لاہور ( انٹرنیشنل ڈیسک) اقوام متحدہ کےحکام نے  اسرائیل پر منظم طریقے سے انسانی امداد کی رسائی غزہ کے لوگوں تک پہنچے سے روکنے کا الزام عائد کیا اور متنبہ کیا ہے کہ فوری کارروائی نہ کی گئی تو غزہ کی ایک چوتھائی آبادی بھکمری کا شکارہو سکتی ہے۔ او سی ایچ اے کے ڈپٹی چیف رمیش راجا سنگھم نے اقوام متحدہ سیکوریٹی کاؤنسل میں کہا کہ غزہ کی ایک چوتھائی آبادی بھکمری سے ایک قدم دور ہے۔ مشرقی غزہ میں چھ  میں سے ایک ہر دو سال کا بچہ شدید بھکمری کا شکار ہے اور غزہ کی 3.2؍ ملین آبادی زندہ رہنے کیلئے ناکافی غذا استعمال کر رہی ہے۔ اگر اس ضمن میں کچھ نہ کیا گیا تو غزہ میں بڑے پیمانے پر قحط اور جنگ کے سبب مزید افراد کے متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔
اقوام متحدہ کے حکام نے اسرائیل پر ’’منظم طریقے سے ‘‘ انسانی امداد کی رسائی غزہ کے لوگوں تک پہنچنے سے روکنے کا الزام عائد کیا اور متنبہ کیا ہے کہ غزہ کی ایک چوتھائی آبادی کو فوری طور پر نہ کی والی کارروائی کے بغیر بھکمری کا سامنا ہے۔
واضح رہے کہ ستائیس فروری کو یو این کی یہ وارننگ اس وقت سامنے آئی ہے جب شمالی غزہ کی تصویریں ظاہر کررہی ہیں کہ وہاں غذا کیلئے قطار میں لگے فلسطینیوں پر اسرائیل نے دوبارہ فائرنگ کی ہے۔تاہم، واضح نہیں ہو سکا ہے کہ اس فائرنگ سے کتنے افراد کی موت ہوئی ہے اور کتنے زخمی ہوئےہیں۔
 غزہ میں اسرائیلی جنگ، جسے پانچ ماہ ہو گئے ہیں، کے سبب اب تک 29 ہزار سے زائد فلسطینی جاں بحق ہوئے ہیں جن میں زیادہ تعداد خواتین اور بچوں کی ہے۔سات  اکتوبر کو حماس کے حملے کے بعد سے اسرائیل نے غزہ میں مسلسل اپنے حملے جاری رکھے ہیں۔اسرائیل کی مسلسل فوجی کارروائیاں، جن میں روزانہ شمالی اور مرکزی غزہ میں فضائی حملے، زمینی حملےاور غزہ میں داخل ہونے کیلئے تمام داخلی دروازے بند رکھنے اور ایک داخلی دروازے کو کھلا رکھنا بڑے پیمانے پر انسانی بحران کی وجہ بنا ہے۔
اس حوالے سے او سی ایچ اے کے ڈپٹی چیف رمیش راجا سنگھم نے اقوام متحدہ سیکوریٹی کاؤنسل سے کہا کہ ہم فروری کے اختتام پر پہنچ چکے ہیں۔جہاں تقریباً 5 کروڑ 76؍ہزار افراد، ایک چوتھائی غزہ کی آبادی بھکمری سے ایک قدم دورہیں۔انہوں نے غزہ میں غذا کےموضوع پر ہونے والی میٹنگ کے تعلق سے کہا کہ مشرقی غزہ میں2 سال کی عمر تک ، میں سے ایک بچہ شدید بھکمری کا شکار ہے اور غزہ کی  3.2ملین آبادی زندہ رہنے کیلئے ناکافی غذا استعمال کر رہی ہے۔اگر اس ضمن میں کچھ نہ کیا گیا تو غزہ میں بڑے پیمانے پر قحط ہونے اور اس جنگ کے سبب مزید افراد کے متاثر ہونے کا بھی خدشہ ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ یو این کی امدادی ایجنسیوں اور دیگر امدادی گروپوں کو غز ہ میں امدادپہنچانے میں زبردست دشواریوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہےجن میں سرحدوں کے بند ہونے، حرکت کرنے پر روک، رابطہ کی کمی ، جانچ کے سخت طریقہ کار، بدامنی، تباہ شدہ سڑکیں اور نہ پھٹنے والا اسلحہ بھی شامل ہیں۔جینوا میں جینس لائرکے ، دوسرے او سی ایچ اے ترجمان نے مزید کہا کہ اسرائیل کی سخت کارروائی نے غزہ میں انسانی امداد کی رسائی کو نا ممکن بنا دیا ہے۔امدادی کارکنان پربھی فائرنگ کی جا رہی ہے اور منظم طریقے سے ان افراد کو بھی امداد سے محروم رکھا جا رہا ہے جنہیں ابھی امداد کی سب سے زیادہ ضرورت ہے۔امدادی کارکنان کو پریشان ، خوفزدہ اور اسرائیلی فوجوں کی جانب سے گرفتار کیا جا رہاہے۔ انسانی امداد کیلئے بنائے گئے انفرااسٹرکچر بھی بڑے پیمانے پر متاثر ہو رہا ہے ۔انہوں نے مزید کہا کہ  جنگ بندی ہوتی ہے تو وہ اپنی امدادی کارروائیوںکو بڑے پیمانے پر بڑھانے کیلئے تیا رہے۔کارل اسکاؤ ، جو ڈبلیو پی ایف کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر ہیں، نےکہا کہ غزہ میں بھکمری کے حالات پیدا ہونے کی اہم وجہ وہاں کافی تعداد میں غذا کی سپلائی کا نہ پہنچ پانا اور ہمارا عملہ امداد کو پہنچانے میں جن مشکلات کا سامنا کرتا ہے، بھی ہو سکتی ہے۔اگر کچھ بھی تبدیل نہیں ہوا توشمالی غزہ میں بھکمری نزدیک ہے۔یاد رہے کہ ڈبلیو ایف پی نے اعلان کیا تھا کہ اس کے طبی عملے کے اسرائیلی فائرنگ کے زد میں آنے کے بعد اور بھوکے فلسطینیوں کے امداد لوٹنے کے بعد اس نےغزہ میں اپنی امدادی کارروائی روک دی ہے۔