فلسطین اور عالمِ اسلام کی خاموشی: ایک تنقیدی جائز
فلسطین کی سرزمین پر جاری ظلم و بربریت کو دیکھتے ہوئے ہر صاحب دل مسلمان خون کے آنسو روتا ہے۔ فلسطینی عوام پر ڈھائے جانے والے مظالم، ان کے حقوق کی پامالی، اور ان کے گھروں کی تباہی ایک کھلی حقیقت اور امت مسلمہ کے منہ پر زوردار طمانچہ ہے۔ مگر ان سب کے باوجود عالمِ اسلام کی خاموشی ایک دردناک سوالیہ نشان بن کر کھڑی ہے، جو فلسطینی مسلمانوں کو پریشانی میں مبتلاء کیئے ہوئے ہے اور ناامیدی کا سبب بھی ہے۔
علامہ اقبال نے کہا تھا:
تقدیر کے قاضی کا یہ فتویٰ ہے ازل سے
ہے جرمِ ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات
علامہ اقبال کے ان اشعار میں ضعیفی اور خاموشی کی سزا کا جو ذکر ہے، وہ آج کے حالات کے پوری طرح منطبق ہے۔ مسلمان دنیا، جسے ایک قوت بن کر اُبھرتی ہوئی قوم بننا تھا، آج خاموشی کی چادر اوڑھے سر جھکائے بیٹھی ہے۔ کیا یہ خاموشی ہماری ضعیفی کی علامت نہیں؟
مسلم ممالک کی بے حسی اور عالمی سیاست میں ان کی عدم دلچسپی و عدم شمولیت فلسطینی عوام کی مشکلات کو اور بڑھا رہی ہے۔ مغربی طاقتیں اور ان کے حلیف ہر موقع پر فلسطینیوں کے حقوق کو پامال کر رہے ہیں، وہاں مسلمانوں کی نسل کشی بے دریغ کئی عرصے سے جاری ہے، مگر اسلامی دنیا کے رہنما محض زبانی اور بے اثر بیانات تک محدود ہیں، نا انکی آواز میں اثر باقی ہے ، نا انکے بازوں میں طاقت۔
“چپ رہو، وقت کے حاکم کا یہ فرمان ہے
خاموشی بھی ایک طرح کا ظلم کی حمایت ہے”
یہ مصرعہ اس حقیقت کو بیان کرتا ہے کہ خاموشی بھی ایک طرح کی حمایت بن جاتی ہے اور سر تسلیم مانا جاتا ہے۔ عالمِ اسلام کی اس بے بسی نے فلسطینی عوام کو یہ بات باور کروا دی ہے کہ انکو اپنے دم پر دشمن سے مقابلہ کرنا ہوگا، اور بے شک رب عز وجل بہادروں کی مدد فرماتا ہے۔
فلسطینی عوام کی آواز دبانے کی کوششیں تیزی سے جاری ہیں، آج ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلمان ممالک اپنی خاموشی کو توڑ کر ایک متحد اور مؤثر آواز بنیں۔ فلسطینی عوام کی حمایت میں عملی اقدامات کریں، نہ کہ صرف بیانات اور قراردادوں تک محدود رہیں۔ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ ظلم کے خلاف آواز بلند کرنا ہمارے ایمان کا حصہ ہے اور اگر ہم نے اس فریضے میں کوتاہی برتی تو تاریخ ہمیں کبھی معاف نہیں کرے گی۔ خون کے ان قطروں میں ہمارے ضمیر کی آواز چھپی ہے، جو ہمیں جگانے کی کوشش کر رہی ہے۔ فلسطین کی سرزمین پر جاری ظلم کی داستان ہر مسلمان کے دل میں ایک چنگاری بن کر سلگ رہی ہے۔ یہ وقت ہے کہ ہم اس چنگاری کو ایک شعلہ بنائیں، جو ظلم و جبر کی تاریکی کو جلا کر راکھ کر دے گی۔
فلسطین کے مسئلے پر عالمِ اسلام کی خاموشی ایک المیہ ہے جو ہمیں اپنی اجتماعی ذمہ داریوں کی یاد دہانی کراتی ہے۔ اگر ہم نے اب بھی اپنی خاموشی کو توڑا اور عملی اقدامات نہ کیے تو نہ صرف فلسطینی عوام کا مستقبل تاریک ہوگا بلکہ ہماری اپنی تاریخ بھی ہمیں کبھی معاف نہیں کرے گی۔ ہمیں اپنی توانائیوں کو مجتمع کر کے، اپنے سیاسی و معاشی وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے، ایک مؤثر حکمت عملی کے تحت فلسطینی عوام کے حق میں آواز بلند کرنی ہوگی۔ اگر ہم ایک آواز بن کر اُٹھ کھڑے ہوں تو ظلم کی یہ رات ختم ہو سکتی ہے اور انصاف کا سورج ایک بار پھر طلوع ہو سکتا ہے۔