غزہ میں اسرائیل کے ذریعہ فلسطینیوں کی نسل کشی اور امریکہ کی جانب سے اس کی تائید صدارتی الیکشن میں جو بائیڈن کو مہنگی پڑ سکتی ہے۔  پارٹی کی امیدواری جیتنے کیلئے ہونے والے پرائمری الیکشن میں انہیں نہ صرف جگہ جگہ احتجاج اور مظاہروں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے بلکہ  عرب  اورمسلم امریکی شہریوں نے  اس معاملے  میں ان کے خلاف تحریک چھیڑ دی ہے۔ مشی گن میں جو بائیڈن کسی  طرح ڈیموکریٹک پارٹی کے پرائمری الیکشن میں کامیاب تو ہو گئے ہیں مگر مسلم عرب ووٹروں نے اعلان کیا ہے کہ وہ  انہیں ووٹ دینے کیلئے پابند نہیں ہیں۔
  مشی گن میں عرب نژاد امریکی شہریوں  کی ایک مہم ’’لِسن ٹو مشی گن‘‘ (مشی گن کی آواز سنو) نے  صدر بائیڈن کیلئے اپنی حمایت واپس لینے کا اعلان کیا ہے اور غزہ کی جنگ سے متعلق ان کی پالیسیوں کے خلاف بطور احتجاج عرب اور مسلم ووٹروں سے اپیل کی ہے کہ وہ پرائمری میں ووٹنگ کے دوران بائیڈن کو ووٹ دینے کےبجائے ’’اَن کمیٹیڈ‘‘ (یعنی ببائیڈن کو ووٹ دینے کےپابند نہیں ہیں) پر نشان لگائیں۔ واضح رہے کہ یہ تنظیم امریکہ میں سب سے بڑی عرب امریکی شہریوں  کی  تنظیموں  میں سے ایک ہے۔   امریکی  کانگریس کی  رُکن فلسطینی نژاد  راشدہ طلیب اس مہم میں پیش پیش ہیں۔  ان کے مطابق اس تحریک کا مقصد بائیڈن انتظامیہ کو سخت  پیغام  دینا ہے۔  مہم کے حامی دھمکی دے رہے ہیں کہ اگر وہ جنگ سے متعلق اپنی پالیسی تبدیل نہیں کرتے تو وہ نومبر کے صدارتی الیکشن میں انہیں  ووٹ دینے کے پابند نہیں  ہوں  گے۔
 واضح رہے کہ صدر بائیڈن نے 2020  کے صدارتی الیکشن میں مشی گن میں ڈونالڈ ٹرمپ کو صرف 8.2  فیصد  کے معمولی فرق سے  شکست دی تھی۔ راشدہ طلیب کا کہنا ہے کہ ’مشی گن میں 74 فیصد ڈیموکریٹس جنگ بندی کی حمایت کرتے ہیں، پھر بھی صدر بائیڈن ہماری بات نہیں سن رہے ہیں۔اس لئے ہم  اپنی جمہوریت کو یہ کہنے کیلئے استعمال کر  رہے ہیں کہ ’’مشی گن کی آواز کو سنو۔‘‘ واضح رہے کہ مشی گن میں عرب امریکی شہریوں کی بڑی تعداد  ہے جو  صدارتی الیکشن میں فیصلہ کن رول ادا کرسکتی ہے۔

 بائیڈن کی صدارتی امیدواری پر مہر لگانے کیلئےمشی گن میں ڈیموکریٹک پارٹی کے پرائمری الیکشن  میں جو ووٹ ڈالے گئے ان میں 80 فیصد بائیڈن نے حاصل کئے اور جیت گئے مگر خبر رساں  ایجنسی ’اے پی ‘ کے مطابق پچیس فیصد ووٹروں  نے  ’’اَن کمیٹیڈ‘‘ پر مہر لگائی ہے۔ یہ احتجاجی ووٹ ہیں جن کا مقصد بائیڈن انتظامیہ کو سخت پیغام دینا ہے۔  ووٹوں کی گنتی کے لحاظ سے ۲۵؍ فیصد ووٹوں  کی گنتی تک ۳۳؍ ہزار ووٹ ’’پابند نہ ہونے‘‘ کے تھے جبکہ   احتجاج کے قائدین نے جو ہدف طے کیاتھا وہ محض ۱۰؍ ہزار کا تھا۔  یہ صدر جو بائیڈن کیلئے بہت ہی واضح اور سخت پیغام ہے کہ نومبر  میں  صدارتی الیکشن کیلئے انہیں کس طرح نقصان پہنچ سکتاہے۔مسلم اور عرب نژاد امریکیوں کی اس مہم  میں وہ  انصاف پسند امریکی شہری بھی شامل ہو رہے ہیں جو غزہ  میں نسل کشی کے خلاف ہیں۔  
 
  عرب نژاد امریکی ووٹروں نے بائیڈن کی   جانب سے اسرائیل کی بے جا حمایت پر مایوسی کا  اظہار کرتے ہوئے بطور احتجاج ٹرمپ کو ووٹ دینے کا بھی اعلان کیا ہے۔ مشی گن صدارتی الیکشن میں فیصلہ کن رول ادا کرسکتاہے۔ یہیں  ۲۰۲۰ء کے صدارتی الیکشن میں بائیڈن اور ٹرمپ میں  کانٹے کی ٹکر ہوئی تھی۔ بائیڈن عرب  امریکی شہریوں  کی یکطرفہ حمایت کی وجہ سے ۲ء۸؍ فیصد ووٹوں کے معمولی فرق سے ٹرمپ کو ہرانے میں  کامیاب ہوئے تھے مگر امسال وہی عرب امریکی ووٹر  اور ان کے ساتھ  انصاف پسند ڈیموکریٹک ووٹروں کی بڑی تعداد غزہ کے تعلق سے بائیڈن کی پالیسی کی وجہ سے بائیڈن سے ناراض  ہے۔  انہیں   منانے کیلئے  بائیڈن اوران کی ٹیم نے مشی گن کے کئی دورے کئے مگر انہیں کامیابی نہیں ملی۔  دوسری طرف ’’مشی گن کی آواز کو سنو‘‘ تحریک  کے ذمہ داران نے پرائمری  میں ملنےو الی کامیابی سے خوش ہیں ۔ان کے مطابق ’’ہم نے جتنی توقع کی تھی اس سے  زیادہ تائید مل رہی ہے۔‘‘