سپریم کورٹ کا فیصلہ ` بھٹو کے ساتھ انصاف نہیں ہوا ، بھٹو کے خلاف مقدمہ کی سماعت کو غیر منصفانہ قرار دینے پر عوام میں  بھرپور خوشی

 لاہور/ اسلام آباد (رپورٹ ، زوار حسین کامریڈ )  سپریم کورٹ آف پاکستان میں ذوالفقارعلی بھٹوکیس سے متعلق صدارتی ریفرنس پر چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے مختصرتاریخی  فیصلہ سناتے ہوئے قرار دیا ہے کہ سپریم کورٹ کی متفقہ رائے ہے کہ ہم ججز پابند ہیں کہ  قانون کے مطابق فیصلہ کریں . جب تک ہم اپنی غلطیاں تسلیم نہیں کریں گے درست نہیں ہوں گے. انہوں نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ صدارتی  ریفرنس میں پانچ سوالات اٹھائے گئے ہیں، ذوالفقار علی بھٹو کو آئین کے مطابق فیئر ٹرائل کا موقع نہیں ملا اور نہ ہی بھٹو کے ٹرائل میں بنیادی حق پر عمل کیا گیا
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائزعیسیٰ  نے مزید کہا کہ عدلیہ کا کام انصاف کی فراہمی ہے، تاریخ میں ایسے متعدد مقدمات ہیں جن میں درست فیصلے نہیں ہوئے، ماضی کی غلطیوں کا ازالہ کیے  بغیر ہم  درست سمت میں نہیں جا سکتے.انہوں نے کہا ریفرنس میں جس سوال پر معاونت نہیں ملی اس کا جواب نہیں دے سکتے
۔گزشتہ سماعت میں عدالتِ عظمیٰ نے تمام فریقین و معاونین کے دلائل مکمل ہونے کے بعد بھٹو کیس کی سماعت مکمل کر لی تھی یاد رہے ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے خلاف ریفرنس آصف علی زرداری نے بطور صدرِ پاکستان2011ء میں دائر کیا تھا۔
عدالتی مختصر فیصلہ سنائے جانے کے وقت چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری سپریم کورٹ میں موجود تھے جوعدالتی رائے سن کر  آبدیدہ ہو گئے.
نواب احمد خان قتل کیس پاکستان کی تاریخ کا ایک نا قابل فراموش باب ہے . پاکستان کے پہلے منتخب وزیراعظم ذوالفقارعلی بھٹو کو فوجی آمرجنرل ضیاء نے اپنے نا جائز،غیرآئینی و غیرجمہوری آمرانہ اقتدار کو بچانے کے لیے  1973 میں لاہور میں درج کی گئی ایک ایف  ائی آر جس میں  زوالفقار علی بھٹو کو نواب احمد خان کے قتل کی اعانت کرنے کے الزام پر شامل کیا گیا تھا، کو مارشل لا کے نفاد کے بعد 1978میں بنیاد بنا کر پلاننگ کے ساتھ جوڈیشنری کی وساطت ہائی کورٹ بعد ازاں سپریم کورٹ سے سزاے موت دلا کرذوالفقارعلی بھٹو کا عدالتی قتل ممکن بنایا یاد رہے  1989میں اسلام آباد میں دنیا بھر سے ماہرین قانون کی ایک  عالمی سمینار منقعد کیا گیا تھا جس میں متذکرہ کیس کے عدالتی فیصلہ کا جائزہ لیا گیا تھا . تمام مندوبین کی متفقہ راۓ تھی کہ زوالفقارعلی بھٹو کو نواب احمد خان کیس میں  عالمی قوانین کے مطابق کسی صورت پھانسی نہیں دی جا سکتی لہٰذا اس مقدمہ کو پاکستان کے اولین عوامی لیڈرکا آمریت کے ایجنڈا کی تکمیل کے لیے جوڈیشنل مرڈر کیا گیا ہے . پاکستان کے عوام کی اکثریت نے  سپریم کورٹ کے اس فیصلہ پر خوشی کا اظہار کیا ہے