عقل کے ہاتھی کی موت
میلان کنڈیرا نے بالکل درست کہا تھا کہ یہ صدی احمقوں کی پذیرائی کی صدی ہے۔ تھیٹروں کے باقاعدہ مسخرے تو بعد میں آئے، لیکن مزاحیہ کردار قدیم ڈراموں کا جزو رہے ہیں۔ البتہ مسخرے احمق نہیں ہوتے، وہ ہماری حماقت کی نکاسی کرتے ہیں۔ اچانک غیبی امداد کا بھی ایک مزاحیہ طریقہ تھا جس میں اچانک سارے مسئلے حل ہو جاتے اور ڈراما انجام کو پہنچتا۔ بہترین موسیقی والی مشہور انڈین مووی ’’ہم آپ کے ہیں کون‘‘ میں بھی ایک کتا ہی منہ میں خط پکڑ کر لاتا ہے اور سارے مسئلے حل ہو جاتے ہیں۔
ہمارے میڈیا اور سوشل میڈیا میں اس طرح کے بہت سے کیریکٹرز ہیں۔ ٹرمپ اور مودی کے دور میں عمران خان کا آنا کوئی اچنبھے کی بات نہیں۔ لیکن کوئی اور ہلکا سا بھی متوازی دھارا نہ رہنا ضرور تشویش انگیز ہے۔ ایک عظیم صحافی مائیک بھینس کے آگے کر کے مشہور ہوا، ایک اور مولویوں کے انداز میں مزاحیہ خطبہ دے کر، اداکارہ میرا انگلش بول کر، خلیل الرحمان قمر اشفاق احمد کی جگہ لے کر، مفتی عبدالقوی، ایک گائناکالوجسٹ فیمنسٹ، ایک منحنی وکیلہ چاہت فتح علی خان کے کندھوں پر چڑھ کر پھسلتی ہوئی، کمالیہ کا کھدر بیچتا ہوا چرب زبان ریٹائرڈز پروفیسر ڈاکٹر سرجن، شیخ رشید، ماہرِ نفسیات و ہزلیات قاسم علی شاہ، بدزبان اور جاہل ساحل، تبلیغی کھلاڑی، ٹک ٹوکر پروفیسر ڈاکٹرز، لسانی سیکس کی مشیران عورتیں، سٹینڈنگ کامیڈی کے نام پر بکواس،……….۔یہ سب ایک عظیم تماشا ہے۔ اور ہم سب تماشائی ہونے کے ذریعے اِس کا حصہ ہیں۔ یہ سب ہماری بڑھتی ہوئی حماقت کی نکاسی کا طریقہ ہیں۔ جاپان کے شاعر اِیکُو نے اپنی جوانی میں وعدہ کیا تھا کہ اُس کی زندگی اور حتیٰ کہ موت حیرت انگیزیوں سے پُر ہو گی مرتے وقت اپنے شاگردوں کو ہدایت کی کہ رواج کے مطابق اُس کی لاش کو آگ لگانے سے پہلے چتا پر تھیلیاں رکھ دیں جو اُس نے اُنھیں سونپی تھیں۔ جنازے پر دعائیں انجام پانے کے بعد لاش کو آگ لگائی گئی تو پتا چلا کہ پیکٹ پٹاخوں سے بھرے ہوئے تھے جو پھٹنے لگے۔ اِیکُو نے تو دلچسپ انداز میں اپنی موت میں رنگ بھرا تھا، ہم موت میں تماشا اور حماقت کا مزہ لے رہے ہیں۔
ایسی جہالت کی باتیں عدیم المثال نہیں۔ ستمبر 1916ء میں کنگز پورٹ (ٹینیسی) کے مشہور سرکس کی ہتھنی نے اپنے نگران کو کچل کر مار ڈالا۔ اخبارات نے رپورٹ کیا کہ ہتھنی نے اپنے بڑے دانتوں سے آدمی کو مارا، حالانکہ اُس کے دانت تھے ہی نہیں۔ مگر واقعے کے بعد لوگ نعرے لگانے لگے کہ ’’ہاتھی کو مار ڈالو۔‘‘ فوراً ایک قریبی رہائشی لوہار نے اُسے گولیاں ماریں مگر بے سود۔ نیز دھمکی دی گئی کہ آئندہ سرکس کو شہر میں نہیں آنے دیا جائے گا۔ تب سرکس کے مالک نے فوراً فیصلہ کیا کہ کاروبار بچانا ہے تو ہتھنی کو سر عام ہلاک کرنا پڑے گا۔ اگلے روز پچیس سو لوگوں کے سامنے ہتھنی کے گلے میں لوہے کی زنجیر ڈال کر کرین سے اٹھایا گیا۔ زنجیر ٹوٹ گئی اور ہتھنی گر کر شدید زخمی ہوئی۔ دوبارہ پھانسی کے لیے اٹھایا جا رہا تھا کہ وہ مر گئی۔
گروہ، قومیں اور ہجوم ایسا ہی کیا کرتے ہیں۔ لیکن ہوموپاکیئن کا معاملہ اور بھی شدید ہے۔ خیر دفع کریں۔ پشتو میں دفع کرنے کو ’’تاختا‘‘ کہتے ہیں۔ لہٰذا تاختا۔