پاکستان کی پہلی قومی اسمبلی جو قیام پاکستان سے قبل بالواسطہ طورپرمنتخب ہوئی تھی میںمولویوں کی نمائندگی نہ ہونے کے برابر تھی حالانکہ پاکستان کےوقت نعرہ یہ دیا گیا تھا کہ پاکستان کا مطلب کیا لاالہ الااللہ لیکن اس کے باوجود مسلم عوام نے اپنی نمائندگی کے لئے مولویوں کو منتخب نہیں کیا تھا۔قومی اسمبلی میں صرف ایک ہی مولوی۔۔۔علامہ شبیر احمد عثمانی تھے جن کا تعلق پاکستان میں شام ہونے والے صوبوں میں کسی سے نہیں تھا۔قیام پاکستان کے بعد پنجاب میں جو پہلے صوبائی الیکشن 1951 میں ہوئےان میں صرف جماعت اسلامی ایک نشست جیتنے میں کامیاب ہوئی تھی جب کہ باقی ساری نشستیں مسلم لیگ،جناح مسلم لیگ اور آزاد امیدواروں نے جیتی تھیں۔شمال مغربی سرحدی صوبے( خیبر پختون خواہ) اور سندھ میں 1951 اور1953میں صوبائی اسمبلیوں کے جو الیکشن ہوئے ان میں بھی مذہبی سیاسی جماعتوں کی کارکردگی انتہائی مایوس کن رہی تھی جنرل ایوب نے مارشل لا کے نفاذ کے بعد جو آئین تشکیل دیا اس میں قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے لئے بالواسطہ طریقہ انتخاب اپنایا گیاتھا۔ اس طریقہ انتخاب کے تحت ہونے والے الیکشن میں بنیادی جمہوریتوں کے نمائندوں نے ووٹ ڈالنے تھے۔جنرل ایوب کی ساختہ کنونشن مسلم لیگ اکثریتی نشستیں جیت گی لیکن حکومت کی تمام ترمخالفت کے باوجود جمیعت علمائے اسلام سے تعلق رکھنے والے مفتی محمود بھی رکن مغربی پاکستان اسمبلی منتخب ہوگئے تھے۔مفتی محمود جنرل ایوب خان کے عایلی قوانین اور ان کے نام نہاد جدیدیت کے ایجنڈے کی مخالفت میں پیش پیش رہے تھے 1970 میں منعقد ہونے والے الیکشن وہ پہلے الیکشن تھے جو ون مین ون ووٹ کی بنیاد پر منعقد ہوئے تھے۔اس الیکشن میں عوامی لیگ نے مشرقی پاکستان کی قومی اسمبلی کی 162 میں سے 160نشستیں جیت لیں۔ پیپلزپارٹی نے مشرقی پاکستان سے کوئی امیدوار ہی نامزد نہیں کیا تھا۔ کنونشن لیگ عوامی لیگ کے بعد سب سے زیادہ نشتوں پر امیدوار نامزد کرنے والی پارٹی تھی۔اس نے93اور جماعت اسلامی نے71نشستوں پر امیدوار نامزد کئے تھے لیکن ان کا کوئی ایک امیدوار بھی جیت نہ سکا تھا۔ مشرقی پاکستان کی صوبائی اسمبلی کی تین صدنشستوں میں سے عوامی لیگ نے288 نشستیں جیت لی تھیں جب کہ جماعت اسلامی اور جمعیت علمائے اسلام کے ایک دھڑے کو ایک ایک نشست ملی تھی۔ مغربی پاکستان کے چار صوبوں میں قومی اسلمی کی 138 نشستیں تھیں جن میں سے دو صوبوں سے پی پی پی نے بھاری اکثریت(80) نشستیں اپنے نام کرلی تھیں ایک نشست پی پی پی نے صوبہ سرحد سے جیتی تھی جب کہ بلوچستان سے اس نے کوئی امیدوار ہی نامزد نہیں کیا تھا۔پنجاب اور سندھ کی صوبائی اسمبلیوں کے الیکشن میں کوئی سکہ بند مولوی الیکشن نہیں جیت سکا۔پنجاب اسمبلی میں لیڈر آف دی اپوزیشن بھی بہاولپور صوبہ محاذ سے تعلق رکھنے والے علامہ رحمت اللہ ارشد اور ڈپٹی لیڈر آف دی اپوزیشن تابش الوری کا تعلق بھی صوبہ محاذ ہی سے تھا قیام پاکستان کے بعد 1970 میں ہونے والا پہلا الیکشن تھا جس میں مغربی پاکستان سے مولویوں کی بڑی تعداد قومی اسمبلی تک پہنچنے میں کامیاب ہوئی تھی۔جمعیت علمائے اسلام 7جماعت اسلامی 4 اور جمعیت علمائے پاکستان قومی اسمبلی کی7نشستیں جیتنے میں کامیاب ہوئی تھیں۔1970 کے الیکشن میں مذہبی سیاسی جماعتوں کو مجموعی طور پر 23فی صد کے قریب ووٹ ملے تھے اور کونسل مسلم لیگ اور قیوم لیگ کے ووٹ بنک کو بھی شامل کرلیا جائے تو دائیں بازو کا ووٹ بنک تیس فی صد کے قریب تھا۔قومی اسمبلی میں اتنی بڑی تعدادمیں مذہبی سیاسی جماعتوں کی نمائندگی کے پس منظر میں پاکستان میں اسلامایزیشن کے پراسس کو سمجھنے کی ضرورت ہے یہ اسی الیکشن کا نتیجہ تھا کہ ایک صوبہ کا وزیراعلی ایک مولوی۔۔۔مفتی محمود بن گیا تھا جسں نے برسر اقتدار آتے ہی شراب پر پابندی عائد کردی، اردو کو دفتری زبان بنانے کا اعلان کیا، زرعی قرضوں پر سود کو حرام قرار دیتے ہوئے اس کی وصولی روک دی،یونیورسٹی میں داخلے کے لئے ناظرہ قرآن بمعہ ترجمہ لازمی اور سرکاری ملازموں کے لئےشلوار قمیض پہننا لازمی، جوئے اور ریس پر پابندی اور ماہ رمضان کے احترام جیسے اقدامات کا اعلان کیا تھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ مفتی محمود کے ان اقدامات کو نیپ جیسی سیاسی جماعت جو ان کی مخلوط حکومت میں شامل تھی کی حمایت حاصل تھی جو خود کو سیکولر سیاسی جماعت کہتی اور سمجھتی تھی