برسی کے موقع پر قائد عوام کی غریبوں سے محبت کے انمول واقعات پر مبنی دلچسپ تحریر
ذوالفقار علی بھٹو کی والدہ خورشید بیگم غریب خاندان سے تعلق رکھتی تھی انہوں نے خود کہا تھا کہ میری ماں کا تعلق ایک غریب خاندان سے تھا اور اُن کو دوسرے غریب لوگوں کی غربت بہت کھٹکتی تھی بھٹو کے والد سرشاہنواز بھٹو سندھ کے بڑے وڈیرے جاگیر دار تھے اور جونا گڑھ کے نواب کے وزیراعظم تھے، ذوالفقار علی بھٹو شہید کی غریب نوازی اور عوام دوستی اکتسابی نہیں جبّلی تھی- اُنہیں غریبوں سے محبت اپنی غریب ماں سے مامتا میں ملی تھی’جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ غریبوں سے بھٹوکی محبت ایک سیاسی چال ہے اُنہیں یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ بھٹوکی ماں بہت غریب تھی 18 اکتوبر2007 کو جب محترمہ بے نظیر بھٹو 8 سال کے بعد واپس آئیں تو کراچی میں ان کا استقبال کرنے کے لیے اُمڈ آنے والے انسانی سمندر میں ایک شخص ایسا بھی تھا، جو ننگے پاؤں چل رہا تھا- اس سے کسی نے پوچھا کہ تم جوتا کیوں نہیں پہنتے ہو۔ تو اس نے اپنی جیب سے ایک تصویر نکال کر دکھائی- یہ ایک عجیب و غریب تصویر تھی- ذوالفقار علی بھٹو ایک بچے کا ہاتھ تھامے ننگے پاؤں چل رہے تھے- بچہ بھی ننگے پاؤں تھا- شلوار قمیض میں ملبوس بھٹو صاحب کا گریبان کھلا ہوا تھا اور سر پر جناح کیپ تھی- اس شخص نے بتایا کہ یہ تصویر والا بچہ میں ہوں- میں غریب تھا، میرے والدین مجھے جوتا نہیں دلا سکتے تھے- ایک دن میں لاڑکانہ کی گلی میں ننگے پاؤں جا رہا تھا کہ بھٹو صاحب نے مجھے دیکھا- وہ گاڑی سے اُترے، اپنا جوتا اُتارا اور میری انگلی پکڑ کر بہت دُور تک سخت دھوپ میں میرے ساتھ چلتے رہے اور مجھ سے باتیں کرتے رہے- آج میں ان کی بیٹی کے استقبال کے لیے آیا ہوں تو میں سمجھتا ہوں کہ مجھے جوتے نہیں پہننے چاہیے- میں جب بھی ننگے پاؤں چلتا ہوں تو مجھے ایسے محسوس ہوتا ہے کہ شہید بھٹو میرے ساتھ چل رہے ہیں- فیصل آباد کے رشید ننگ پیریا کو کیسے بھلایا جا سکتا ہے ۔ جس نے بھٹو کے عشق میں 11 سال ننگے پاوں رہا۔ 1989 میں متحرمہ بےنظیر بھٹو نے فیصل آباد سرکٹ ہاوس میں اس کو جوتی پہنائی – یہ صرف 2 واقعات ہے، جس سے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو آخر تھے کون؟ وزیرِ اعلی محمد حنیف رامے کے دور میں منڈی یزمان کا ایک واقعہ بھٹو شہید پیپلز پارٹی بہاولپور کے ایک اجلاس کی صدارت کر رہے تھے- پارٹی کارکنوں نے آپس کی بحث و تکرار کے دوران ایک دوسرے پر الزام تراشی شروع کر دی- اِس مضحکہ خیز صورتِ حال میں وزیراعظم بھٹو کے نیول اتاشی جناب عبدالقادر حئی کے ہونٹوں پر ایک حقارت آمیز مسکراہٹ نمودار ہوئی جس کا نوٹس صرف بھٹو صاحب نے لیا– اجلاس ختم ہونے کے چند منٹ بعد قادر حئی صاحب حیران پریشان رامے صاحب کی خدمت میں حاضر ہوئے اور بتایا کہ میری توچھٹی ہو گئی ہے- یہ خبر ہم سب کے لیے انتہائی حیران کُن تھی- اِس لیے کہ عبدالقادر حئی ایک بہت شائستہ بڑے مہذب اور ہردلعزیزنیول اتاشی تھے- وہ خود بھی حیران تھے کہ اُن سے کیا جرم سرزد ہوا رامے صاحب فورا بھٹو صاحب کی خدمت میں حاضر ہوئے – فقط چند لمحے بعد واپس لوٹ آئے اور بتایا کہ پارٹی کارکنوں کی باہمی بحث و تمحیص کے دوران جب نوبت تُو تُو میں میں پر آئی تو اُس وقت آپ کے ہونٹوں پر اُن کارکنوں کی تحقیر کا تاثر اُبھرا اور ایک طنزیہ مسکراہٹ نمودارہوئی – بس یہی آپ کا جرم ہے -بھٹو صاحب کا کہنا یہ ہے کہ میرے سٹاف میں کوئی ایسا شخص نہیں ہونا چاہیے جو غریب ناخواندہ یا نیم خواندہ کارکنوں کو حقیر سمجھتا ہو- ہمیں یہ عزت اِن ہی غریبوں نے بخشی ہے۔ اِس لیے ہمیں ہرحال میں اُن کا احسان مندرہنا چاہیے – بھٹو نے موت کو گلے لگا کرایک جوا کھیلا تھا۔ وہ جانتے تھے اگر میں جھک گیا تو تاریخ میں مر جاوں گا۔ اگر میں نے جھکنے سے انکار کیا۔ فوج کےہاتھوں ماراگیا تو تاریخ میں ذندہ رہوں گا۔اور باذی جیت گے بالکل چلی کے صدر سلواڈور الاندے کی طرح ستمبر 1973 کو الاندے نے فوج کی بغاوت میں بھگانے کی بجائے فوج کا مقابلہ کیا ۔
اورمیں کی بار مر چکا ہوں۔ اور نہیں جاتا کہ میں نے کیسے دوبارہ جنم لیا سوائے اس ایک احساس کے یہ میں ہوں جو مر چکا ہے اور شہر ذندہ ہے
پاکستان پیپلز پارٹی میں جب تک بھٹو ذندہ رہے گا پیپلز پارٹی زندہ رہے گی جس دن پیپلز پارٹی بھٹو سے دور ہوگی ختم ہو جاہے گی لیکن بھٹو تاریخ میں پھر بھی زندہ رہے گا
طالب علم بھٹو نے6 2ا پریل 1945 کو قاہد اعظم کو ا یک خط لکھا اس میں کہا میں ابھی سکول میں پڑھتا ہوں اس یےاپنے مقدس وطن کے قیا م میں عملی مدد نہیں کر سکتا۔ لیکن وہ وقت آنے والا ہے جب میں پاکستان کے لیے اپنی جان بھی قربان کر دوں گا۔ بھٹو نے اپنا کہا کو 4 اپریل 1979 کو سچ کر کے امر ہوگے اپنی جان باکستان اور اس کے غریب اور استحصال زدہ عوام کے لیے قربان کر دی۔
کسی سچاہی کو ثابت کرنے کے لی قدرت کی طرف سے ثبوت میہا ہوتے ھیں۔
ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کے خاتمے کے 3 ماہ بعد کی بات ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کود وبارہ گرفتار کر کے کراچی لایا گیا۔ کراچی جیل کے اندر واقع ریسٹ ہاوس کوسب جیل قرار دے کر راشد سیعد اسسٹنٹ سپرنٹنڈ نٹ جیل کو نگرانی کے فراہض دیے گیے۔ سخت پہرہ تھا۔ایک دن کسی اہم شخصیت کا فون آیا اس کے بعد بھٹو صاحب غصے میں ٹہلتے رہے۔ راشد سیعد کہتے ھیں میں روزانہ بھٹو صاحب کے لیے کھانے پکواتا ایک دن بھٹو صاحب نے مجھے بلایا اور کہا راشد مجھ سے کبھی پوچھا کے میں کیا کھانا چاہتا ہوں۔ میں نے کہا سر حکم کریں بھٹو صاحب نے کہا آج مونگ کی دال پکواو۔ بھٹو صاحب نے دو چپاتیاں کے ساتھ دال کھائی کہنے لگے راشد گواہ رہنا بھٹو صرف دو روٹی کھاتا ہے 18 گھنٹے مسلسل کام کیا ہے اپنی صحت کا خیال نہیں کیا ہے ۔ایک دن ایک بڑھیا نجانے کیسے اس طرف آ گی۔ اسکے ہاتھ میں ایک پوٹلی تھی۔گارڈ نے اسے روک لیا اس نے کہا تم نے میرے بیٹے کو یہاں قید کر رکھا ھے۔وہ بھوکا ہے۔تم ظلم لوگ اسے تو اس غریب کو کھانے کو کچھ نہیں د یتے اس سے پوچھا تمھارا بیٹا کون ہیں وہ رونے لگی میرا بیٹا بھٹو ہے ۔ ھم نے اس سے پوٹلی لے لی کھول کر دیکھا تو سب حیران رہ گے اس میں 2 روٹی اور تھوڑی سی مونگ کی دال تھی۔راشد سعید کہتا ھے اج تک اس سوال کا جواب نیہں ملا کہ اس بڑھیا کو کس نے بتایا کہ بھٹو اس ریسٹ ہاوس میں بند ہے اسے مونگ کی دال پسند ہے اور وہ 2 روٹیاں سے زیادہ نہیں کھاتا۔ شاہد قدرت راشد سعید کو یقین دلانا چاہتی تھی بھٹو جو کہتا ہے سچ کہتا ہے۔ بھٹو ایک غریب ماں کا بیٹا تھا۔اس کے دل میں غریبوں کا درد تھا۔ اس لیے و ہ غریبوں کے دل میں رہتا تھا وہ ہر اس گھر میں موجود تھا جس کی چھت برسات کے موسم میں ٹپکتی تھی ایک غریب ماں کے لیے یہ پتہ لگانا مشکل نہیں تھا اس کا بیٹا کہاں ہے اسے کھانے میں کیا پسند ھیے۔ اس بھٹو کے قول کی صداقت ثابت ہوتی ہے۔
اس بھٹو کے قول کی صداقت ثابت ہوتی ہے میں غریبوں کو اور غریب مجھے اچھی طرح سمجھتے ہیں۔ ہم دونوں کبھی ایک دوسرے کو دھوکہ نہیں دے سکتے ۔