پاکستان میں اپنی منفرد اداکاری کی بدولت دنیا بھر میں کروڑوں پرستاروں کے دلوں پر راج کرنے والے کامیڈین  افتخار ٹھاکر بے شمار انٹرویو دے چکے ہیں تاہم زیر نظر انٹرویو میں اس منفرد شخصیت کی زندگی کے مختلف پہلوؤں پر مختلف انداز سے  بات کی گئی ہے . افتخار ٹھاکرجو بے یک وقت کئی زبانون میں بولنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور اب ایک کامیاب ڈائریکٹر کے طور پر اپنی قابلیت منوا چکے ہیں دوران اداکاری ان کی شاندار ڈائیلاگ ڈلیوری کے ساتھ ان کی منفرد باڈی لینگویج انہیں دوسرے فنکاروں سے ممتاز بنائے ہوئے ہے ان کا اپنا ایک الگ اسٹائل ہے ان پر کسی اداکار کی نقالی کی چھاپ نہیں ہے افتخار ٹھاکر کا شمار ہمارے ملک کے ان فنکاروں میں ہوتا ہے جنہوں نے محنت، محنت اور صرف محنت کے فارمولے کو زندگی کا نصب العین بنایا کیونکہ ان کی عملی زندگی کا آغاز اداکاری کی بجائے موٹر مکینک کی ورکشاپ سے ہوا .ٹھا . اس پڑھے لکھے شخص نے محنت مزدوری کے ساتھ ساتھ اپنے اندر کے فنکار کو بھی زندہ رکھا اور اسٹیج پر کام کا موقع ملتے ہی اپنے آپ کو منوانے میں کامیاب ہوگیا اس کے بعد اسٹیج کے ساتھ ساتھ ٹیلی فلمز،ٹی وی ڈرامے ،اور فلمیں سبھی میں کامیاب ہوتا چلا گیا ،افتخار ٹھاکرآج ایک کامیاب اداکار،ڈائریکٹر اور بطور میزبان اپنی ایک پہچان رکھتے ہیں۔

   ٹھاکر بطور انسان انتہائی ملن سار،اور سادہ طبیعت کے مالک ہیں وہ اس بات پر ایمان رکھتے ہیں کہ اللہ پاک نے لوگوں کو ہنسانے کی جو ڈیوٹی ان کے سپرد کی ہے وہ معمولی کام نہیں ، یہی وجہ ہے کہ انکا کام کسی بھی شکل میں  تہذیب و تمدن اور معاشرتی اقدار کے دائروں کو توڑتا نہیں ہے گزشتہ دنوں افتخار ٹھاکر سے ہونے والی دلچسپ ملاقات کا احوال قارئین کی نظرہے۔
 اپنے بارے میں پوچھے گئےسوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ میرا تعلق میاں چنوں سے ہے ابتدائی تعلیم اپنے آبائی گاوٗں سے حاصل کی،2000 میں اسٹیج شروع کیا جس سے پہلے کا کچھ ٹائم ایک موٹر ورکشاپ میں کام سیکھنے میں گزرااب تک سینکڑوں کامیاب پرفارمنس کر چکا ہوں تاہم پوٹھوہاری اور کشمیری کمیونٹی کی جانب سے بے پناہ پزیرائی اور شہرت ملنے کی وجہ ٹیلی فلم .مکی کھڑوں انگلینڈ ہے،زبانوں کے بارے میں بات کرتے ہوے کہا کہ میں درجن سے زائد زبانیں بول سکتاہوں جس میں اردو،انگلش، پنجابی،پوٹھوہاری،سرائیکی ،کشمیری،سندھی،پشتو،بلوچی وغیرہ شامل ہیں .میں نے اداکاری کی باقاعدہ تعلیم نیویارک فلم اکیڈمی سے حاصل کی ہے جبکہ جنرل ایجوکیشن میں ڈگری امریکہ سے حاصل کی ہے میری خواہش ہے اس بات کا تاثر ختم کیاجائے کہ پاکستان کے اسٹیج پر کام کرنے والے فنکار ان پڑھ ہوتے ہیں اپنے عوام میں انتہائی مقبول کسی ایک ڈائیلاگ کا زکر کرتے ہوئے کہا کہ .جھوٹ بول دا. ایک ایسا فقرہ تھا جو میری پہچان بن گیا اور آج تک لوگوں کو یاد ہے اگر کوئی مجھ سے بطور استاد اور اپنے پسندیدہ کامیڈین کاپوچھتا ہے تو میں دو نام لیتا ہوں ایک چارلی چپلن اور دوسرا محترم منور ظریف مرحوم ان دونوں عظیم فنکاروں نے انتہائی صاف اور سادہ طریقہ سے اپنی فیلڈ میں جو لائین لگائی آج تک کوئی اسے عبور نہیں کر سکا ۔اپنے کامیاب اسٹیج ڈراموں کا زکر کرتے ہوئے کہاکہ ویسے تو بہت سے اسٹیج ڈرامے ریکارڈ بنا چکے ہیں تاہم میں جنہیں خود سے پسند کرتا ہوں ان میں ،محبت سی این جی،چالاک طوطے شامل ہے جبکہ ٹی وی ڈراموں میں ،ڈبل سواری ،ڈان نمبر۱،لاہوری گیٹ شامل ہیں جو ُپی ٹی وی سے ٹیلی کاسٹ ہوئے،اور میری ڈائریکشن میں جوڈرامے تخلیق ہوئے ان میں روٹی کھول دیو پنجابی زبان کا اسٹیج پلے تھا جس سے سابقہ ریکارڈ توڑتے ہوئے سال کے بہترین ڈرامے کا اعزاز حاصل کیا،اب تک امریکہ ،نیوزی لینڈ ،آسٹریلیا سمیت درجنوں یورپی اور گلف میں  دوبئی ،شارجہ سمیت کئی ممالک میں اسٹیج پرفارم کر چکا ہوں، اپنے یورپ ٹورز کے بارے میں بات کرتے ہوئے انہوں نے ایک دلچسپ اور ایمان افروز واقعہ کا بھی زکر کیا کہ نیوزی لینڈ کے قدیم تاریخی چرچ میں آذان دے کر مجھے جو سکون ملا وہ انمول ہے. ہوا یوں کہ نیوزی لینڈ کے 235سالہ پرانے چرچ جانے کا موقع ملا توں وہاں قدم رکھتے ہی دل میں شدید خواہش پیدا ہوئی کہ اگر میں یہاں آذان دو ں تو کیا ہی بات ہے یقین مانیں اللہ تعالی نے میری دلی مراد پوری کردی جب مجھے پتا چلا کہ چرچ انتظامیہ نے خلاف توقع میری درخواست مان لی ہے اور میں نے چرچ کے اند ر 200 لوگوں کی موجودگی میں آذان دینے کا شرف حاصل کیاا،اپنے فیملی کے بارے میں بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ ہمارا گھرانہ مذہبی ہے ہم لوگ بچوں کی دنیاوی تعلیم کے ساتھ ساتھ دینی تعلیم پر بھی مکمل توجہ دے رہے ہیں معتدد بار اللہ پاک کے کرم سے تمام فیملی کے ساتھ حج بیت اللہ کی سعادت نصیب ہوئی ہے۔
  پاکستان میں کامیڈی فنکاروں کی معاشی زبوں حالی کی وجوہات کے متعلق پوچھے گئے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے افتخارٹھاکر نے کہاکہ پرائیویٹ پروڈکشن کمپنیوں کی تعداد بڑھنے سے آج کے فنکاروں اور خصوصا کامیڈی ایکٹرز کے معاوضے بہت بہتر ہوچکے ہیں اپنے آخری ایام میں زیادہ تر ایسے فنکار ہی زبوں حالی کا شکار ہوتے ہیں جو اپنی آمدنی کو صحیح وقت پر درست جگہ استعمال نہیں کرتے غیر ضروری نمود نمائش اور فضول خرچی بہت سے مسائل کو جنم دیتی ہے تاہم وزارت ثقافت کو بھی بیمار اور بزرگ فنکاروں کی فلاح و بہبود کے لیے نئے اور جامع پرو جیکٹس شروع کرنا ضروری ہیں انہوں نے اسٹیج اور ٹی وی کے کام میں فرق کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ چند سال قبل تک اسٹیج پر کام کرنا ٹی وی کے مقابلے میں قدرے مشکل تھا کیونکہ ٹی وی ریکارڈنگ میں غلطی کو درست کرنے کا موقع مل جاتا ہے جبکہ اسٹیج پر یہ سہولت نہیں ہوتی تاہم اب تو ٹی وی شوز کی اکثریت بھی لائیو ٹیلی کاسٹ ہو رہی ہیں جو کسی طرح بھی اسٹیج پرفارمنس سے کم نہیں ہیں۔
انہوں نے انٹرویو کا اختتامی جملہ ادا کرتے ہوے کہا کہ میری تمام تر کامیابیوں کے پیچھے میرے والدین کی دعائیں ہیں۔