طاغوتیت کے روپ ساحل عدیم اور خلیل الرحمٰن قمر
طاغوت عربی زبان کا لفظ ہے جس کا معنی ہیں گمراہوں کا سردار ،بت، جادو،جادوگر،سرکش، دیو اور کاہن ایک سوٹ بوٹ اور انگریز طرز کے ملاں کے مطابقاگر عورت کو طاغوت کا نہیں پتہ تو وہ جاہل ہے۔ ان کے مطابق 95 فیصد عورتیں جاہل ہیں۔جی ہاں ان کی بات بالکل درست ہے جو عورت کسی طاغوت کو اپنا مجازی خدا سمجھ بیٹھتی ہے وہ واقعی کم عقل، کم علم اور جاہل ہے کیونکہ اس کا شمار معاشرے کی ان 95 فیصد میں ہوتا ہے جو اپنی شرافت اور انکساری کی وجہ سے اپنے اردگرد طاغوتوں کو پہچان نہیں پاتی۔ جو پہچان جاتی ہے وہ باقی 5 فیصد کے ساتھ شامل ہو جاتی ہے تو وہ کسی چوک میں اپنے حقوق کا مطالبہ کر دیتی ہے پھر انہی طاغوتی مردوں کے نزدیک وہ بدکار ، بدچلن اور دو ٹکے کی ہو جاتی ہے
کیونکہ 95 فیصد اپنی اردگرد طاغوتوں کی وجہ سی اپنی جائز خواہشات کا گلہ گھونٹ دیتی ہیں ۔ وہ اپنی محبت کا اظہار نہیں کر سکتی تاکہ کہیں کوئی طاغوت غیرت کے نام پر قتل نہ کر دے۔ وہ نوکری پر گھر سے باہر نہیں جا سکتی کیونکہ کسی طاغوت کو لگتا ہے کہ اس جیسا کوئ طاغوت باہر موجود نہ ہو۔ کچھ طاغوت تو پڑھانے کو بھی اپنی طاغوتی طاقت کے خلاف خطرہ سمجھتے ہیں۔اور کچھ طاغوت فیصلہ کرتے ہیں کہ انکی بہن بیٹی اگر پڑھے گی تو کیا پڑھے گی۔کیونکہ نٹشے کے مطابق کسی فاتح کی فتح تب تک قائم رہتی ہے جب تک مفتوح کو شعور نہ آجاۓ اپنی آزادی کا ۔ اور ایسی زہریلی ذہنیت ان طاغوتوں کی ہے جنہوں نے نا جانے کتنی عورتوں کی خوشیوں کا خون کیا ۔ کچھ جعلی ملا نما طاغوتوں کے مطابق تو بیٹی کو سکول بھیجنا بھی دلالت ہے ۔ لیکن اسی بیٹی کے نام پر آے سرکاری فنڈ کو ہڑپ کرنا فرض اول سمجھا جاتا ہے
دراصل سوال کرتی، اپنی حرمت کا تحفظ مانگتی، تعلیم اور شعور حاصل کرتی اور اپنے معاشرتی زندگی میں یکساں حقوق مانگتی عورت کا چہرہ ان بزدل طاغوتوں کو کسی ماہر تیر انداز کا تیر لگتا ہےاور اس کے کاری وار سے بچنے کے لیے کبھی مذہب کے لحاف میں دبکنے کی کوشش کرتے ہیں تو کبھی اپنے غراتے ہوئے وحشیانہ لہجے سے اثر انداز ہونے کی کوشش کرتے ۔ حقیقت میں یہ طاغوت مذہب سے ناواقف اور نابلد ہیں انہیں کسی ممبر پہ بیٹھے مولوی یہ تو بتایا ہوتا ہے کہ کتنی عورتوں سے نکاح کر سکتے ہیں، کتنی باندیاں اور غلام حاصل کر سکتے ہیں اور کتنی حور العین جنت میں اسکا انتظار کر رہی ہیں جہاں یہ اپنی درندگی اور ہوس کی آگ بجھا سکتے ہیں لیکن وہ ملاں یہ نہیں بتاتا وہ عورت جو اس کی محرم ہے اس کی تعلیم ،نان و نفقہ اور دیگر حقوق کی فراہمی بھی اس مذہب نے ضروری قرار دیۓ ہیں
ساحل عدیم اور خلیل الرحمٰن قمر کا سوال اٹھاتی اس عورت پر ٹوٹ کر پڑنا دراصل اس بات کی تقویت بخش رہا تھا کہ اس بے حس معاشرے میں طاغوتیت کس حد تک سرایت کر چکی ہے جس ڈھٹائی سے وہ اپنی متعصبانہ بات کی تاویل پیش کر رہے تھے وہ تو شاید اس معاشرے میں ناقابل علاج ہے لیکن سوال تو یہ بنتا ہے کیا ان 95 فیصد عورتوں میں منیار پاکستان پر جانے والی وہ عورت بھی شامل تھی جہاں طاغوتوں کا ایک جھنڈ اسے کاٹنے کو دوڑ رہا تھا؟ کیا ان 95 فیصد جاہل عورتوں میں وہ ماریہ نام کی لڑکی بھی شامل تھی جسے دو طاغوت باپ اور بھائی نے زیادتی کے بعد قتل کر دیا تھا اور اس کی لاش پر بیٹھ کر پانی پیا؟ کیا ان میں لاہور کی ننھی زینب بھی شامل تھی ؟ کیا ان میں اسلام آباد کی سویرا بھی شامل تھی ؟ کیا ان میں وہ کمسن گھریلو ملازماؤں کو بھی شامل کیا گیا جنہیں مالکان کی طرف سے تشدد کا نشانہ بنایا گیا ہے ؟ کیا ان 95 فیصد میں وہ عورت بھی شامل ہے جسکو لائیو ٹی وی پر ایک طاغوت نے ” کتے کی بچی بولا”؟ کیا ان میں 95 فیصد میں وہ جسم فروش طوائفیں بھی شامل ہیں جنہوں کچھ درندہ صفت طاغوت اپنی عیاشیوں کے لیے سیگریٹ وغیرہ سے ٹارچر کرتے ہیں یا قتل کر دیتے ہیں
اور اگر یہ سب شامل ہیں تو انہیں جاہل رکھنے کا سہرا کس طاغوت کے سر جاتے ہے ؟
اگر کسی کو ان سوالوں کے جواب معلوم ہوں تو مجھے بھی آگاہ کیجئے گا
These so called crooked minded persons show the real face of male chauvinism and in fact this is the real face of our society, Salute to the girl whose question exposed them and salute Muniba Fatima for such a daring column.