پی ٹی ائی کی طرف سے  دہشت گردوں سے مذاکرات کے اندرونی عوامل

 شمالی وزیرستان میں تحریک طالبان پاکستان کے  فلیگ مارچ عالمی سطح پر کیا پیغام دے رہے ہیں ۔

بیرسٹر سیف وہ پراسرار شخصیت ہیں جن کے تعلقات ریاست کے مقتدر اداروں اور  نام و نہاد جہادیوں  سے ڈانڈے ملتے ہیں.  ان کے حالیہ بیان جس میں تحریک طالبان پاکستان مذہبی دہشت گرد  تنظیم سے مزاکرات کرنے کا مطالبہ کیا ہے یہ بیان کور کمانڈر ہاؤس میں پختونخوا کابینہ کے متنازع اجلاس کا ہے جس میں کابینہ کو صوبے میں درپیش سیکورٹی خطرات پر بریفننگ دی گئی تھی لیکن ملٹری سٹیبلشمنٹ کے اطلاعاتی ادارے آئی ایس پی آر نے پریس ریلیز جاری نہیں کیا جو عموماً کیا جاتا ہے۔

9 مئی کے واقعات کے بعد پاکستان تحریک انصاف کے ساتھ ملٹری سٹیبلشمنٹ کا بظاہر یہ  پہلا رسمی رابطہ ہے ظاہر ہے کہ پس پردہ بہت سارے چینلز سرگرم عمل ہیں لیکن ان کے بارے میں بھی ملٹری سٹیبلشمنٹ اور تحریک انصاف دونوں کی  طرف سے خاموشی اختیار کی ہوئی ہے  لیکن اس کے نتیجے میں پارٹی کے اندرونی خلفشار پبلک ہو گئے ہیں. یہاں تک کہ عمران خان نے تسلیم کیا کہ پارٹی کے اندر کچھ عناصر ان کے اور ان کی اہلیہ کے خلاف سازشوں میں مصروف ہیں بہرحال یہ پاکستان تحریک انصاف کے اندرونی معاملات ہیں جو اب میڈیا پر زیر بحث لائے جا رہے،  حالات و واقعات سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ تضادات موجود رہیں گے اور مزید بڑھیں گے۔

اصل سوال بیرسٹر سیف کا بیان ہے جو  انہوں نے تحریک طالبان پاکستان سے مزاکرات کے بارے میں دیا ہے یعنی اس بیان کے پس منظر میں مقتدر ادارے ہیں
بشام سانحہ یقیناً سیکورٹی فورسز کی ناکامی ہے لیکن انٹلیجنس ایجنسیوں کی سب سے زیادہ ناکامی ہوئی ہے اس لیے کہ اب تک کی رپورٹس کے مطابق نان کسٹم پیڈ گاڑی کے بارے میں تفصیلات جاری کردی گئی ہیں لیکن اسلام آباد کے راستے سے روانگی اور گاڑی کا بلٹ پروف نہ ہونا ، دارالحکومت اور  صوبہ پنجاب کے درمیان سیکورٹی کی ذمہ داری کن کن اداروں کی تھی۔

پختونخوا پولیس فورس کے اعلیٰ حکام کے خلاف کارروائی کر دی گئی امید ہے کہ اسلام آباد کے سیکورٹی فورسز کے خلاف کارروائی بھی  کی جائے گی
دوسری جانب شمالی وزیرستان میں تحریک طالبان پاکستان کے  فلیگ مارچ دنیا بھر کو کیا پیغام دے رہے ہیں
درحقیقت مذہبی دہشت گرد  تنظیمیں سب ایک ہیں.  برانڈڈ نام الگ الگ ہیں
خود کش حملوں سے لیکر براہ راست پولیس فورسز اور حساس اداروں پر حملے کر رہے ہیں حالیہ دنوں میں دوبارہ حملوں نے شدت اختیار کر لی ہے
حیرت انگیز بات یہ ہے کہ میڈیا کے مطابق پاکستان تحریک انصاف کی سابقہ حکومت کے گورنر شاہ فرمان اور صوبائی کابینہ کے ارکان سے ” طالبان”  نے بھتہ وصول کیا تھا اس خبر میں کس قدر صداقت ہے یہ تو انٹیلیجنس ایجنسیوں کو معلوم ہو گا مگر ایک بات واضح ہے کہ پختونخوا میں بدامنی کی وجہ سے صاحب حیثیت افراد  اسلام آباد اور لاہور اپنے کاروبار سمیت ہجرت کرگئے ہیں
پختونخوا میں مذہبی دہشت گرد تنظیموں سے ناکام مزاکرات کی ایک طویل تاریخ ہے اور یہ سلسلے  جنرل مشرف کے دور سے لیکر جنرل فیض حمید یعنی جنرل قمر باجوہ کے دور میں بھی جاری رہے  لیکن ہمیشہ ہمیشہ ناکام رہے ہیں
جنرل فیض حمید جب پشاور کے کور کمانڈر تھے تو بیرسٹر سیف اور دیگر مذہبی اور سیاسی جماعتوں کے قائدین نے تحریک طالبان پاکستان سے کابل میں مزاکرات کیے تھے جس کے نتیجے میں سوات میں طالبان نے سر اٹھایا لیکن عوام کی بھرپور مزاحمت نے ناکام بنا دیا
تحریک طالبان پاکستان داعش خراسانی القاعدہ اور نت نئے تنظیموں کا ایجنڈا ” شریعت اور خلافت” کا قیام ہے
اکیسویں صدی کی ” گریٹ گیم” میں پختونخوا اور بلوچستان کے عوام پس رہے ہیں