سوشلسٹ انقلاب یا سوشل ڈیموکریسی
جس حد تک مارکسزم کو سمجھا، اس سے یہی سیکھا کہ صرف اور صرف جدلی مادیت کے علم کی مدد سے ہی ارتقاء اور تبدیلی کے قوانین کی وضاحت کی جاسکتی ہے۔ جدلی مادیت کے مطالعہ سے ہی واضح ہوتاہے کہ یہ دنیا پہلے سے تیار اور طے شدہ افعال کا منبع نہیں بلکہ یہاں ہر آج طے کرتا ہے کہ آنے والا کل کیا ہوگا۔ یہ ایسا متواتر و مسلسل عمل ہے جس میں ماضی بن جانے والی اشیا مستقبل کی راہیں متعین کرتی رہتی ہیں۔
جو لوگ 1960 اور 1970 کی دہائی میں مارکسزم کی طرف راغب ہوئے اور جنہوں نے اس نظریہ کی روشنی میں سائینٹفک سوشلزم کو اپنا نصب العین مانتے ہوئے نہ صرف اس کا پرچار کیا بلکہ دولت و ثروت کے حصول کی دوڑ میں شامل ہونے کی بجائے اپنی جوانیاں اس نظریے کے ابلاغ میں صرف کردیں، آج ان میں سے کئی ایسے ہیں جو سوشل ڈیموکریسی کی طرف راغب دکھائی دیتے ہیں۔ اس طرح کے لوگوں کے لیے کچھ سکہ بند انقلابیوں کا رویہ ایسا ہے کہ انہوں نے سوشل ڈیموکریسی کی بات کرنے والوں میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کو جدلی مادیت کی روشنی میں سمجھنے کی کوشش کرنے کی بجائے انہیں طرح طرح کے طعنے دینے شروع کر دیئے ہیں۔
سرمایہ داری نظام نے صدیوں سے چلے آرہے غلام داری نظام کو ختم توکر دیا مگر تبدیلی کی شکل میں جو کچھ نافذ کیا اس میں انسانوں کے استحصال کا عنصر حسب سابق شامل رہا۔ کارل مارکس نے سائنٹفک فارمولے کی مدد سے نہ صرف عام لوگوں پر سرمایہ دارانہ نظام میں موجود استحصال کی بد ترین شکل کو آشکار کیا بلکہ انہیں اس سے نجات کی ایسی راہ بھی دکھائی جو غیر طبقاتی سماج کے قیام کی طرف جاتی ہے۔ غیر طبقاتی سماج کی منزل کی طرف مارکس نے راستے کے کئی پڑاؤ بھی واضح کیے مگر یہ پڑاؤ نظر انداز کرتے ہوئے روس میں براہ راست انقلاب برپا کردیا گیا۔یہ انقلاب ستر برس تک قائم رہا۔ ان ستر برسوں کے دوران وہاں کے سرخیل انسانوں کے متضاد ریوں، ان کے ظلم و جبر اور سازشوں کو کوئی جس رنگ میں بھی پیش کرے مگر وہ اس بات سے انکار نہیں کر سکتا کہ ان ستر برسوں کے دوران وہاں کا سماج غیر طبقاتی رہا۔ اگرچہ سوویت یونین سے باہر اس غیر طبقاتی سماج پر جارج اورول کی ” Animal Farm“ جیسی کتابیں لکھی جاتی رہیں مگر سویت یونین کے اندر بھی وہاں کے عوام نے غیر طبقاتی نظام کو اپنے لیے غیر اطمینان بخش ہی تصور کیا۔ وہاں کے عوام کے غیر مطمئن ہونے کی وجہ سے ہی غیر طبقاتی سماج کا حامل سوویت یونین پاش پاش ہوا۔اس کے بعد1992 سے آج تک سوویت یونین کی شکست وریخت کے بعد بننے والے آزاد ممالک میں کہیں بھی وہاں کے عوام نے ایسے غیر طبقاتی سماج کی طرف اپنے میلان کا اظہار نہیں کیا جہاں ان کی شخصی آزادیاں سلب ہو سکتی ہوں۔ سوویت یونین کا ٹوٹنا اور اس کے ٹوٹنے کے بعد وہاں کے عام لوگوں کے رویے اپنے اندر بہت سے سوالات لیے ہوئے ہیں۔ان سوالوں میں سب سے بڑا سوال تو یہی ہے کہ کوئی بھی غیر طبقاتی سماج کیا اس الزام سے پاک ہو سکتا ہے کہ All aminals are equal but some are more equal.آج پوری دنیا میں یہ بات واضح ہوچکی ہے کہ انسان کسی بھی طور شخصی آزادیوں اور جمہوری حقوق پر سمجھوتہ کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ایسی صورت میں اس وضاحت کی بہت زیادہ ضرورت ہے کہ غیر طبقاتی سماج کے اندر پرولتاری آمریت کی موجودگی میں جمہوری عمل کی صورت کیا ہوگی ؟ کیا پرولتاری آمریت کے لیے وضع کیا گیا سیاسی ڈھانچہ اور جمہوری عمل ایک ساتھ چل سکتے ہیں؟جمہوری عمل کے دوران تو تبدیلیاں مسلسل رونما ہوتی رہتی ہیں۔ کیا جمہوری عمل کے تسلسل میں کسی خاص معاشی ڈھانچے کے مستقل بنیادوں پر قائم رہنے کی ضمانت دی جاسکتی ہے؟ اگر سوشلست معاشی ڈھانچہ مستقل بنیادوں پر قائم نہ رہے توکیا اس سے متوقع نتائج حاصل کیے جاسکتے ہیں؟
اس میں کوئی شک نہیں کہ سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد سرمایہ داری نظام اپنی بد ترین شکل میں سامنے آیا مگر اس کیختم ہونے کے امکانات اب بھی کہیں نظر نہیں آتے۔ سوشلزم کو آئیڈیل قرار دینے والے سرمایہ داری نظام میں کیڑے تو بہت نکالتے ہیں مگر کہیں بھی اس نظام کے لیے چیلنج نہیں ہیں۔ ایسے حالات میں سرمایہ داری نظام کے اندر رہتے ہوئے جبر، استحصال اور لوٹ کھسوٹ کی اگر کسی نے مخالفت کی ہے تو وہ سوشل ڈیموکریٹ ہیں۔ آج کے دور کی حقیقت یہ ہے کہ سوشل ڈیموکریٹ تو انسانوں کے حقوق کے لیے عملی محاذ پر سرگرم ہیں جبکہ سوشلزم کو آئیڈیل قرار دینے والوں کی حالت ان لوگوں کی سی ہو کر رہ گئی ہے جو انسانوں کے عصری مسائل سے بے نیازہو کر محض مذہبی کتابوں کے مطالعہ سے ہی تمام آفات سے نجات حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ اگر کوئی جدلیات اور ارتقا کے نظریے کو سمجھتا ہے تو یہ ممکن ہی نہیں کہ وہ سوشل ڈیموکریسی کو حرف آخر سمجھ کر یہ کہے کہ سماجی و معاشی مسائل کا اس کے علاوہ دوسرا کوئی حل نہیں ہے۔مگر سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد غیر طبقاتی سماج پراٹھائے جانے والے سوالوں کے تسلی بخش جواب سامنے نہ آنے کی وجہ سے اب ایسے سماج کے قیام کے نظریہ میں خاص طور پر نواجونوں کے لیے 1992 سے پہلے جیسی کششباقی نہیں رہی۔ایسے حالات میں جدوجہد کے لیے فی الوقت جس راستے کا انتخاب کیا جاسکتا ہے وہ سوشل ڈیموکریسی ہی ہے۔
آج کی صورتحال یہ ہے کہ ماحولیاتی آلودگی کی وجہ سے پودوں اور جانوروں کی دس لاکھ سے زیادہ اقسام ہمیشہ کے لیے ختم ہونیکے خطرے سے دوچار ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ سرمایہ دارانہ مفادات ہی ماحولیاتی آلودگی کے پیدا ہونے اوراس میں اضافے کی سب سے بڑی وجہ ہیں۔ ماحولیاتی آلودگی پیدا کرنے والے سرمایہ دارانہ مفادات کی مذمت ضروری ہے مگر کیا یہ مناسب ہے کہ سرمایہ داری نظام کے خاتمے کے لیے عام لوگوں کے کسی ایسے انقلاب کی طرف راغب ہونے کا انتظار کیا جائے جس میں ان کی کوئی دلچسبینظر نہیں آتی یا پھر انہیں اس جدوجہد میں شامل ہونے کی دعوت دی جائے جس کا مطالبہ ہے کہ ماحولیاتی آلودگی کے خاتمے کے لیے اقوام متحدہ کے پروگرام پر عمل کیا جائے۔ اقوام متحدہ اپنے رکن ممالک سے صرف ماحولیاتی آلودگی پر کنڑول ہی نہیں بلکہ انسانی حقوق اور انسانوں کی بنیادی ضروریات زندگی کی فراہمی جیسے پروگراموں پر عمل درآمد کا بھی اصرارکرتا ہے۔آج دنیا میں سرمایہ دارانہ نظام کے خاتمے کے لیے جہاں لوگوں کو انقلاب کی دعوت دی جارہی ہے وہاں یہ ہو رہا ہے کہ ریاستیں اقوام متحدہ کے چارٹر کو تسلیم کرنے باوجود اس پر عمل درآمد کے لیے آمادہ نظر نہیں آتیں۔یاد رہے کہ کسی ریاست کی طاقت اور قوانین کی موجودگی میں ریاستی ڈھانچے کو توڑنے کی اجازت تو نہیں ہے مگر اسی ریاست کو اقوام متحدہ کے چارٹر کے مطابق انسانی حقوق اور انسانوں کی بنیادی ضروریات زندگی کی فراہمی پر مجبور کرنیکے لیے جدوجہد کا جواز ضرور موجود ہے۔جو جواز موجود ہے اس سے فائدہ اٹھانے کا ایک طریقہ ہے کہ راہ عمل کے طور پر سوشل ڈیموکریسی کا انتخاب کیا جائے۔
بشکریہ روزنامہ “ جہان پاکستان “بشکریہ روزنامہ “ جہان پاکستان “