پشاور؛  پشاور ہائیکورٹ نے مخصوص نشستوں سے متعلق سنی اتحاد کونسل کی درخواستوں پر محفوظ فیصلہ سنا دیا، عدالت نے سنی اتحاد کونسل کی درخواستیں خارج کردیں اور الیکشن کمیشن کا فیصلہ برقرار رکھا،پشاور ہائیکورٹ نے کہاکہ متفقہ طور پر درخواستیں مسترد کی جاتی ہیں۔

نجی ٹی وی کے مطابق پشاور ہائیکورٹ میں سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں کیلئے درخواست پر سماعت  ہوئی، جسٹس اشتیاق ابراہیم کی سربراہی میں 5 رکنی لارجر بنچ کیس نے سماعت کی، بنچ میں جسٹس اعجاز انور،جسٹس عتیق شاہ، جسٹس شکیل احمد اور جسٹس سید ارشد علی شامل ہیں۔

بیرسٹر علی ظفر نے دلائل دیتے ہوئے کہاکہ الیکشن میں حصہ نہ لینا اتنی بڑی بات نہیں،بعض اوقات سیاسی جماعتیں انتخابات سے بائیکاٹ کر سکتی ہیں ،سنی اتحاد کونسل ایک سیاسی جماعت ہے،جسٹس شکیل احمد نے استفسار کیا  کہ یہ بتائیں کہ اگر انتخابات میں حصہ نہیں لیتے پھر کیا ہوگا،بیرسٹرعلی  ظفر نے نے جواب دیا کہ میں پہلے اس پر بات کر رہا ہوں کہ میں سیاسی جماعت ہوں،میں سیاسی جماعت ہوں تو میرے بنیادی اائینی حقوق کیا ہیں؟آرٹیکل 17کے تحت میرے کئی بنیادی حقوق بنتے ہیں۔

جسٹس عتیق شاہ  نے استفسار کیا کہ آزادامیدوار اکٹھا ہو جائیں تو کیا انہیں مخصوص سیٹیں ملیں گی؟ یا پارٹی جوائن کرنا ہوگی،بیرسٹر علی ظفر نے کہاکہ آزاد امیدوار کسی پارٹی کو جوائن کریں گے تو نشستیں ملیں گی،جسٹس سید ارشد علی نے کہاکہ آپ کا کیس سنی اتحاد کونسل کا ہے، پی ٹی آئی نے ان کو جوائن کیا، دونوں نے الیکشن میں حصہ نہیں لیا،فرق اتنا تھا پی ٹی آئی کے پاس نشان نہیں ، سنی اتحاد کونسل کے پاس نشان ہے،آپ جب سنی اتحاد کونسل جوائن کررہے تھے  تو آپ کو معلوم تھا اس نے لسٹ نہیں دی۔

عدالت نے کہاکہ مخصوص نشستیں تب ملتی ہیں جب سیاسی جماعتوں نے سیٹ جیتی ہو،سنی اتحاد کونسل نے کوئی سیٹ جیتی ہی نہیں، بیرسٹر علی ظفر نے کہاکہ جب آزادامیدواروں نے جوائن کیا تو یہ ان کے ہو گئے،عدالت نے کہاکہ قانون میں لفظ سیکیور آیا ہے، آپ نے سیٹیں سیکیور نہیں کیں۔

جسٹس ارشد علی نے کہاکہ آپ نے سیٹ نہیں جیتی تو آزاد امیدوار بھی آپ کو جوائن نہیں کر سکتے ،سنی اتحاد کونسل میں شامل ہونے سے آپ نے پی ٹی آئی کیس کمزور نہیں کیا؟پی ٹی آئی تو پھر بھی سیاسی جماعت تھی،بیرسٹر علی ظفر نے کہاکہ پی ٹی آئی کے پاس انتخابی نشان نہیں تھا اور پارٹی سربراہ بھی نہیں تھا،عدالت نے کہاکہ آپ کے پاس پھر بھی وقت تھا آپ انٹراپارٹی الیکشن کر لیتے،بیرسٹر علی طفر نے کہاکہ ہم نے الیکشن کرایا لیکن ابھی تک اس کو تسلیم نہیں کیا گیا،جسٹس ارشد علی نے کہاکہ آپ نے ایسی پارٹی کو جوائن کیا جس نے کوئی سیٹ ہی نہیں جیتی۔

بیرسٹر علی ظفر نے کہاکہ یہ جو حالات بن گئے پہلی مرتبہ ایسا ہوا،آئین ایک زندہ کتاب ہے، حالات کے مطابق اس کو دیکھنا پڑتا ہے،کے پی میں دیکھیں یہاں اکثریت میں ہیں،یہاں اکثریت کو کیسے مخصوص نشستوں سے محروم رکھا جائے،یہاں ان کو بھی مخصوص نشست ملی جس نے صرف ایک سیٹ جیتی،آئین کو وقت کی ضرورت کے مطابق سمجھنے کی ضرورت ہے،جس نے جتنی سیٹیں جیتیں ، ان کو اسی تناسب سے ملتی ہیں،ایسا نہیں ہو سکتا کہ ان کی سیٹیں بڑھا دی جائیں۔

جسٹس اشتیاق ابراہیم نے کہاکہ اگر یہ سیٹیں نہیں دی گئیں تو پارلیمنٹ پوری نہیں ہو گی،علی ظفر نے کہاکہ اس لئے ہم کہتے ہیں کہ آپ آئین کی ایسی تشریح کریں کہ یہ خلا پیدا نہ ہو،یہ کہیں نہیں لکھا کہ آپ لسٹ دوبارہ نہیں سے سکتے، یہ دوسرا شیڈول بھی جاری کر سکتے ہیں،جنرل الیکشن کا بھی انہوں نے دوسرا شیڈول جاری کیا۔

دوران سماعت جسٹس اعجاز انور نے کہاکہ قانون یہ ہے انتخابات میں حصہ لینے والوں کو نشستیں ملیں گی،بیرسٹر علی ظفر نے کہاکہ یہاں لوگوں نے پارٹی کو ووٹ دیا ، انفرادی طور پر ووٹ نہیں دیا گیا،جسٹس اشتیاق ابراہیم نے کہاکہ آپ بتائیں کہ یہ نشستیں کسی اور کو کیوں نہیں دی جائیں،جسٹس اعجاز انور نے کہاکہ  پارٹی نے بروقت نشستوں کی لسٹ نہیں دی تو پھر کیا ہوگا۔

جسٹس اعجاز انور نے کہاکہ اگر سیٹیں زیادہ ہوئیں تو اضافی نشستوں کیلیے لسٹ دی جا سکتی ہے،بیرسٹرعلی ظفر نے کہاکہ بلوچستان عوامی پارٹی نے پہلے ایسا کیا، ان کو نشستیں دی گئی ہیں،جسٹس اعجاز نے کہاکہ باپ کا حق زیادہ ہوتا ہے اس لیے ان کو ملیں، جس پر کمرہ عدالت میں قہقے لگ گئے۔

بیرسٹر علی ظفر نے کہاکہ ہمیں بچہ سمجھ کر ہمیں اپنی سیٹیں دی جائیں،جس  نے جتنی سیٹیں جیتیں، ان کو اسی تناسب سے ملتی ہیں،ایسا نہیں ہو سکتا کہ ان کی سیٹیں بڑھا دی جائیں۔

عدالت نے فریقین کے وکلا کے دلائل سننے کے بعد سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں سے متعلق درخواستوں پر فیصلہ محفوظ کر لیا تھا۔

تاہم وقفے کے بعد پشاور ہائیکورٹ نے مخصوص نشستوں سے متعلق سنی اتحاد کونسل کی درخواستوں پر محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے کہاکہ سنی اتحاد کونسل کی درخواستیں خارج کی جاتی ہیں،عدالت نے الیکشن کمیشن کا فیصلہ برقرار رکھا،پشاور ہائیکورٹ نے کہاکہ متفقہ طور پر درخواستیں مسترد کی جاتی ہیں۔