قومی ترانے پہ بھی ھم خاصے تذبذب کے شکار رھے ۔ قاٸداعظم محمدعلی جناح جو پاکستان کے ھر شہری کو خواہ کسی مذھب فرقہ سے تعلق رکھتا ھو اس ایک پاکستانی کی حثیت سے عزت و احترام دیتے تھے ۔ اور ملک کو ایک سیکولر سٹیٹ بنانا چاھتے تھے ۔ لیکن وزیراعظم لیاقت علی فوجی جنتا ملاٶں کی صحبت کے شکار ھو گیے اور ھندو اور دوسرے مذاھب سے امتیازی سلوک کے پروگرام پہ اسی طرح چل پڑے جیسے مغل بادشاہ محی الدین محمد اورنگذیب عالمگیر پورے ھندوستان کو مسلمان بنانے کا خواب دیکھتا رھا تھا ۔ قاٸداعظم نے جگن ناتھ کو پاکستان کا قومی ترانہ لکھنے کو کہا جو انہوں نے لکھا اور گیارہ اگست 1947 کو کراچی میں اسمبلی کے اجلاس میں پڑھا گیا ۔ ترانہ پاکستان اے سرزمینِ پاک ! ذرے تیرے ہیں آج ستاروں سے تابناک روشن ہے کہکشاں سے کہیں آج تیری خاک تندیِ حاسداں پہ ہے غالب تیرا سواک دامن وہ سل گیا ہے جو تھا مدتوں سے چاک اے سرزمینِ پاک! -اب اپنے عزم کو ہے نیا راستہ پسند اپنا وطن ہے آج زمانے میں سربلند پہنچا سکے گا اس کو نہ کوئی بھی اب گزند اپنا عَلم ہے چاند ستاروں سے بھی بلند اب ہم کو دیکھتے ہیں عطارد ہو یا سماک اے سرزمینِ پاک! – اترا ہے امتحاں میں وطن آج کامیاب اب حریت کی زلف نہیں محو پیچ و تاب دولت ہے اپنے ملک کی بے حد و بے حساب ہوں گے ہم اپنے ملک کی دولت سے فیضیاب مغرب سے ہم کو خوف نہ مشرق سے ہم کو باک اے سرزمینِ پاک! – اپنے وطن کا آج بدلنے لگا نظام اپنے وطن میں آج نہیں ہے کوئی غلام اپنا وطن ہے راہ ترقی پہ تیزگام آزاد، بامراد، جواں بخت شادکام اب عطر بیز ہیں جو ہوائیں تھیں زہرناک اے سرزمینِ پاک! – ذرے تیرے ہیں آج ستاروں سے تابناک روشن ہے کہکشاں سے کہیں آج تیری خاک اے سرزمینِ پاک! لیکن ھندو مسلم نفرت کی سرکاری پالیسی کو مدنظر رکھ کر پاکستان کا قومی ترانہ ازسر نو لکھنے کے لیے کٸی شعرا ٕ کی خدمات حاصل کی گٸیں آخر کار حفیظ جالندھری کے تحریر کردہ ترانے کو منتخب کیا گیا جو “پاک سرزمین” بھی کہلاتا ہے، سرکاری طور پر 1954ء میں پاکستان کا قومی ترانہ قرار پایا۔ اس کی دھن احمد جی چھاگلہ نے ترتیب دی جبکہ ترانے کے بول حفیظ جالندھری نے 1952 میں تخلیق کیے ۔ اس ترانے کو اس وقت کے گیارہ معروف سنگیت کاروں نے گایا جن میں احمد رشدی، کوکب جہاں، رشیدہ بیگم، نجم آرا، نسیمہ شاہین، زوار حسین، اختر عبّاس، غلام دستگیر، انور ظہیر اور اختر وارث علی۔

ترانہ پاکستان اور قومی ترانہ پاکستان تحریر : محمد ضرار یوسف قومی ترانے پہ بھی ھم خاصے تذبذب کے شکار رھے ۔ قاٸداعظم محمدعلی جناح جو پاکستان کے ھر شہری کو خواہ کسی مذھب فرقہ سے تعلق رکھتا ھو اس ایک پاکستانی کی حثیت سے عزت و احترام دیتے تھے ۔ اور ملک کو ایک سیکولر سٹیٹ بنانا چاھتے تھے ۔ لیکن وزیراعظم لیاقت علی فوجی جنتا ملاٶں کی صحبت کے شکار ھو گیے اور ھندو اور دوسرے مذاھب سے امتیازی سلوک کے پروگرام پہ اسی طرح چل پڑے جیسے مغل بادشاہ محی الدین محمد اورنگذیب عالمگیر پورے ھندوستان کو مسلمان بنانے کا خواب دیکھتا رھا تھا ۔ قاٸداعظم نے جگن ناتھ کو پاکستان کا قومی ترانہ لکھنے کو کہا جو انہوں نے لکھا اور گیارہ اگست 1947 کو کراچی میں اسمبلی کے اجلاس میں پڑھا گیا ۔ ترانہ پاکستان اے سرزمینِ پاک ! ذرے تیرے ہیں آج ستاروں سے تابناک روشن ہے کہکشاں سے کہیں آج تیری خاک تندیِ حاسداں پہ ہے غالب تیرا سواک دامن وہ سل گیا ہے جو تھا مدتوں سے چاک اے سرزمینِ پاک! -اب اپنے عزم کو ہے نیا راستہ پسند اپنا وطن ہے آج زمانے میں سربلند پہنچا سکے گا اس کو نہ کوئی بھی اب گزند اپنا عَلم ہے چاند ستاروں سے بھی بلند اب ہم کو دیکھتے ہیں عطارد ہو یا سماک اے سرزمینِ پاک! – اترا ہے امتحاں میں وطن آج کامیاب اب حریت کی زلف نہیں محو پیچ و تاب دولت ہے اپنے ملک کی بے حد و بے حساب ہوں گے ہم اپنے ملک کی دولت سے فیضیاب مغرب سے ہم کو خوف نہ مشرق سے ہم کو باک اے سرزمینِ پاک! – اپنے وطن کا آج بدلنے لگا نظام اپنے وطن میں آج نہیں ہے کوئی غلام اپنا وطن ہے راہ ترقی پہ تیزگام آزاد، بامراد، جواں بخت شادکام اب عطر بیز ہیں جو ہوائیں تھیں زہرناک اے سرزمینِ پاک! – ذرے تیرے ہیں آج ستاروں سے تابناک روشن ہے کہکشاں سے کہیں آج تیری خاک اے سرزمینِ پاک! لیکن ھندو مسلم نفرت کی سرکاری پالیسی کو مدنظر رکھ کر پاکستان کا قومی ترانہ ازسر نو لکھنے کے لیے کٸی شعرا ٕ کی خدمات حاصل کی گٸیں آخر کار حفیظ جالندھری کے تحریر کردہ ترانے کو منتخب کیا گیا جو “پاک سرزمین” بھی کہلاتا ہے، سرکاری طور پر 1954ء میں پاکستان کا قومی ترانہ قرار پایا۔ اس کی دھن احمد جی چھاگلہ نے ترتیب دی جبکہ ترانے کے بول حفیظ جالندھری نے 1952 میں تخلیق کیے ۔ اس ترانے کو اس وقت کے گیارہ معروف سنگیت کاروں نے گایا جن میں احمد رشدی، کوکب جہاں، رشیدہ بیگم، نجم آرا، نسیمہ شاہین، زوار حسین، اختر عبّاس، غلام دستگیر، انور ظہیر اور اختر وارث علی شامل ہیں ۔