مذہبی سیاست “کا مودی کلچر”

رواں سال کی ابتدا میں  شمالی انڈیا کے شہر ایودھیا میں وزیر اعظم نریندر مودی پیر کو رام مندر کی مذہبی اصطلاح میں ’پران پرتیشٹھا‘ (رام مورتی کو مخصوص مقام پر رکھنا)کی تقریب کا افتتاح کردیا۔جسے انہوں نے ملک میں ایک ’نئے عہد کے آغاز‘ سے تعبیر کیا۔انھوں نے کہا کہ ’یہ پل صدیوں کے طویل انتظار کے بعد آیا ہے۔ اس پل کو کھونا نہیں ہے ۔ ہمیں اس وقت آئندہ ایک ہزار سال کے بھارت کی بنیاد رکھنی ہے۔‘ انھوں کہا کہ ’ملک صدیوں کی غلامی کی ذہنیت کی زنجیر توڑ کر باہر آ گیا ہے۔اب دیو سے دیش اور رام سے قومی شعور کی تخلیق سے ہی قوم کی تعمیر ہو گی۔‘ تعمیر کیے جانے والے رام مندر جس کے بارے میں بہت سے لوگوں کاکہنا ہے کہ یہ ہندو دیوتا بھگوان رام کی جائے پیدائش ہے۔ غیر قانونی طور پر مسمار کی گئی بابری مسجد کی جگہ پر اس مندر کی تعمیرسے بھارت کی مسلم اقلیت کی دلآزای ہوئی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ مندر کے اس منصوبے کو 18 کروڑ ڈالر (14 کروڑ پاؤنڈ) کے عطیات سے مالی اعانت فراہم کی گئی ہے، جبکہ بی جے پی کی ریاستی حکومت، مجموعی طور پر ایودھیا کی تعمیر نو پر اربوں مزید خرچ کر رہی ہے، مندر کی افتتاحی تقریب کے سلسلے میں ہونے والی پوجا میں وزیر اعظم نریندر مودی کے ساتھ آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت اور اترپردیش کے وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ کے علاوہ ایک درجن سے زیادہ لوگوں نے شرکت کی۔ رام مندر کی افتتاحی تقریب میں شرکت کیلئے بی جے پی کے سینئر لیڈر لال کشن اڈوانی اور مرلی منوہر جوشی کو دعوت نامہ نہ بھیج کر نظر انداز کیا گیا اور وہ نہیں آئےلیکن دوسری طرف کترینہ کیف روہت شیٹھی، رنبیر کپور عالیہ بھٹ اور بمبئی فلم انڈسٹری اورشوبز کے دوسرے بہت لوگوں کو اسپیشل دعوت نامے بھیجے گئے۔ یاد رہے کہ یہی لال کرشن اڈوانی اس وقت پارٹی کے صدر تھے جن کی قیادت میں ہندو قوم پرست بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے 1990 میں مندر کی تعمیر کے لیے ملک گیر مہم شروع کی تھی ۔ان کےاس عمل نے بلاشبہ پارٹی کو قومی سطح پر مقبولیت تک پہنچا دیا۔لیکن اس کے نتیجے میں ہندو قوم پرستی اور ہندوتوا میں شدت پسندی فرقہ واریت میں شدت آئی۔اس کے نتیجے میں 6 دسمبر 1992 کو ایودھیا میں ایک ہجوم مسجد پر چڑھ گیا اور اس کے گنبد کو کلہاڑیوں اور ہتھوڑوں سے توڑ کر مسجد کا نشان تک ختم کر دیا۔اس واقعے نے ہندوستان کے کئی حصوں میں فرقہ وارانہ فسادات کو جنم دیا، جس میں تقریباً 2000 افراد ہلاک ہوئے، جن میں زیادہ تر مسلمان تھے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ رام مندر اور اس کا افتتاح ہمیشہ سے اپنے پس منظر کے حوالے سے متنازعہ رہا ہے اپوزیشن نے رام مندر کے اس ا افتتاحی تقریب میں شامل ہونے کے دعوت ناموں کو یہ کہہ کر مسترد کر دیا کہ یہ بی جے پی اور ار ایس ایس کا انتخاب جیتنے کے لئے ایک سیاسی حربہ ہے۔یعنی سوا ارب سے بھی زیادہ بڑ ی آبادی والے ملک ہندوستان میں کیا مسجد مندر ہی ایک بڑا مسئلہ رہ گیا ہے اور کیا مندر کی سیاست عام ادمی کے مسائل حل کردے گی۔ ایک سینئیر صحافی کےمطابق’اگر رام مندر بنانا ہی تمام مسائل کا حل بتایا جا رہا ہے تو پورے انڈیا کو ایک بڑے مندر میں تبدیل کیوں نہیں کیا جاتا؟ اس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ رام مندر کی ’پران پرتیشٹھا‘ کی افتتاحی تقریب کے ایشو پر ایک طبقہ میں جشن منایا گیا تو دوسری جانب” مذہبی سیاستـ “کے مودی کلچر پرسخت تنقید کی گئی اور اسکے ساتھ بھارت کے سیکولر چہرے کے مستقبل پر بھی سوال اٹھائے گئے ۔ کون نہیں جانتاکہ بھارت کے سیاسی کلچر کے ماخذات سیکولرزم پر ہیں جن کی پرورش،بقااورتحفظ کی ساری ضمانتیں اس کاآئین فراہم کرتا ہے اور ہر سیاسی جماعت اس کی پاسداری کرتی ہے ۔ اس حوالے سے کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (مارکسسٹ) کے جنرل سکریٹری سیتارام یچوری نے22 جنوری کو ایودھیا میں رام مندر کی ’پران پرتیشٹھا‘ کی اس افتتاحی تقریب میں شرکت کا دعوت نامہ بھیجا گیا توانہوں نے یہ کہتے ہوئے ٹھکرا دیا کہ “مذہب ایک ذاتی انتخاب ہے اور اسے سیاسی فائدے کے لیے کسی آلے میں تبدیل نہیں کیا جانا چاہیے”۔ہندوستان میں گورننس کا ایک بنیادی اصول جیسا کہ سپریم کورٹ نے دہرایا ہے کہ آئین کے تحت ہندوستان میں ریاست کا کوئی مذہبی تعلق نہیں ہونا چاہیے۔ تقریب کے انعقاد میں حکمران حکومت کی طرف سے اس کی خلاف ورزی کی جا رہی ہے۔ کامریڈ یچوری نے کہا تھاکہ یہ تقریب “وزیر اعظم، اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ اور آئینی عہدوں پر فائز دیگر لوگوں کے ساتھ ریاست کی طرف سے اسپانسر شدہ تقریب کے سوا کچھ نہیں تھا۔”سونیا گاندھی اور کانگریس پارٹی کے بہت سےدوسرے رہنماؤں اور لوک سبھا میں پارٹی کے لیڈر ادھیر رنجن چودھری کو بھی مندر ٹرسٹ کی جانب سے اس تقریب میں شرکت کے دعوت نامے بھیجے گئے تھے ۔ کچھ لوگوں کی اس تقریب میں شامل نہ ہونے کی اپنی اپنی وجوہات تھیں جیسے کہ شیو سینا کے سربراہ اودھے ٹھاکر نے بھی تقریب کے دعوت نامے کو مسترد کر دیا ان کے ایک ترجمان نے کہا کہ بی جے پی نام تو رام کا لیتی ہے لیکن حکومت کرنے میں وہ راون کی پیرو کار ہے ۔ لیکن زیادہ تر نے ان دعوت ناموں کو یہ کہہ کر مسترد کر دیا کہ رام کے نام پر انتخابی سیاست کا کھیل کھیلا جا رہا ہے اور اس سارے عمل کے پیچھے بی جے پی کے سیاسی مقاصد ہیں۔ بعض یہ کہہ کر شامل نہیں ہوئے کہ مندر تو ابھی پورا بنا ہی نہیں لیکن اس کی افتتاحی تقریب کی جا رہی ہے، اسی طرح اس ادھورے مندر کی نشاندہی کرنے والے ایشو کو ہندووں کے بہت سے مذہبی حلقوں نے بھی اٹھایاہے، جن کا کہنا ہے کہ رام مندر کی تعمیر میں اس کے مذہبی تقاضے پورے نہیں کیے گئے اسی لیے انہوں نے بھی اس تقریب میں شرکت نہیں کی ۔اسی طرح چاروں شنکر اچاریہ نے بھی رام مندر کی افتتاحی تقریب میں شرکت نہیں کی۔ یہ شنکراچاریہ ہندو مذہب میں چاروں پیٹھ کے سرپرست ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس تقریب کی معنویت ، نوعیت اور وقت سبھی ہندو مذہب کےاصول و روایات کے منافی ہیں۔ جب مندرکی تعمیر ہی مکمل نہیں ہوئی ہے تو پھر رام للاّّ کی مورتی کی وہاں تنصیب کیسے کی جاسکتی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ آر ایس ایس، بی جے پی اور وی ایچ پی نے ایک خالص مذہبی معاملہ کو سیاسی رنگ دے دیا ہے تاکہ آئندہ انتخابات میں بی جے پی اس کا فائدہ اٹھا سکے۔ انہوں نے الزام لگایا کہ ہندوئوں کے مذہبی جذبات کا سیاسی فائدہ حاصل کرنے کے لئے سرکار دوہرا رویہ اپنا رہی ہے ۔ بہر حال اس ایونٹ کے حوالے سےسیاسی سماجی حلقوں کے علاوہ رائے عامہ کے مباحث میں آجکل بھی صرف رام مندر ہی چھایا ہوا ہے۔ میڈیا ، سیاست اور عوام کے بڑے حصے کو ایک مذہبی لہر نے جکڑ رکھا ہے ۔اس صورتحال میں ایک ترقی پسند ، جمہوری اورسیکولر بھارت کی خواہش رکھنے والوں کے نزدیک ایودھیا میں رام مندر کی تعمیر ملک کو ہندو شناخت میں تبدیل کرنے کے سفر کے آغاز کی علامت ہے۔ جوممکنہ طور پر ملک کو تھیوکریٹک ریاست بننے کی طرف لے جا سکتی ہے۔ اس خوف کی بنیاد اس خیال میں ہے کہ بی جے پی کی اکثریت اور مقبولیت والا سیاسی منظر نامہ ایسی پالیسیوں اور حکمرانی کا باعث بن سکتا ہے جو رائے عامہ میں سیکولر اصولوں کی بجائے ہندو عقائد اور اقدار کی ترجیح بن جائے۔اور خدشہ ہے کہ رام مندرکی حالیہ تقریب سے نہ صرف بھارت میں قومی یکجہتی کی جگہ مذہبی بنیادوں پر معاشرے تقسیم کرنے والے مسائل میں اضافہ ہوگا بلکہ اس کی سیکولر اخلاقیات کے تابوت میں ایک اور کیل ثابت ہوگا ۔مبصرین کا کہنا ہے کہ سیکولر بھارت کے مقابلے میں وزیراعظم مودی کی ” مذہبی سیاستـ ” اور فروغ پذیر فرقہ واریت بھارت کےسیکولرجمہوری کلچر کے مستقبل کیلئے بہت زیادہ ہلاکت خیز ہے۔