پرنٹ جرنلزم کی روشنائی ، ٹیلی ویژن کی لہروں میں گونجتا  طاہر ملک 

 پنجابی لاہورئیے، آزاد منش سیاح ، محقق ، ماہر تدریس  اور یاروں کے یار ممتاز صحافی کے لیے لکھا گیا دیرینہ دوست کا  محبت نامہ 

لاہور کی ثقافتی سرگرمیوں سے بھرپور گلیوں میں، جہاں تاریخ اور جدیدیت آپس میں جڑی ہوئی ہے، ایک ایسا شخص موجود ہے جس کا نام پرنٹ جرنلزم کی روشنائی اور ٹیلی ویژن کی لہروں میں گونجتا ہے — طاہر ملک۔
کالج کے دنوں کے دوست کی حیثیت سے، میں نے طالب علم سے لے کر تجربہ کار صحافی تک ان کے ساتھ زندگی اور صحافت کا سفر طے کیا ہے۔ اور میں نے فخر کے ساتھ طاہر ملک کے سفر کے لیے اس تعریفی نوٹ کو قلمبند کیا ہے۔
لوہاری دروازے سے سفر کاآغاز:
گورنمنٹ کالج لاہور آنے سے پہلے طاہر نے اندرون شہر کے اردو میڈیم سکول سے تعلیم حاصل کی۔ کالج کے بعد طاہر کی علم کی جستجو انہیں پنجاب یونیورسٹی تک لے گئی، جہاں وہ جرنلزم کے فن میں غرق ہو گئے۔
اس کا جرنلزم کا جذبہ شدید تھا۔ لیکن سماجی اور معاشی دباؤ کے تحت اور شاید قسمت اسے پنجاب پولیس میں ایک اچھی نوکری کی طرف لے آئی۔ لیکن تقدیر کے دوسرے منصوبے تھے۔
آزاد روح
طاہر کی روح نے نوکر شاہی کی دیواروں میں قید ہونے سے انکار کر دیا۔ اس کی ایمانداری کا حکومتی نظام کے ساتھ ٹکراؤ ہوا، اور اس نے ایک جرات مندانہ انتخاب کیا – ایک ایسی ملازمت جو پنجاب کے فیوڈل معاشرے میں اکثر نوجوانوں کا خواب ہوتا ہے۔
طاہر کا پولیس سے مستعفی ہونے کا فیصلہ کرتا ہے جو اس کے والدین اور رشتہ داروں اور دوستوں کے لیے ایک حیران کن فیصلہ تھا۔ بے خوف ہو کر اس نے ایک بین البراعظمی سفر کا آغاز کیا۔ ریاستہائے متحدہ اس کا مسکن بن گیا، جہاں اس نے ماس کمیونیکیشنز میں ڈگری لی، کچھ کمایا مگر زیادہ خرچ کیا۔
وطن واپسی
شاید طاہر ملک واپس نہ آتا، لیکن بھائی کا ایک حادثہ اور والدین سے لگاؤ نے اسے واپس آنے پر مجبور کیا۔ چند سال بیرون ملک رہنے کے بعد، طاہر اُس سرزمین پر واپس آیا جو اس کے سینے میں دھڑکتی ہے، یعنی پاکستان کا دل لاہور
قدامت پسند اردو روزنامہ نوائے وقت نے ان کا خیر مقدم کیا۔ لیکن طاہر کوئی عام صحافی نہیں تھا۔ اس نے ایک نئی ثقافت، ایک نیا نقطہ متعارف کرایا۔ شہر میں غیر ملکی مہمانوں سے ملاقات کرکے وہ الفاظ میں ان پر ثقافتی تامل کی تصویر کشی کرتا تھا۔
ٹیلی ویژن کا دور
پاکستان میں جیسے ہی ٹیلی ویژن چینلز کے دور کا آغاز ہوا طاہر نے خود کو اس تاریخی موڑ کا شریک سفر دیکھا۔ جیو ٹی وی اس کا پلیٹ فارم بن گیا، اور چینل اس کی پیشہ ورانہ خدمات سے مستفید ہونے لگا۔
لیکن طاہر کا مشن سرخیوں سے آگے بڑھ گیا۔ اس نے صحافیوں کی زندگیوں — ان کی آمدنیوں، جدوجہد اور خوابوں کا مطالعہ کیا۔ ڈاکٹر تنویر نے طاہر ملک کی ریسرچ کو جرنلسٹس ریسورس سینٹر (JRC) کے پلیٹ فارم سے شائع کیا ۔ مجموعی طور پر صحافیوں کی آمدن اور معاشی حالات پر یہ اپنی نوعیت کا ایک منفرد تحقیق مطالعہ تھا۔
اتھارٹی کو چیلنج کرنا
اب سے چند برس پہلے لاہور کے ایک چینل پر عارف بھٹی اور قاضی سعید کے ہمراہ طاہر نے اپنے منفرد کونٹنٹ کی بدولت اس پروگرام میں اپنی جگہ بنائی جو قاضی کی اعلیٰ دانشوری اور عارف کے عوامی انداز کے درمیان ایک دلچسپ توازن تھا۔
طاہر ملک نے محض خبریں نہیں دیں۔ اس نے اسٹیبلشمنٹ کے موقف کو چیلنج کیا۔ اس کے قلم نے طاقتوروں کو چیلنج کرتے ہوئے سچائی کو دبانے کی کوششوں کو ناکام بنانے کی کوشش کی۔ بعض اوقات اس کوشش کی بڑی بھاری قیمت ادا کرنا پڑتی ہے۔
اس کی پیشہ ورانہ دیانت غیر متزلزل تھی۔ اس نے کبھی بھی کسی سیکیورٹی ایجنسی کی دھن پر رقص نہیں کیا، مگر سمجھداری کے ساتھ پھر بھی براہ راست تصادم سے گریز کیا – پاکستان میں اس قسم کی میانہ روی قائم رکھنا پلِ صراط پر چلنے کے مترادف ہے جہاں ایک معمولی سی لغزش آپ کو ایک گہری کھائی میں گرا سکتی ہے۔
امن پسند پنجابی
اپنے جرنلزم کے سفر کے دوران  طاہر ملک نے تقسیم ہند، جو دراصل پنجاب کی تقسیم کی کہانی ہے، پر انڈین سکھ ریسرچر تریدیویش سنگھ اور علی فاروق ملک کے ساتھ مل کر “ہیومینیٹی امڈسٹ اِن سینیٹی” نامی کتاب لکھی۔
تقسیم کے وقت لاکھوں پنجابی مذہب کے نام پر پنجابیوں ہی کے ہاتھوں قتل ہوئے۔ تاہم ان ریسرچرز نے اس قتل عام کے پرآشوب دور کی وہ کہانیاں اکھٹی کی جس میں مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے لوگوں نے مخالف مذہب کے لوگوں کے جان و مال کو بچایا تھا۔
یہ حیوانوں میں انسانوں کی تلاش کا سفر تھا جس میں طاہر ملک نے بہت ہی خوبصورت انسان تلاش کیے اور ہم سب کو یہ احساس دلانے کی کوشش کی کہ ہم اب بھی خوبصورت ہیں۔
استاد اور پکّا لاہوری
طاہر ملک نے مختلف یونیورسٹیوں میں تعلیم و تدریس کا کام انجام دیا۔ بلکہ ایک زمانے میں اپنا ایک جرنلسٹس ٹریننگ سینٹر بھی قائم کرنے کی کوشش کی جو مالیاتی مدد نہ ہونے کی وجہ سے چل نہ سکا۔
یونیورسٹیز میں تدریس کے دوران طاہر ملک کا کلاس روم جرنلسٹ بننے کے خواہشمند طلبا اور طالبات کے لیے کلاس روم سے لے کر کینٹین یا باغ تک پھیلا ہوا ایک (peripatetic) یا “چلتا پھرتا”  تنقیدی نشستوں کا سیشن بن گیا۔ طاہر کے اس ارسطو جیسے طرز تعلیم نے نوجوان ذہنوں کو موہ لیا، اس نے تنقیدی سوچ کی پرورش کی۔
اُس کا اندرون شہر کے لہجے میں بات چیت کے انداز کی وجہ سے وہ اصلی اور کھرے لاہور کی روح کی مجسم  تصویر بن گیا۔ لاہور جو شاعروں، کہانی کاروں، فنکاروں اور کھلے دل کے خواب دیکھنے والوں کا شہر ہے، وہ طاہر کی زبان و بیان بدرجۂِ اُتّم جھلکتا ہے۔
ایکسپلوریشن
طاہر کی آزاد روح نے جس جذبے کے تحت پولیس ملازمت چھوڑی تھی اسی کے تحت اس نے دریافتوں کے سفر کا آغاز کیا۔ شہروں کی ہلچل سے دور دراز ملک کے مختلف کونوں تک کے سفروں میں اس نے کہانیاں ڈھونڈیں—اس کے تجسس نے ان سفروں کے دوران گمنام ہیروز، بھولی بسری داستانوں اور قوم کی نبض کو دریافت کیا۔
خراج تحسین
طاہر ملک جیسی شخصیات سے نوازا ہوا لاہور ہی اصلی لاہور ہے ورنہ یہ کنکریٹ کا جنگل ہے۔ اور میں خوش قسمت ہوں کہ وہ میرادوست ہے، میں سچائی کے لیے اس کے غیر متزلزل عزم کو سلام کرتا ہوں۔
طاہر، آپ کے قلم کی روشنائی ہمارے پیشہ کی رگوں میں بہتی ہے۔ دعا ہے کہ آپ کا سفر جاری رہے، اور آپ کی آزاد روح ہمیشہ ہمیشہ دریافتوں کا سفر جاری و ساری رکھے۔