رات سے موسلا دھار بارش ہو رہی تھی ۔ نگینہ اور جمال کی پھونس کی جھونپڑی میں چھت سے پانی ٹپکنا شروع ہو گیا تھا ۔ رات بھر وہ بچوں کے پلنگ کو ادھر سے ادھر سرکاتے رہے ۔ راجستھان کا یہ خشک علاقہ ” جیسلمیر”  جہاں بارش کے لئے مسجدوں میں نمازیں پڑھی جاتی تھیں۔۔۔۔۔۔ اور مندروں میں اندر دیوتا کو منانے کے لئے ہون ہوتے ۔ اس علاقے میں ایسی بارش!۔۔۔ ایسی بارش تو پپلے کبھی نہیں ہوئ ۔ موسم کا مزاج کیسے بدل گیا ۔ شاید ماحولیاتی آلودگی کا اثر تھا۔ اللہ اللہ کرکے صبح ہوئ تو حدِّ نگاہ تک پورا گاؤں تالاب بن گیا تھا ۔   ” یا اللہ یہ کیا ہو گیا”؟
جمال نے دور تک نظر ڈالی ۔ گائے ، بھینس ،بکری،اونٹ سب دو۔ دو فٹ پانی میں ڈوبے ہوئے تھے ۔ کئی جھونپڑے، اور مٹّی کے گھر ڈوب چکے تھے ۔ کھیتوں میں پانی بھر گیا تھا ۔ زیرے، اور ایسبگھول کی فصل خراب ہو گئ تھی ۔ در اصل جیسلمیر میں اوسط بارش بھی نہیں ہوتی تھی ،اس لئے یہاں پانی کے بہاؤ کی کوئی  تدبیر بھی نہیں تھی ۔ سرکاری عملہ بھی پریشان ۔ بڑے افسران کے گھروں میں بھی پانی بھر گیا تھا ۔ نگینہ پریشان تھی کہ بچّوں کو کیا کھلائے کیونکہ وہ تو روز مرّہ کمانے والے تھے ۔ پیسہ کی اتنی افراط نہیں تھی کہ مہینہ بھر کا سامان پس انداز کرتے۔ خالی ڈبّے منہ چڑا رہے تھے ۔ بچّہ بھوک سے بلبلا رہے تھے ۔ جمال کا ذریعہ معاش سیّاحوں کو اونٹ کی سواری کرانا تھا ۔ جب اس کا سجا ہوا اونٹ ٹھمک ٹھمک کر چلتا تو سیّاحوں کے چہرے خوشی سے کھل جاتے ۔ اور جمال کا سینہ پھول جاتا۔ ۔ سردیوں میں ہی یہاں سیّاح آتے اور سونے سے چمکتے ریت کے ٹیلوں پر غسلِ۔آفتابی کرتے ۔ یہاں کی حویلیاں دیکھتے، خاص کر پٹو وں کی حویلی ۔ پتھّر کی نقّآشی دیکھ کر مبہوت ہو جاتے ۔ جیسلمیر کے نوّے فیصد لوگوں کا ذریعہ معاش صرف سال کے تین مہینہ تھا ۔ موسمِ سرما ۔۔۔
گرمیوں میں بادِ سموم کے جھونکے ریت کے ٹیلوں کو ادھر سے ادھر کر دیتے ۔ گھروں سے نکلنا مشکل ہو جاتا ۔ ہر طرف گرد و غبار چھا جاتا۔ کچھ بڑی ہستیوں نے یہاں آسیاب بادی( windmill) لگائ تھیں ۔ جس سے بجلی پیدا ہوتی ۔ اور اس لئے وہ یہاں آتے تو جمال کی بھی آمدنی اچھی ہو جاتی ۔ جمال کا اونٹ ” پالن ہار ” ان خاص سواریوں کو اپنی پیٹھ پر بٹھا کر کچھ زیادہ ہی اٹھلا کر چلتا ۔اس کے گلے میں پڑی نقرئ گھنٹیاں ماحول میں ردھم پیدا کر تیں ۔ ابھی تو آف سیزن تھا ۔ اس لئے آمدنی بھی نہیں تھی۔ وہی پالن ہار سست سا کھڑا تھا ،بیٹھنے کی جگہ نہیں تھی۔ ہر جگہ پانی ہی پانی ۔ بچّوں کو چارپائ پر بٹھا رکھا تھا اور چارپائ کو اونچا کرنے کے لئے اس کے پائے کے نیچے دو۔ دو اینٹ رکھ دی تھیں ۔ ” با پو بھوک لگی ہے ” چاروں بچّوں نے ایک ساتھ کہا ۔ جمال نے بھوک سے نڈھال بچّوں کے چہرے دیکھے ۔ اس کا دل لرز گیا ۔ صبح سے شام ہو گئ تھی ،لیکن پانی اترنے کا نام نہیں لے رہا تھا ۔ کیونکہ یہ بارش غیر متوقّع تھی ۔ پانی کی نکاسی کا کوئ ذریعہ نہیں تھا ۔ ” زمیندار صاحب کی حویلی پر جاؤ۔ آپ ان کے ملازم ہو۔ شاید کچھ کھانے کا بندوبست ہو جائے ۔ “
“ہوں ” جمال انکی ہی حویلی میں قیام کرنے والے سیّاحوں کو ریت کے ٹیلوں کی سیاحت کراتا تھا۔ ریاستوں کے زوال کے بعد تمام رجواڑوں نے اپنے محل اور حویلیاں ہیری ٹیج ہوٹلوں میں تبدیل کر دی تھیں ۔ ذریعہ معاش کے لئے یہ ضروری تھا ۔ ورنہ فاقہ کشی کی نوبت آجاتی ۔ سیّاح ان رئیسی ٹھاٹ ۔ باٹ سے بہت متاثر ہوتے ۔ سیلیبرٹی یہاں شادیاں کرتے ۔ جمال پانی میں چھپاک چھپاک کرتا باہر نکل گیا۔ ۔ زمیندار صاحب کی حویلی اونچی برجی پر بنی تھی اس لئے وہ بلکل محفوظ تھی ۔ پیسہ کی یہ ہی تو مایہ ہے۔ زمیندار صاحب برآمدے میں اونچی کرسی پر براجمان ۔ ہالی ،موالیوں کے درمیان حقہّ گڑگڑا رہے تھے ۔ ۔ “گھڑی کھماّ سرکار” جمال نے کورنش کے انداز میں دوہرا ہوتے ہوئے کہا۔ ” ہوں ! زمیندار صاحب سر کی جنبش سے جواب دیا ۔ ” سرکار بچہ بھوکے ہیں ۔ جھونپڑی میں پانی بھر گیا ہے ۔ کچھ مدد ہو جاتی تو ” جمال نے ہاتھ جوڑ کر کہا۔ زمیندار صاحب نے بھی ۱۹۷۱میں” پریوی پرس privy-purse” کے خاتمے کے بعد برا وقت دیکھا تھا اس لئے دل میں رحم تھا ۔ ” رمیشیا جا زمیندارنی سے کچھ کھانے پینے کا سامان لاکر اسے دے” جمال انکی رحم دلی سے بہت متاثّر ہوا۔ خوشی خوشی بچّوں کے لئے کھانا لیکر جھونپڑی میں گیا ۔ ” نگینہ اور بچّّوں کی آنکھیں چمک گئیں ۔ نگینہ نے دوسرے دن کے لئے آدھا کھانا نکال کرچھت میں رسّی سے بندھے چھینکے میں رکھا ۔ اور آدھا کھانا سب نے مل کر کھایا۔
باہر سے اونٹ کی آواز آئی تو ۔ جمال کے کھانا کھاتے ہوئے ہاتھ رک گئے ۔ “یہ بھی تو بھوکا پیاسا ہے ۔” جمال سے نوالہ نگلنا دشوار ہو گیا ۔ یہ تو ان کا پالن ہار ہے ۔ اور وہی بھوک پیاس سے پریشان، پانی میں گھنٹوں سے کھڑا ہے ۔ جمال بے کل ہو گیا ۔ :کیا کرے ؟” یہ تو شدید گرمی میں بھی قدرتی طور پر جینے کی صلاحیت رکھتا ہے ۔ پانی کی کمی کو اپنے جسم کے نظام سے پورا کر لیتا ہے ۔ چھ سات دن بھوک پیاس سے بھی لڑ سکتا ہے ۔ لیکن اس پانی کی افراط سے کیسے مقابلہ کرے۔ ۔ جمال نے اپنے آگے کی روٹی اٹھائ اور پانی میں چھپ چھپ کرتا پالن ہار کے پاس گیا ۔اس کی گردن پر پیار سے ہاتھ پھیر کر روٹی اس کے منہ میں ڈالی ۔ پالن ہار پانی میں ٹانگیں مارنے لگا ۔ جمال سمجھ گیا ۔۔۔ یہ خشکی کا جانور پانی سے پریشان ہے ۔ جمال کی سمجھ نہیں آ رہا تھا اسے کس محفوظ مقام پر لیکر جائے ۔ ہر طرف جل تھل تھا۔ تین دن اور یوں ہی گزر گئے ۔ گاؤں والے پریشان تھے ۔ پانی کی نکاسی کا کوئ ذریعہ نہیں تھا ۔ تیز دھوپ سے شاید پانی بھاپ بن کر اڑے ۔ جمال بہت پریشان تھا ۔ بیوی بچّوں کے بھوک سے نڈھال چہرے دیکھے یا پالن ہار کی پریشانی دیکھے ۔بڑا پریشان ۔
ہر وقت تو زمیندار صاحب کے آگے ہاتھ پھیلا نہیں سکتا۔ اسے سیٹھ رام دیال کا خیال آیا ۔ کبھی کبھی وہ اس کی ہوٹل سے بھی سیّاحوں کو سیر کرانے لے جاتا تھا۔ بہت کائیاں آدمی تھا ۔ اس کو ہمیشہ پیسہ کاٹ کر دیتا ۔ مجبوری نے اسے اس کے در پر پہنچا دیا ۔ ” سیٹھ جی کچھ دیا کرو ۔ میرے بیوی بچہ بھوکے ہیں، کچھ دھن، دھان دے دو۔ سیزن میں آپکا ادھا ر چکا دونگا ۔ ” جمال نے گڑگڑاتے ہوئے کہا ۔ ” ٹھیک ہے بھایا ۔ تو ادھار لے لے۔ پرچکرورتی بیاض لگے گا۔ ” سیٹھ نے اپنی موٹی توند پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا ۔ جمال پڑھا لکھا تو تھا نہیں ۔ جو حساب کتاب سمجھتا۔ جلدی سے ہاں بھر دی ۔ پیسہ لیکر اس کریانے کی دوکان سے کھانے کا سامان لیا۔ نگینہ کے ہاتھ میں تھیلا دیتے ہوئے اسے طمانیت کا احساس ہوا ۔ لیکن یہ طمانیت زیادہ دن نہیں رہ سکی ۔ پانی خشک ہو گیا تھا لیکن زمین میں نمی تھی ۔ راجکمار بلکل سست ہو گیا تھا ۔ کھڑا رہتا ۔ جمال اس کے ذریعے ہی آف سیزن میں مال لاد کر ایک ڈھانی سے دوسری ڈھانی جاتا تھا۔ ریگستان کے اس جہاز کی طبیعت ناساز تھی ۔ رقم کا بیاض اور سیٹھ کاتقاضا بڑھتا جا رہا تھا۔ آمدنی سفر ۔ اس کے پاس پالن ہار کے علاج کے لئے رقم بھی نہیں تھی کہ وہ اس کو ڈاکٹر کو دکھا سکے ۔ ایک مرتبہ پھر اس کی مجبوری نے اسے سیٹھ سے قرض لینے کے لئے مجبور کر دیا ۔ ” تونے پہلے کا قرض تو چکایا نہیں ۔اور آگیا قرض لینے ۔ ” کیا کروں سیٹھ مجبور ہو گیا ہوں، پالن ہار کی بیماری اور سستی نے سب چوپٹ کر دیا ۔ ورنہ اب تک کچھ رقم تو چکا دیتا۔ ” ” کیا ہوا پالن ہار کو”
                                 ” جب سے بارش آئ ہے زمین نم ہو گئ ہے تو وہ کھڑا ہی رہتا ہے ۔ سست ہو گیا ہے۔ نہ کھاتا ہے نہ پیتا ہے ۔” جمال نے اداسی سے کہا ۔ “ارے تیری مٹّی کی کٹیا اور وہ ریگستان کا جانور ۔ کیسے رہ سکتا ہے وہ صحت مند۔ تو ایسا کر اسے مجھے بیچ دے ۔ میرا پکاّ مکان ہے ۔ میں اس کا علاج کرواؤنگا تو وہ ٹھیک ہو جائے گا ۔”۔ ۔ سیٹھ کی پالن ہار پر پہلے سے نظر تھی ۔ اب یہ سنہری موقع وہ ہاتھ سے جانے نہیں دینا چاہتا تھا ۔ ” سیٹھ جی وہ تو ہمارا پالن ہار ہے، اگر میں اس کو بیچ دوں تو ہم کیا کریں گے ۔ ” جمال نے لجاجت سے کہا ۔۔۔ ” دیکھ لے تیری مرضی ” سیٹھ نے بے رخی سے کہا ۔اور قرض دینے کے لئے انکار کر دیا ۔ جمال بہت گڑگڑایا لیکن سیٹھ کا دل نہیں پسیجا ۔ ۔ ۔ اداس صورت لئے جمال گھر میں داخل ہوا ۔ ایک نظر پالن ہار پر ڈالی ۔ ” نگینہ اور بچہ اسے خالی ہاتھ دیکھ کر پوچھ بیٹھے ۔ ” باپو کھانے کا سامان نہیں لائے ۔” نگینہ کی آنکھوں میں بھی یہ ہی سوال تھا۔ “انکار کر دیا سیٹھ نے اور قرض دینے سے ” ” کیوں انکار کر دیا ۔ ہمارا پالن ہار ٹھیک ہو جائے گا تو ہم اس کا قرض چکا دیں گے” ۔ ” کیسے ٹھیک ہوگا پالن ہار! کہاں سے لاؤں اس کے لئے علاج کے پیسے ۔ ” جمال نے بے بسی سے کہا ۔ سب اداس ہو گئے ۔ دو دن اسی فاقہ مستی میں گزر گئے ۔ آج کی رات جمال پر بہت بھاری تھی ۔ پوری رات کروٹ بدلتے گزری ۔ نگینہ شوہر کی کیفیت سے سمجھ گئ تھی کہ وہ پریشان ہے ۔ اس نے بارہا پوچھا، لیکن جمال خاموش رہا ۔ صبح اس نے دیکھا جمال پالن ہار کو رسّی پکڑ کر اسے باڑے سے نکال رہا تھا ۔ “کہاں لے جا رہے ہو اسے ” نگینہ بھاگی آئ۔ ” سیٹھ کو بیچنے “
                                                                                                                                                                                                                                                                     “کیا؟   ارے یہ تو ہمارا پالن ہار ہے ۔ یہ چلا گیا تو ہم کیا کریں گے ۔ ہم بھوکے مر جائیں گے ” نگینہ نے احتجاج کیا ۔ “اگر اس کو نہیں بیچا تو یہ اور ہم سب مر جائیں گے ۔ یہ بیمار ہے اس کی دوا داروکے لئے پیسہ کہاں سے لاؤں ۔ کم سے کم سیٹھ اس کا علاج تو کروائے گا ۔” جمال نے آبدیدہ ہوتے ہوئے کہا ۔ بچہ بھی شور پکار سے اٹھ کر باہر آگئے ۔ سارا ماجرا سمجھ کر وہ بھی رونے لگے ۔ وہ ان کا ساتھی اور کھلونا تھا ۔اس کی پیٹھ پر بیٹھ کر انھوں نے خوب موج مستی کی تھی ۔ لیکن جمال نے انکے آنسوؤں کو نظر انداز کیا۔۔۔۔ ۔ اور بھاری قدموں سے پالن ہار کو لیکر سیٹھ کے گھر کی طرف چل دیا۔ سیٹھ نے دور سے ہی اسے آتے ہوئے دیکھ لیا ۔ لو سیٹھ یہ میرا پالن ہار ” جمال کی آوازسرد تھی ۔ ” سیٹھ نے جلدی سے تجوری میں سے پانچ ہزار نکال کر دئے “
“اتنے سے پیسہ ؟ جمال نے حیرت سے کہا ۔ ” ہاں تو اور کیا !۔ بیمار جانور ہے ۔ دوسرے تونے جو قرض لیا تھا اس کا سود اور اصل ملا کر دس ہزار ہو گئے ۔ وہ کاٹ لئے میں نے ۔” جمال کی آنکھوں سے اشک رواں ہو گئے ۔ لیکن سخت دل سیٹھ پر کچھ اثر نہ ہوا ۔ غریبوں کی مجبوریاں خرید کر ہی تویہ دھنّآ سیٹھ بنے ہیں ۔ جمال سست قدموں سے گھر روانہ ہو گیا ۔ رات کانٹوں پر بسر ہوئ سب جاگ رہے تھے کہ شور شرابے کی آواز آئ ۔ جمال نے باہر نکل کر دیکھا ۔ پالن ہار دروازے پر کھڑا تھا ۔اور سیٹھ کے نوکر اسے پکڑنے آئے تھے ۔ سب پالن ہار سے لپٹ کر رو دئے ۔ پالن ہار کی آنکھوں سے بھی قطرے نکل کر زمین میں جزب ہو گئے۔ سیٹھ کے آدمی اسے گھسیٹ کر لے جا رہے تھے ۔ جمال اور اس کے گھر والے بے بسی سے دیکھ رہے تھے ۔