ماه رمضان المبارک کے آخری عشرے کا اعتکاف رسول الله ﷺ کی سنت ہے اور اس سنت کی پیروی امت لگاتار کرتی چلی آرہی ہے۔ یہ پیروی اس طرح کی جاتی ہے کہ کچھ لوگ اس سنت کی ادائیگی کے لئے مسجد میں کوئی جگہ مخصوص کر لیتے ہیں اور پھر پورا عشرہ مسجد ہی میں گزارتے ہیں۔ اس میں اس بات کی بھی کوشش ہوتی ہے کہ جسمانی اعتکاف کے ساتھ ذہنی اعتکاف بھی رہے، اور ذہنی یکسوئی کے ساتھ پورا عشرہ مسجد میں عبادت، نماز، تلاوت، ذکر و دعا، مراقبہ و احتساب نفس اور دینی مذاکرہ کے ساتھ گزارا جائے۔ پچھلی قوموں اور دیگر مذاہب میں بھی وقت اور شکل کے اختلاف کے ساتھ اعتکاف کی صورت ملتی ہے، یہودیت و نصرانیت میں بھی اعتکاف رہا ہے۔ اس کی شکل کچھ اس طرح ہوتی تھی کہ اعتکاف کے لئے جگہ خاص کر لی جاتی اور معتکف اسی میں اپنے کو محصور کر لیتا اور بعض لوگ نذر کیلئے ایسا کرتے۔ حضرت مریم علیہا السلام نے بھی کم سنی سے محراب کو پکڑ لیا تھا اور عبادت وغیرہ کے کاموں میں یکسوئی پیدا کر لی تھی۔ اس عمل و جذبۂ دینی و طہارت قلبی کے نتیجہ میں انہوں نے وہ مرتبہ حاصل کر لیا تھا جس میں وہ خواتین کے درمیان بڑے اونچے مقام پر فائز ہوئیں، بڑی عبادت گزار اور عفت و طہارت والی خاتون قرار پائیں کہ ان کی تعریف اللہ رب العالمین نے کی اور قرآن مجید میں تو ان کے نام سے ایک پوری سورہ ہے نیز متعد د سورتوں اور مختلف آیات میں الگ الگ انداز میں ان کا تذکرہ ہے۔
 سید المرسلین، خاتم النبیین حضرت محمد رسول اللہ ﷺ مسجد نبویؐ میں رمضان المبارک کے آخری عشرہ کا اعتکاف فرماتے اور کسی سال اس میں ناغہ نہیں ہوتا۔ آپؐ کے اس عمل کے اہتمام نے اس کو اہم سنت بنا دیا جس کی اتباع مسلمانوں کی ایک تعداد ہر زمانے میں اور ہر جگہ کرتی رہی ہے۔ اس کی بھی ادائیگی کیلئے بعض صاحبان استطاعت حضرات مسجد نبویؐ جا کر اور بڑی تعداد مسجد حرام مکہ مکرمہ جا کر اعتکاف کرتی ہے، عبادت کے ایک جشن کا سماں بندھ جاتا ہے کہ لوگ عبادت، نماز، تلاوت و غیره میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔
  عبادت، تلاوت، ذکر و تسبیح، دعا و مناجات، مراقبات وغیرہ دوسری عبادات اور خالص دینی کام بغیر اعتکاف کے صحیح طور پر انجام پانا مشکل ہوتے ہیں۔ اعتکاف ایسی مشق ہے جس میں پوری یکسوئی حاصل ہوتی ہے اور یہ سارے کام یکسوئی چاہتے ہیں، اس لئے اعتکاف سے عبادت کے ان کاموں کی انجام دہی کا ایک مزاج بنتا ہے جس کا اثر سال بھر انسان کی طبیعت پر پڑتا ہے۔ اس طرح یہ اللہ سے تقرب حاصل کرنے کا ایک اچھا راستہ ہے اس کے لئے روزہ بڑا معاون ہوتا ہے۔ کیونکہ روزے میں کھانا پینا اور دوسری خواہشات نفس سے بچنے کی تاکید ہے اور ان کاموں کو ترک کئے بغیر روزہ صحیح نہیں ہوتا، اسی طرح رات کے اعمال میں تراویح اور شب بیداری کی دوسری عبادت کے اعمال اعتکاف کو اور زیادہ مؤثر بنا دیتے اور ایک قسم کا سرور پیدا کردیتے ہیں۔
  اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول اور عبادت کے کاموں کو انجام دینے کا یہ ایک بہترین موسم اور اس کی جگہ بہترین تربیتی کیمپ ہے۔ رمضان کی یہ فضا اور ماحول اعتکاف کیلئے نہایت سازگار اور معاون ہوتا ہے جس میں کسی بھی صاحب ایمان کیلئے اس مبارک مشغولیت کیلئے وقت فارغ کرنا زیادہ آسان ہوتا ہے۔
 رمضان کے آخری عشرہ کا اعتکاف واجب بھی ہوتا ہے، سنت بھی۔ شہر کی مجموعی آبادی کا لحاظ کر کے کسی ایک کی ادائیگی سے دوسروں پر سے اس کا وجوب ختم ہو جاتا ہے اور دوسروں پر سنت کی حیثیت سے اس کی اہمیت قائم رہتی ہے۔ دنیا بھر میں جہاں جہاں مسلمان آباد ہیں وہاں وہاں اعتکاف کا زمانہ بڑی رونق و بہار کا زمانہ ہوتا ہے، برصغیر ہندوپاک میں بھی اس میں بڑی مسابقت (ایک دوسرے سے بڑھنے کی کوشش) نظر آتی ہے، مسجدیں بھر جاتی ہیں، بہت سے لوگ جو پورے وقت کا اعتکاف نہیں کر پاتے وہ جزوی اعتکاف سے اپنے رب کا تقرب حاصل کرنا چاہتے ہیں اور زیادہ سے زیادہ وقت مسجدوں میں گزارنے کی کوشش کرتے ہیں۔ افطار و تراویح میں مسجدوں میں جو رونق ہوتی ہے وہ آخری عشرہ میں اعتکاف کرنے والوں کی وجہ سے بہت بڑھ جاتی ہے۔ شب قدر کی تلاش اور اس کی قدر کرنے کیلئے رات کے جزوی اعتکاف اور مسجدوں میں قیام اور نفلوں میں قرآن مجید کے سننے کا جو منظر ہوتا ہے وہ بڑا ایمان افروز ہوتا ہے۔
  اعتکاف کی سنت عورتوں کیلئے بھی ہے، انہیں اس کیلئے مسجد نہیں جانا پڑتا بلکہ گھر میں کسی گوشے کو خاص کر لینا ہی ان کیلئے کافی ہو جاتا ہے، اور گھر کے کام کاج کے ساتھ اس مدت ِاعتکاف میں ہمہ وقتی عبادت کا ثواب صرف تھوڑی سی نیت کر لینے سے حاصل کرنے کے لائق بن جاتی ہیں لیکن یہ اسی صورت میں ہوتا ہے جب وہ دن رات کے پورے اوقات میں اس کا لحاظ کرتی رہیں۔