سہارا دیا (فلم “راجہ”) ـ ٹریڈ تجزیہ کار کومل نھٹا کے مطابق “راجہ” (1995) صرف اور صرف مادھوری کی وجہ سے ایک بلاک بسٹر ہٹ فلم ثابت ہوئی اور اس فلم نے باکس آفس پر جو تباہی مچائی اس نے سنجے کپور کے ڈوبتے کیریئر کو دوبارہ ابھرنے کا نادر موقع دیا” ـ