برصغیر کے باشندوں کے ڈی این اے کی تاریخ

 بھارت کے جنوبی علاقے کو چھوڑ کر برصغیر کی بیشتر آبادی  قدیم سندھی تہذیب کے ڈی این اے کی حامل ہے

برصغیر کی تاریخ بیرونی علاقوں سے آنے والے لوگوں سے بھری پڑی ہے- برصغیر کے شمالی اور شمال مغربی علاقوں میں رہنے والے لوگوں کے ڈی این اے میں ہندوی آریائی یعن Indo-Aryanڈی این اے زیادہ مقدار میں پایا جاتا ہے- یہاں کے لوگوں کا رنگ گندمی ہوتا ہے- اگر ہم برصغیر کے جنوبی علاقوں مثلاً کیرالا اور تامل ناڈو میں جائیں تو وہاں کے لوگوں میں Dravidian ڈی این اے زیادہ مقدار میں پایا جاتا ہے- یہاں کے لوگوں کا رنگ قدرے سیاہ ہوتا ہے-
برصغیر کے لوگوں کے مجموعی جینوم کے بارے میں یہ بات انتہائی دلچسپ ہے کہ یہاں کے لوگوں کے ڈی این اے میں تین مختلف علاقوں کے اجداد کا ڈی این اے ملتا ہے- اس آرٹیکل میں ہم ماضی میں برصغیر میں باہر سے آںے والی قومیتوں کا تاریخی جائزہ لیں گے جن کے ڈی این اے کے اثرات جنوبی ایشیا کے ڈی این اے میں آج بھی پائے جاتے ہیں
اگر ہم بھارت کی ریاست گجرات کے رہنے والوں کے ڈی این اے کا تجزیہ کریں تو ہمیں تین مختلف قومیتوں کا ڈی این اے نظر آتا ہے- گجرات کے لوگوں میں لگ بھک 45٪ ڈی این اے جنوبی بھارت کے قدیم باسیوں کا ہے، 45٪ قدیم ایران سے آنے والی کاشتکار قوم کا ہے جبکہ دس فیصد Indo-European آریا نسل کا ہے-
جنوبی بھارت کے قدیم باشندے وہ پہلے انسان یعنی ہوموسیپین تھے جو برصغیر میں وارد ہوئے- اس نسل کا ڈی این اے اب زیادہ تر بھارت کی جنوبی ریاستوں میں پایا جاتا ہے- عمومی طور پر بھارت میں ہم جس قدر جنوبی علاقوں میں جائیں اسی قدر اس قدیم نسل کے ڈی این اے کے اثرات آبادی میں زیادہ پائے جاتے ہیں- جنوبی بھارت کے قبائلی علاقوں کی موجودہ آبادی کے ڈی این اے کا اسی سے پچاسی فیصد حصہ اس قدیم ڈی این اے پر مشتمل ہے (یعنی وہاں کے کسی بھی باشندے کے ڈی این اے میں اسی سے پچاسی فیصد ڈٰی این اے اس قدیم قوم کا ہے)- ان لوگوں کا ڈی این اے انڈیمان کے جزیروں کے موجودہ باشندوں سے بہت زیادہ ملتا جلتا ہے- اس کا مطلب غالباً یہ ہے کہ جنوبی بھارت کے لوگ اس نسل سے ہیں جو آج سے پچاس سے ستر ہزار پہلے افریقہ سے مشرق کی طرف ہجرت پر نکلے اور بھارت کے جنوبی علاقوں تک پہنچ کر وہاں بستیاں قائم کیں-
جنوبی بھارت کے مقابلے میں بھارت کی مغربی سرحد پر واقع گجرات کی ریاست کے باشندوں میں یہ قدیم ڈی این اے قدرے کم پایا جاتا ہے- گجرات کی آبادی میں یہ قدیم ڈی این اے لگ بھگ 45٪ ہے جبکہ 45٪ فیصد ڈی این اے ایران سے ہجرت کرنے والی نسل کا ہے جو کاشتکار تھے- آج سے لگ بھگ دس ہزار سال پہلے یہ لوگ ایران کے علاقے سے ہجرت کر کے برصغیر میں آئے اور اپنے ساتھ کاشتکاری کا ہنر لے کر آئے- ان لوگوں نے مقامی آبادیوں سے شادیاں کیں جس وجہ سے گجرات کی موجودہ آبادی میں لگ بھگ آدھا ڈی این اے قدیم باشندوں کا اور آدھا ان ایران نژاد کاشتکار قبیلوں کا ہے- آج سے دس ہزار سال پہلے اس مخلوط نسل نے دریائے سندھ کی وادی میں بسیرا کیا اور سندھ کی قدیم تہذیب کی بنیاد ڈالی جس کے کھنڈرات آج موہنجوداڑو اور ہڑپہ میں دیکھے جا سکتے ہیں- سندھ کی تہذیب کا شمار دنیا کی قدیم ترین تہذیبوں میں ہوتا ہے
اس وقت بھارت کے جنوبی علاقے کو چھوڑ کر برصغیر کی بیشتر آبادی اسی قدیم سندھی تہذیب کے ڈی این اے کی حامل ہے- ان کی نسلیں نہ صرف پاکستان میں موجود ہیں بلکہ بھارت کی تامل ناڈو، تلنگانہ اور آندھرا پردیش کی ریاستوں میں بھی آباد ہیں- قدیم سندھ کی تہذیب کئی ہزار سال تک قائم رہی-
اس کے بعد آج سے لگ بھگ تین ہزار سال قبل Bronze Age میں یعنی کانسی کے زمانے میں برصغیر میں آریا نسل کے باشندوں کی آمد ہوئی جو یمانایا نسل کے تھے- یہ قوم آج سے پانچ ہزار سال پہلے موجودہ روس اور یوکرین کے علاقے میں آباد تھی۔ انہیں ہندوی یورپین یعنی Indo-European کہا جاتا ہے- آج سے تین ہزار سال پہلے یہ لوگ پہلے قازقستان کی طرف منتقل ہوئے اور وہاں سے آہستہ آہستہ مزید جنوب میں برصغیر کی طرف آتے چلے گئے-
مقامی آبادی سے شادیوں کے نتیجے میں جو نسل پیدا ہوئی انہیں ہندوی آریا نسل یعنی Indo-Aryansکہا جاتا ہے- اس نسل کا ڈی این اے اب پاکستان اور بھارت کے شمالی علاقوں میں پایا جاتا ہے- جاٹ اور کھتری قبائل انہی لوگوں کی نسل میں سے ہیں- یہی وجہ ہے کہ برصغیر کے اکثر مردوں کے وائے کروموسوم میں R1A گروپ ملتا ہے جو تمام ہندوی یورپین باشندوں اور یورپ کے علاقوں (اور خصوصاً مشرقی یورپ) کے باشندوں میں پایا جاتا ہے- جیسے جیسے ہم پاکستان سے بھارت کے جنوب کی طرف جائیں اس نسل کا ڈی این اے مقامی آبادی میں کم ہوتا چلا جاتا ہے-
انہی آریاؤں کی وجہ سے ہی برصغیر کی بہت سی زبانیں وجود میں آئیں جنہیں ہندوی آریائی زبانیں یعنی Indo-Aryan Languages کہا جاتا ہے۔ کوہستانی، پوٹھوہاری، کشمیری، ہندکو، پنجابی، ڈوگری، سرائیکی، سندھی، پہاڑی یہ تمام زبانیں پاکستان میں اور بھارت کے شمالی علاقوں میں بولی جاتی ہیں- یہاں سے تھوڑا جنوب مشرق کی طرف جائیں تو راجھستانی، مارواڑی، گجراتی، مراٹھی اور کونکنی زبانیں دیکھنے کو ملتی ہیں جبکہ مشرق کی طرف ہریانوی، ہندوستانی (جس سے اردو زبان نکلی)، چھتیس گڑھی، بھوج پوری، بنگالی، آسامی زبانیں ارتقاء پذیر ہوئیں- یہ تمام زبانیں آریاؤں کی زبان اور مقامی زبانوں کا مکسچر ہیں-
ہندوی یورپی اور ایرانی ڈی این اے کا ایک نتیجہ یہ ہے کہ ایسے لوگوں کے جلد کی رنگت قدرے صاف ہوتی ہے- بھارت کے زیادہ تر برہمن لوگوں میں ہندوی یورپی اور ایرانی ڈی این اے کے اثرات پائے جاتے ہیں اس وجہ سے برہمن لوگوں کا رنگ قدرے صاف ہوتا ہے- برہمن کے علاوہ دوسری ذاتوں کے لوگوں کا رنگ قدرے سیاہ ہوتا ہے کیونکہ ان میں قدیم سندھی لوگوں کا ڈی این اے زیادہ پایا جاتا ہے- گویا بھارت میں ذات پات کی روایات کے پیچھے بھی آریاؤں اور قدیم آبادی کے لوگوں کے درمیان ایک لمبی کشمکش ہے- آریائی لوگ چونکہ گھڑ سواری میں مہارت رکھتے تھے اور نسبتاً جدید ٹیکنالوجی ایجاد کر چکے تھے اس لیے انہوں نے شمالی بھارت کے وسیع علاقوں پر اپنی حکومت قائم کی اور مقامی آبادی کو جنوبی بھارت کی طرف دھکیل دیا- اسی کشمکش کے نتیجے میں ذات پات کی تقسیم کی روایت پڑی یعنی آریاؤں نے اپنی حکومت قائم کر کے اپنے برتر ہونے کا اعلان کیا اور مقامی قوموں کو کمتر درجے دیے- آریاؤں کا کلچر پدرسری تھا جو آج تک برصغیر میں رائج ہے۔
بھارت کے مشرقی حصوں میں آریاؤں کا ڈی این اے بہت کم دیکھنے کو ملتا ہے- اس کے برعکس بنگال (جس میں بنگلہ دیش اور مغربی بنگال کی بھارتی ریاست شامل ہے)، ناگا لینڈ اور آسام کے علاقوں میں جنوب مشرقی ایشائی باشندوں کا ڈی این اے زیادہ پایا جاتا ہے-
یہ بات انتہائی دلچسپ ہے کہ برصغیر میں مختلف قومیتوں کی آمد کی تاریخ پہلے کھنڈرات اور پرانے artifacts کی دریافتوں سے ترتیب دی گئی تھی- اب جدید ٹیکنالوجی کی بدولت ڈی این اے کے تجزیے سے اس تاریخ کو نہ صرف پریسائزلی ڈیفائن کیا جا سکتا ہے بلکہ پہلے قائم کیے گئے مفروضات کو ٹیسٹ بھی کیا جا سکتا ہے- اس کے علاوہ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ لسانیات یعنی linguistics کی سٹڈی سے بھی برصغیر کی تاریخ کی ترتیب کم و بیش وہی بنتی ہے جو ڈی این اے کے تجزیے سے مرتب کی گئی ہے- اس طرح کئی آزادانہ طریقوں سے اس تاریخ کو کراس چیک کیا گیا ہے