اللہ سبحانہ تعالیٰ نے ہم سے روزہ رکھوانے کا مقصد یہ بیان فرمایا ہے کہ ”ہم بن جائیں“ لیکن سوائے ایک بہت ہی قلیل تعداد کہ ہم کرتے اسکا الٹ ہیں؟ جبکہ رمضان المبارک اسلامی مہینوں میں سے وہ مہینہ ہے جس میں حقوق العباد اور حقوق اللہ کی ادائیگی ایک ساتھ ہوتی ہے جس پر انگنت ثواب بھی ہے۔ یعنی اس مہینے میں کوئی بھی نیکی کی جا ئے تو ستر سے لیکر سات سو گناہ تک ثواب ہے؟ جبکہ روزہ رکھنے کا ثواب ا للہ سبحانہ تعالیٰ نے ظاہر نہیں فرمایا ہے اور یہ فرما کر خفیہ رکھا ہے کہ وہ میں اپنے بندے کوبروز ِ حساب خود عطاکرونگا؟ ہونا تو یہ چاہیئے تھا کہ لوگ اس ماہ میں تمام شیطانی حرکتیں چھوڑ دیتے اور لوگوں کو زیادہ سے سہولتیں فراہم کر تے مگر ہمارے یہاں اس کا الٹ ہوتاہے کہ ہرا یک کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ وہ اس مہینے میں جتنا زیادہ سے زیادہ کماسکے ا تنا کمالے؟ لہذا ذخیرہ اندوزی زوروں پر ہوتی ہے، چور بازاری زوروں پر ہوتی ہے۔ ملاوٹ زوروں پر ہوتی ہے،رشوت خوری زوروں پر ہوتی ہے۔ غرضیکہ وہ سب کچھ زوروں پر ہوتا ہے جونہیں ہونا چا ہیے،پھر اسی میں سے خیرات بھی زوروں پر ہوتی ہے؟ اور دینے والا سمجھتا ہے کہ میں نے جنت کمالی؟ جبکہ معاملہ اس کے برعکس ہے کہ جس طرح کھوٹا سکہ بازار میں کوئی لینے کو تیار نہیں ہوتا۔ اسی طرح حرام کی کمائی بھی اللہ سبحانہ تعالیٰ کے یہاں قابل ِقبول نہیں ہے ا ور یہاں تک فرمادیاگیا ہے کہ وہ دینے والے کہ منہ پرماردی جا ئے گی؟ اس پر طرہ یہ ہے زکات اور خیرات بھی اس مہینے میں اسی کمائی میں سے دل کھول کر دیتے ہیں۔ چاہیں وہ مساجد ہوں، چاہے وہ کوئی اور نیک کام ہو جبکہ مساجد کے لیے پہلے منتظمین اس با ت کی تحقیق کیا کرتے تھے کہ مال حلال ہے یانہیں پھر کہیں جاکر وہ اسے مسجد کے لیے بطور چندہ قبول کرتے تھے۔ ہمیں بڑی حیرت ہوئی کہ پچھلے سال ہم نے ایک مفتی صاحب کو ایک سوال کے جواب میں ٹی وی پر یہ کہتے ہوئے سنا کہ اب چونکہ حلال مال ملنا تقریباً ناممکن ہوگیا ہے لہذا اگر دینے والے کے مال میں حلال کا غلبہ ہوتو وہ بھی چلے گا؟ جبکہ ہونا تو یہ چاہیئے تھا کہ جس طرح کھوٹا سکہ دیکھ کر دکااندار تو کب قبول کرتا ہے فقیر تک دس سنا کرکے دینے والے کے منہ پر مار دیتا ہے؟ مگر اب معاملہ اس کے برعکس ہے کہ چندہ دینے والے سے کوئی یہ نہیں پوچھتا ہے کہ تیری کمائی حلال ہے یاحرام کیونکہ اس سے اس کے ناراض ہوجانے کاخطرہ ہے۔ جبکہ یہ ہی مسئلہ کسی عالم سے پوچھیں کہ حرام چیز اگرحلال میں ملادی جا ئے توا س کا تناسب کچھ بھی ہو کیا وہ حلال رہے گی؟ تو یہ ہی علماء پوری کی پوری چیزکو حرام قرار دیتے نظر آئیں گے؟ عجیب دہرا معیار ہے۔ ابو یعلیٰ کی ایک حدیث میں ہے کہ جو ان چیزوں کا پابند نہ ہو وہ ہیں؟ حلا ل، حرام، حکم اور ممانعت وہ قیامت میں منافق ہوکرا للہ سے ملے گا۔
اسی طرح روزہ داروں کو روزہ کھلوانے کا بھی بہت ثواب ہے؟ بہت سے صحابہ کرام نے حضور (ص) سے سوال کیا کہ اس سے تو صرف مالدا ر لوگ ہی فائیدہ ا ٹھاسکتے ہیں ہم کیا کریں؟ تو حضور (ص)نے فرمایا کہ ایک کھجور میں سے بھی اگر تم آدھی خود کھالو اور آدھی اسے دیدو یااسے اپنے پانی میں سے تھوڑا سا پانی ہی پلاو تو بھی اس کا اتنا ہی ثواب ملے گا جتنا کسی روزہ دارکو روزہ کھلوانے کا ثواب ہے۔ ثواب کے سلسلہ میں آپ کو بہت سے مضمون ملیں گے۔ مگر اس پر کوئی کم ہی لکھے گا کہ کوئی ان تمام برائیوں میں ملوث ہونے کے باو جو میں نے اوپر گنادی ہیں۔ پھر بھی رمضان میں توبہ کے بغیر جو لوگ گذر جا ئیں گے انہیں کیا حاصل ہوگا سوائے گناہوں کے جو اصل میں آجکل امت کے سوچنے کی باتیں ہیں جوکوئی اور یاد نہیں دلا ئے گا؟ کیونکہ ان کے بھی بال بچے ہیں ان کی مجبوریاں بھی ہیں لہذا وہ سچ نہیں کہہ سکتے ہیں۔ ویسے آپ دیکھیں گے چاند نظر آتے ہی مساجد بھر جائیں گی لیکن کوئی ا پنا وہ کام نہیں چھوڑے گا جو کہ کرتا چلا آرہا ہے۔ تو اسے یہ مہینہ بھی کو ئی فائیدہ نہیں دیگا۔ کیونکہ جس نے آخری عشرہ بھی گزار دیا اور اپنی نجات نہیں کرائی تو اس کی ہلاکت کا اعلان حضرت جبرئیل ؑ نے کیا ہے اوراس پر (آمین) حضور(ص) نے فرمائی ہے۔ یہ بہت بڑی وعید ہے مگر سوچنے والوں کے لیے۔ آپ یہ بھی دیکھیں گے کہ پورے مہینے افطاریوں پہ زور رہے گا مگریہ کوئی نہیں پوچھے گا کہ یہ جس مال سے تیار ہوئی ہیں حرام سے تو نہیں ہے، جو نہیں جانتا ہے اس کو تو جانے دیجئے۔ کیونکہ حضور (ص) کے فرمان کے مطابق اس امت کی بھول چوک معاف ہے مگر جس کو معلوم ہے کہ جس کے گھر سے یہ آئی وہ کیا کرتا کیا ہے؟ اگر ااس نے یہ جان کر بھی کھالی تو حرام کھانے کے بعد یہ مشہورحدیث ہے کہ “چالیس دن تک ایک لقمہ حرام کھانے والے کی کوئی دعا قبول نہیں ہوتی“ اور اگر یہ ہی کام پورے مہینے کرتا چلا گیا تو اگلے مہینے تک بھی دعا قبول نہیں ہوگی۔ اب رہا یہ کہ اس کا روزہ قبول ہوگا یا نہیں یہ چونکہ معاملہ بندے اورا للہ کے درمیان ہے۔میں اس کے بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتا۔ مگر کوئی افطار اللہ کی خوشنوی کے سوا کسی اور غرض سے کرارہا ہے۔ وہ اس کے دربار میں قابل قبول نہیں ہے۔ جبکہ ہم ساری عبادت بجا ئے اللہ سبحانہ تعالیٰ کوخوش کرنے دوسروں کے دکھانے کے لیئے ہوتی ہے جب کہ ایک دوسری حدیث عبادت اور خیرات وغیرہ کے بارے میں ہے کہ“ وہ عبادت ہی نہیں ہے جو دکھاوے کے لیئے ہو“ اللہ تعالیٰ ہمیں سب کو توبہ کی توفیق عطا فرما ئے اور اپنی کمائی کو ہر طرح جائز بنا نے کی کوشش کریں تاکہ رمضان کے بعد پوری قوم ہی بدلی ہوئی نظر آئے(آمین) ہمیشہ کی طرح نہ ہو کہ سب کچھ چلتا رہے، ساری عبادت بھی دو نمبر کی ہو اوروہ کسی نمازی کی زندگی پر پہلے طرح کی طرح کوئی اثر مرتب نہ کرسکے؟ اور عید بعد حسب معمول تمام مساجد خالی نظر آئیں