مذہبی علما سائنس سے کیوں نفرت کرتے ہیں؟

 سائنس، مذہب اور  عقلیت پر وی لاگرعظمیٰ رومی خان کے  وی لاگ جراتمندانہ صحافت کا اظہار ہے

آج کے پاکستان میں سائنس اور مذہب کے موضوع پر بحث کرنا، خاص طور پر ایسے سیاق و سباق میں جہاں یہ متنازعہ ہو سکتا ہے، بہت زیادہ جرات اور سوچے سمجھے تجزیہ کی ضرورت ہے۔
حال ہی میں ایسی جرات کا مظاہرہ اسلام آباد کی صحافی اور وی لاگر عظمیٰ رومی خان نے کیا اور ہمارے معاشرے کی جاہلانہ سوچ کی بنیادوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔
عظمیٰ خان نے اپنے تازہ وی لاگ کا موضوع ہی “علما سائنس سے نفرت کیوں کرتے ہیں؟” قرار دیا۔ اس موضوع پر بات کرتے ہوئے انھوں نے جس طرح تصوف اور اسلامی علوم کی امام الغزالی کی توضیح کو سائنسی ترقی میں بڑی رکاوٹ قرار دیا ہے وہ بہت ہی قابل تحسین ہے۔
آئیے ان نکات پر غور کریں جو عظمیٰ نے اپنے وی لاگ میں اٹھائے ہیں:

:ملا اور سائنس کی مخالفت
ملا، بطور اسلامی مذہبی رہنما، سائنس کے بارے میں مختلف نقطہ نظر رکھتے ہیں۔ کچھ لوگ اسے قبول کرتے ہیں، جبکہ دوسرے بعض سائنسی نظریات یا دریافتوں کی مخالفت کرتے ہیں۔
سائنس کی مخالفت اکثر مذہبی متون (ٹیکسٹس) اور سائنسی نتائج کے درمیان سمجھے جانے والے تنازعات سے پیدا ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر، نظریہ ارتقاء مذہبی ٹیکسٹس کی بعض تشریحات سے مطابقت نہیں رکھتا۔
تاہم یہ تسلیم کرنا ضروری ہے کہ تمام مذہبی علما یا ملا سائنس کو مسترد نہیں کرتے۔ بہت سے لوگ اس کے تعاون کی تعریف کرتے ہیں اور مذہبی تعلیمات کو سائنسی علم کے ساتھ ہم آہنگ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

:الغزالی کا کردار
الغزالی (ابو حامد الغزالی) جو قرون وسطی کے ایک ممتاز اسلامی اسکالر تھے، نے اسلامی فکر پر نمایاں اثر ڈالا۔ اس کے کام نے عقلی تحقیقات (فلسفہ) پر مذہبی علم (الہیات) کی فوقیت اور اہمیت پر زور دیا۔ الغزالی نے دلیل دی کہ کچھ فلسفیانہ نظریات سے مذہبی عقیدے کو خطرہ لاحق ہے۔
اگرچہ ان کی تنقید نے بعد کی نسلوں کو متاثر کیا، لیکن یہ نوٹ کرنا ضروری ہے کہ الغزالی خود بھی فلسفیانہ مباحث میں مشغول رہے اور دوسرے سیاق و سباق میں عقلیت کی قدر کرتے رہے۔
مسلم دنیا میں عقلیت کو دبانا ایک پیچیدہ مسئلہ ہے۔ یہ صرف الغزالی کے نظریات سے منسوب نہیں ہے بلکہ اس میں تاریخی، ثقافتی اور سیاسی عوامل شامل ہیں۔ توہین رسالت کے قوانین، جو کئی مسلم اکثریتی ممالک میں موجود ہیں، درحقیقت مذہب، سائنس اور تنقیدی سوچ کے بارے میں کھلے عام مباحثے میں رکاوٹ بن چکے ہیں۔
پاکستان میں، جہاں توہین رسالت کے قوانین سختی سے نافذ ہیں، وہاں حساس موضوعات پر بات کرنا خطرناک ہو سکتا ہے۔ وہ افراد جو مذہبی اصولوں کو چیلنج کرتے ہیں یا اختلافی خیالات کا اظہار کرتے ہیں انہیں تشدد یا قانونی کارروائی سمیت سنگین نتائج کا خطرہ ہوتا ہے۔

:ایک جرات مندانہ اقدام کے طور پر وی لاگنگ
ان موضوعات کو دریافت کرنے والے Vlogs بنانا واقعی ہمت کی بات ہے۔ ان کی بدولت عقل و خرد پر گفتگو کی سپیس یا گنجائش پیدا ہوتی  ہے اور اس سے تنقیدی سوچ کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔
عظمیٰ خان کی طرح ان مباحثوں کو نیویگیٹ کرنے والے بلاگرز کو عقلی تحقیقات کو فروغ دیتے ہوئے مذہبی جذبات کا احترام کرتے ہوئے ایک نازک توازن برقرار رکھنا پُلِ صراط پر چلنے کے مترادف ہے۔
اس طرح کی گفتگو کر کے وہ چیلنجوں کے باوجود بھی معاشرے کو زیادہ باخبر اور عقلیت پسند بنانے میں اپنا حصہ ڈالتے ہیں۔
پاکستان جیسے ملک میں سائنس، مذہب اور عقلیت پر بحث کرنا ایک بڑی جرات کی بات ہے جس کے لیے بہت زیادہ بہادری کی ضرورت ہے۔ وی لاگرز (Vloggers) جو یہ ذمہ داری اٹھاتے ہیں وہ مکالمے اور افہام و تفہیم کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
اس لحاظ سے عظمیٰ خان کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے۔ عظمیٰ نے اس کے علاوہ بھی پاکستان کے دیگر متنازعہ موضوعات پر اچھی ریسرچ کے ساتھ وی لا گز بنائے ہیں۔ تاہم یہ وی لاگ مجھے ریسرچ، فصاحت و بلاغت اور پریزنٹیشن کے لحاظ سے بہت ہی بہترین لگا ہے۔
یہاں مجھے دور حاضر کے ایک تُرک سوشیالوجسٹ کا ایک مقالہ یاد آرہا ہے جو میں نے کبھی کہیں پڑھا تھا وہ یہ کہ مسلمانوں نے قرونِ وسطیٰ میں اپنے مذہبی متون (ٹیکسٹس) کو لفظی حد تک محدود کر لیا تھا۔
جبکہ اسی دور کے مسیحی سکالرز نے اپنے ان مذہبی متون کو تمثیلی (الیگوریکل) توضیح دی جو سائنسی علوم سے متصادم ہوتے تھے۔ اس لیے بقول اس کے، مسیحی دنیا میں مذہبی متون سائنس سے متصادم ہونے کے باوجود سائنسی ترقی کی راہ میں ایک مستقل رکاوٹ نہ بن سکے۔