ذوالفقار علی بھٹو ، ٹیکنوکریٹ سے سیاستدان کا سفر

 بھٹو بھی آمریت کی پیدا وار تھے، ایک مغالطہ جس کا جواب زیر نظر تحریر میں ہے  ،  بھٹو کی برسی کے موقع پر خصوصی مضمون

  پاکستان پیپلزپارٹی کے بانی چیئرمین،  سابق صدر و وزیراعظم پاکستان ذوالفقار علی بھٹو شہید کو پاکستان کے عوام سے جو والہانہ عزت، احترام، پیار ،محبت اور عشق نصیب ہوا وہ کسی شخص کو صدیوں بعدکبھی کبھی ہی نصیب ہوتا ہے تاہم مخالفین نے ذوالفقارعلی بھٹو کی شخصیت کو دھندلا کرنے کے لیے بہت سی  کاوشیں ہمیشہ جاری رکھی ہیں جو سطحی فکروں کو خوب متاثر بھی کرتی ہیں اور مختلف مغالطوں کو جنم دیتی ہیں۔اس تحریر میں جس مغالطہ کی حقیقت بیان کرنی کی سعی کر رہا ہوں وہ یوں بیان کیا “تمام ہی سیاستدان مارشل لاء کی فیکٹری میں تیار ہوئے ہیں اس لحاظ سے ذوالفقارعلی بھٹو بھی نواز شریف اور عمران جیسا ہی پس منظر رکھتے ہیں” اس کی حقیقت جانچنے کے لیے ذوالفقار علی بھٹو کے سیاست سے وابستہ ہونے کے عمل کو کچھ باریک سطح پر دیکھنے کی ضرورت ہے،برکلے سے پولیٹیکل سائنس اور انٹرنیشنل لاء،  آکسفورڈ سے قانون میں ایم اے آنرز اور لنکن ان سے بیرسٹری کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد لنکن ان ہی میں چند دنوں کی پروفیسری، مختصر مدت کی بے نیازی کے انداز کی لیکن انتہائی کامیاب وکالت اور والد کی وفات کی بعد انتہائی شوق و شغف سے زمینوں کی دیکھ بال کا فریضہ ادا کیا،آپ کا خاندان سیاسی اور مزاحمتی خاندان تھا لیکن وہ ابھی عملی سیاست میں آنے کے بارے میں فیصلہ نہ کر پائے تھے کہ 1957ء میں اقوام متحدہ کے لیے پاکستانی وفد کا رکن نامزد ہوئے ( وزیراعظم حسین شہید سہروردی کے دور میں )  تو اقوام متحدہ میں آپ نے امن عالم اور جارحیت کے موضوع پر تقریر کی، آپ کی یہ تقریر اس معیار کی تھی کہ ذوالفقار علی بھٹو کو اقوام متحدہ کے وفد میں دوسری مرتبہ مارچ اپریل 1958ء میں  ممبر نامزد ہونے کا سبب بنی، اس مرتبہ نوجوان رکن نے پاکستان کی بحری سرحدیں کے موضوع پر چار تقاریر کیں۔ ان تقاریر نے ذوالفقار علی بھٹو کی سفارتکاری اور سیاست کاری کا سحر انٹیلی جنشیا اور اقتدار کی راہداریوں پر طاری کیا۔ سکندر مرزا نے 8 اکتوبر کو مارشل لا کے نفاذ کے بعد آپ کو اپنی کابینہ میں شامل کیا اور یہ حیثیت 20 دن بعد ایوب خان کی طرف سے سکندر مرزا کو فارغ کرکے عنان اقتدار مکمل اپنے ہاتھوں میں لینے کے بعد جاری رہی، ان کابیناوں میں شمولیت کے وقت سکندر مرزا اور ایوب کے دماغوں میں ایسا کوئی گمان نہ تھا کہ انہوں نے اپنا حمایت یافتہ کوئی سیاستدان تیار کرنا ہے اور ذوالفقار علی بھٹو نے بھی ایسا کوئی خواب نہیں دیکھا تھا، اس وقت ایسے کسی منصوبے کی ضرورت بھی نہ تھی کیونکہ ایوب خان کے مقابل کوئی مضبوط سیاسی جماعت یا شخصیت موجود نہ تھی جس کو گرانے کے لیے یا جس کا مقابلہ کرنے کے لیے ایوب خان اپنا کوئی ہمنوا سیاستدان تعمیر کرنے کی کوشش کرتا، جیسی ضرورت ضیاءالحق کو تھی جبکہ اس کے مقابل پاکستان پیپلزپارٹی ایک جمہوری جدوجہد کرنے والی اور اس کے اقتدار کو چیلنج کرنے والی جماعت  معرض وجود میں آئے گیارہ سال ہو چکے تھے جس کو وسیع پیمانے پر عوامی تائید و حمایت حاصل تھی۔ المختصر ذوالفقار علی بھٹو ایک پڑھے لکھے ٹیکنوکریٹ کی حیثیت سے ممبر اقوام متحدہ وفد اور پھر وزیر تجارت کی حیثیت سے اقتدار کی رہداریوں میں داخل ہوئے نہ کہ ایک سیاستدان کی حیثیت سے، جس طرح ضیاءالحق کی کابینہ میں ڈاکٹر اسد وزیر پٹرولیم یا پرویز مشرف کی کابینہ میں عمر اصغر خان وزیر بنے تھے تاہم ذوالفقار علی بھٹو وزیر تجارت ، وزیر صنعت و قدرتی وسائل اور بالاخرجنوری 1963ء میں وزیر خارجہ بننے تک کا سفر ایک ٹیکنوکریٹ سے سیاستدان بننے کا عمل تھا، اس عمل میں ذوالفقار علی بھٹو کو شہرت تک پہنچانے کے لیے ذوالفقار علی بھٹو کی فطانت،  بصیرت ،  محنت اور ذوالفقار علی بھٹو کا جذبہ کام آیا ۔

م1950ء  کی دہائی میں پاکستان کی خارجہ پالیسی مکمل طور پر امریکی ڈکٹیشن کے طابع تھی اور نتیجہتا” پاکستان کی معیشت و سیاست بھی امریکہ کے گروی ہو چکی تھی۔ پاکستان امریکہ کے سیٹو اور سینٹو دفاعی معاہدوں کی گرفت میں آ چکا تھا۔ ایوب خان کے مارشل لاء کے ساتھ ہی پشاور کا بڈابیڑ کا ایئر بیس سوویت یونین کے خلاف جاسوسی کے لیے استعمال ہو چکا تھا۔ پاکستان جو چین کو تسلیم کرنے والے اولین ممالک میں شامل تھا، امریکی  خوشنودی کے لیےچین کی اقوام متحدہ کی رکنیت کی مخالفت کرتا آ رہا تھا اندریں حالات ذوالفقار علی بھٹو نے پاکستان چین کی دوستی کی بنیاد رکھی، چین کے ساتھ سرحدی معاہدہ طے پایا، افروایشائی ممالک کے اتحاد،  تیسری دنیا کے ممالک کے اتحاد اور مسلم ممالک کے اتحاد کے امور پر ذوالفقار علی بھٹو  نے اہم کردار ادا کیا، ویتنام جنگ میں ویتنام کی سفارتی مدد کی اور امریکی دباؤ اور التجاوں کو خاطر میں نہ لایا۔ یہ تمام امور ذوالفقار علی بھٹو نے ایوب خان کے دور میں ایک آزاد وزیرخارجہ کی حیثیت سے کیے۔ ذولفقار علی بھٹو کے ان اقدامات نے جہاں انہیں پاکستانی عوام کی نظروں میں ایک ایم رہنما کی حیثیت دی وہاں وہ اپنی خارجہ پالیسی کے ذریعے پوری دنیا کی آزادی پسند اقوام کے نمائندوں اور سامراج مخالف افراد کے دل و دماغ میں ایک حریت پسند کا مقام حاصل کر چکے تھے۔ یہ تمام اقوام اور افراد ذولفقار علی بھٹو کی اقتدار کی رہداریوں میں موجود رہنا اپنے لیے بہت اہم سمجھتے تھے یہی وجہ ہے کہ وہ ذوالفقار علی بھٹو کی وزارتِ خارجہ سے علیحدگی کے خلاف تھے اور انہیں تشویش لاحق تھی۔ اس کی ایک بڑی مثال نامور برطانوی مفکر برٹرینڈ رسل کی ہے۔ برٹرینڈ رسل نے اگست 1966ء میں مصر کے صدر جمال عبدالناصر، الجیریا کے صدر حواری بومدین، انڈونیشیا کے صدر سوئیکارنو، روسی وزیرِ خارجہ گرومیکو، لندن میں چین کے ایمبیسڈر شینگ شیانگ،  لندن میں ایرانی ایمبیسڈر  ارد شیر زاہدی ،پاکستانی سیکریٹری خارجہ ایس ایم یوسف، اکانومسٹ کے ایڈیٹر، سپیکٹیٹر کے ایڈیٹر اور خود ذوالفقار علی بھٹو کو خطوط لکھے جن میں سے بعض کے اقتسابات پر مبنی چند جملے تحریر میں لا رہا ہوں

  مغربی ممالک کی نظر میں ذوالفقار علی بھٹو کا گناہ یہ ہے کہ وہ پاکستان کے لیے آزادانہ خارجہ پالیسی مرتب کرنے والی اہم شخصیت تھے۔ جس کی وجہ سے یہ ملک ان ملکوں کی صف سے علیحدہ ہوگیا جو امریکی سامراج کے دم چھلا تھے۔ 2، امریکہ اور اس کے حواری مختلف ذرائع استعمال کر کے  دنیا بھر میں ہر ترقی پسند اور خود مختار قوت کو کچلنا چاہتے ہیں۔ اس طریقے سے وہ گھانا، انڈونیشیا اور پاکستان میں اپنے جوہر دیکھا چکے ہیں۔ 3،حال ہی میں پاکستان میں ایک واقعاتی تبدیلی رونما ہوئی ہے۔ میری مراد جناب ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت سے علیحدگی ہے جو آزادانہ خارجہ پالیسی اور افریشائی استحکام کے معمار تھے۔انہوں نے پاکستان کو نوآبادیاتی ممالک کی صف سے نکال کر ایشیاء اور افریقہ کے ان ممالک میں لا کھڑا کیا ہے جو آزادانہ پالیسی کے بارے میں پوری طرح واضح اور غیر متزلزل ہیں۔ 4، حال ہی میں امریکہ اور برطانیہ نے ذوالفقار علی بھٹو کو وزارتِ خارجہ سے علیحدہ کرانے کے لیے زبردست دباؤ سے کام لیا ہے بلا شبہ مسٹر بھٹو پاکستان کی آزادانہ خارجہ پالیسی کے معمار ہیں۔

ذوالفقار علی بھٹو نے ایوب خان کے ساتھ اس وقت اختلاف کیا ، علیحدگی اختیار کی اور اسے للکارا جب ایوب خان کے اقتدار کا سورج پوری آب و تاب سے چمک رہا تھا۔ وہ ایک جابرانہ انتخاب کے بعد دوسری بار صدر پاکستان منتخب ہو چکا تھا۔  وہ لوگ جو یہ کہتے ہیں کہ ذوالفقار علی بھٹو بھی ایک فوجی آمر کی مدد سے سیاستدان بنا وہ یا تو فکری بددیانتی سے کام لیتے ہیں یا تاریخ کے تجزیہ کی صلاحیت سے عاری ہیں۔  ذوالفقار علی بھٹو جب   وزارت خارجہ کی کامیابیاں اپنے نام کرکے  ایوب خان کے خلاف بغاوت کرکے  عوام میں آئے تو ان کے ٹیکنوکریٹ سے سیاستدان بننے کی تکمیل ہوئی۔ یاد رہے کہ ذوالفقار علی بھٹو نے کئی مہینے پہلے استعفے دیا جو وسط 1966ء میں منظور کیا گیا۔ پاکستان پیپلزپارٹی کے قیام کے لیے نیشنل سٹوڈنٹس فیڈریشن کے تیار کردہ نوجوانوں کی کھیپ، نیشنل عوامی پارٹی بھاشانی گروپ کے پلیٹ فارم سے مصروف جدوجہد ترقی پسند سیاسی کارکن، مسلم لیگ کے مختلف دھڑوں میں جمہوری اور سامراج مخالف ذہن رکھنے والا کیڈر، وکلاء، اساتذہ اور ڈاکٹرز پر مشتمل انٹیلی جنشیا، پنجاب سے بابائے سوشلزم شیخ محمد رشید کی قائم کردہ کسان کمیٹیاں،  سندھ سے ہاری تحریک کے کارکنان اور ریلوے ، پی آئی اے، واپڈا اور صنعتی یونٹوں کی ٹریڈ یونینز کے مزدور نے ذوالفقار علی بھٹو کو بنیاد فراہم کی اور پاکستان پیپلزپارٹی معرض وجود میں آئی۔