بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (IMF) ایک عالمی ادارہ ہے جو 1944 میں بین الاقوامی مالیاتی تعاون اور شرح مبادلہ میں استحکام کو فروغ دینے کے بنیادی مقصد کے ساتھ قائم کیا گیا تھا۔ یہ ادارہ اس وقت 190 ممالک کی مالیاتی اور معاشی پالیسیوں کا جائزہ  لیکر    ان ملکوں کی معیشت کے استحکام کے لیے پالیسی حکمت عملی پر مشاورت فراہم کرتا ہے تاکہ وہ کسی مالیاتی بحران کا شکار ہوئے بغیر اپنے شہریوں کے معیار زندگی کو بہتر بناسکیں۔لیکن اس کے بارے میں الزامات لگائے جاتے ہیں کہ آئی ایم ایف پر دنیا کے امیر ترین ممالک کا غلبہ ہے اور وہ ترقی پذیر ممالک کے مقابلے میں آئی ایم ایف کی پالیسیاں امیر ملکوں کےمفادات کو ترجیح دیتی ہیں۔ جو اسے دنیا بھر میں اپنے معاشی اور سیاسی مفادات کو آگے بڑھانے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ آئی ایم ایف کو امریکہ اور مغربی یورپ کے امیر ترین ممالک کنٹرول کرتے ہیں اوراس کی پالیسیوں اور فیصلوں کو تشکیل دینے کے لیے اپنا اثر و رسوخ استعمال کر سکتے ہیں۔ اس کی ساکھ کے حوالے سے دعوی کیا جاتا ہے کہ اس کی پالیسیاں ترقی پذیر ممالک اور ان کے شہریوں کی ضروریات کے لیے بنائی جاتی ہیں۔ممکن ہے بظاہر ایسا ہی ہو لیکن شاید ایسا نہیں ہے اسکی بجائے اس کی پالیسیاں امیر ترین ممالک اور ملٹی نیشنل کارپوریشنز کے مفادات کو فروغ دینے کے لیے بنائی جاتی ہیں۔دوسرے اس کی ترجیحات میں ایسے خطے یا ایسے ممالک کے جغرافیائی حالات ہیں جہاں امریکہ اور اس کے اتحادیوں کےاسٹرٹجیک مفادات کو چیلنجز درپیش ہوں ۔
حال ہی میں پچھلے ایک سال سے معاشی تباہی کے بدترین بحران سے دوچار سری لنکا کو آئی ایم ایف نے 2 ارب 90 کروڑ ڈالر قرض کی منظوری کےبعد بیل آؤٹ پیکج کی پہلی قسط موصول ہوگئی۔ قرض کی منظوری کے ساتھ آئی ایم ایف نے سری لنکن حکومت پر ٹیکس اصلاحات، غریبوں کے لیے سماجی تحفظ جاری رکھنے اور ملک میں معاشی بحران کا سبب بننے والی بدعنوانیوں پر قابوپانے کے لیے زور دیا ہے۔ واضح رہے کہ سری لنکا 2022 میں آئی ایم ایف کا قرضہ واپس نہ کرنے کی وجہ سے ڈیفالٹ کرگیا تھا ۔ حکومت کے پاس درامدات کی ادائیگیوں کیلئے ڈالر نہیں تھے اور درآمدات کا سلسلہ رک گیا ۔ جس کے باعث ملک میں ایندھن، توانائی، بجلی سمیت دوائیوں اور غذائی اجناس کی شدید قلت پیدا ہو گئی تھی ۔ تاہم آئی ایم ایف نے سری لنکا کو لگ بھگ تین ارب ڈالر کےجس بیل آئوٹ پیک کی منظوری دی ہے اس میں خاص بات یہ ہے کہ آئی ایم ایف والوں کے سامنے قرضے کے حصول کیلئے گڑگڑاتے ہوئے سری لنکا کو ایک سال ہوگیا ہے تاکہ وہ ملک کو اقتصادی بحران سے نکال سکے۔ تب جا کر کہیں آئی ایم ایف والوں کی جانب سے سری لنکا کو قرضے کی منظوری کا عمل مکمل ہوا ہے۔
سری لنکا کی صورتحال کے پس منظر میں سنگین مالیاتی بحران کے حل میں مدد کیلئے پاکستان کی حکومت بھی آئی ایم ایف کے ساتھ 2019 میں طے شدہ 6.5 ارب ڈالرکے معاہدے کے تحت قرض کی  قسط کی بحالی کیلئے مذاکرات میں مصروف ہے تاکہ ملک کو معاشی دلدل سے نکالا جاسکے۔  پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان جاری مذاکرات کا اب تک نتیجہ نکل آنا چاہئے تھا مگر چونکہ شرائط سخت ہیں اس لئے اب تک کی بات چیت بے نتیجہ رہی ہے۔ اب صورتحال یہ ہے کہ جوہری ہتھیاروں والے ملک  کو ا س وقت بیرونی کرنسی کی کمی ایک بڑا مسئلہ ہے۔ زرمبادلہ کے ذخائر صرف 3.25 ارب ڈالر رہ گئے ہیں  اور پاکستان کے پاس  درآمدات کی ادائیگیوں کیلئےصرف تین  ہفتوں کے ڈالر ہی موجود ہیں ۔ اسطرح دیکھا جائے تو موجودہ معاشی بحران کے حوالے سے پاکستان بھی سری لنکا کی طرح دیوالیہ ہونے کے قریب  ہے اور اس کے پاس آئی ایم ایف کے بیل آؤٹ پیکیج  کے علاوہ کوئی اور چارۂ کار نہیں ہے ۔گذشتہ ماہ آئی ایم ایف کے مذاکرات کار10 روزہ دورے پر پاکستان آئے تھے لیکن کوئی معاہدہ طے کیے بغیر واپس امریکا چلے گئے تھےآئی ایم ایف سخت مزاج سود خور ساہوکار کی طرح پیش آرہا ہے چنانچہ ایسی شرطیں منوانا چاہتا ہے جنہیں عوام دشمن ہی کہا جاسکتا ہے۔گذشتہ ہفتے وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا تھا کہ آئی ایم ایف پاکستان کو مشکل وقت دے رہا ہے۔  پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ ’ہم آئی ایم ایف کے پاس جاتے ہیں۔ وہ ہم سے سخت اصلاحات نافذ کرواتے ہیں، پھریہ سارا پروگرام نئی شرائط کے ساتھ ایک بار پھر ہمارے سامنے رکھ دیا جاتا ہے۔اس پس منظر میں جب ہم پاکستان کو آئی ایم ایف والوں سے قرضے کی قسط کی شرائط پوری کرتے کرتے نڈھال ہوتے دیکھتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ جیسے آئی ایم ایف والوں نے پاکستان کو پاگل بنا کر رکھا ہوا ہے اور ٹال مٹول کا ایک ایسا سلسلہ شروع ہے جو ختم ہونے میں نہیں آرہا اور ابھی تک آئی ایم ایف والوں نے پاکستان کو قرضے کی قسط روکی ہوئی ہے۔
  آئی ایم ایف کی جانب سے پاکستان کو قرض کی قسط دینے میں لیت ولعل کی ایک ہی وجہ تکرار کے ساتھ دہرائی جاتی ہے کہ وہ ایسی ضمانتیں حاصل کرنا چاہتے ہیں کہ جو رقم وہ پاکستان کو دیں گے وہ صحیح جگہ پر  استعمال ہواور وقت پر اس کی ادائیگی کی گارنٹی بھی حاصل ہو۔ پاکستان کے بارے میں بظاہر یہ ان کا ون پو ائنٹ ایجنڈا ہے ۔  ماہرین کے مطابق جس وقت تک آئی ایم ایف پاکستان سے سمجھوتہ نہیں کرتا اور اسے کسی ڈسپلن میں نہیں لے کر آتا اس امداد کا حصول مشکل ہو جائے گا۔ دوسری صورت میں بعض حلقوں کے مطابق اب یا تو کوئی جنگی صورتحال ہو یا افغانستان جیساکوئی جہادی منصوبہ ناگزیر ہوجائے تو اسکی قیمت  پر پاکستان کو رعایت مل سکتی ہے ،ایک وقت میں پاکستان یورپی اور امریکی ایما پر دہشت گردی کے خلاف جنگ کا حصہ تھا اس لیے آئی ایم ایف کے بورڈ اور اسٹاف نے متعدد اصلاحات نہ ہونے کے باوجود نہ صرف پورا قرض فراہم کیا بلکہ اچھی معیشت کی تعریف بھی کی۔  ان کے خیال میں اس وقت یوکرین ایسا ملک ہے جسے دنیا جنگ کی وجہ سے رعائتیں دے سکتی ہے ۔
پاکستان نے ماضی میں آئی ایم ایف کے متعدد پروگرام لیے ہیں جن میں سے صرف دو پروگرام ہی مکمل ہوسکے ہیں۔ ایک پروگرام پرویز مشرف کے دور میں دیا گیا جو کہ آئی ایم ایف کی روایات سے ہٹ کر تخفیف غربت کا پروگرام تھا۔ دوسرا پروگرام مسلم لیگ (ن) کی حکومت کے دور میں مکمل ہوا۔ اس پروگرام میں آئی ایم ایف نے 16 اہداف پورے نہ کرنے کے باوجود پاکستان کو رعایت دی۔ کیونکہ اس وقت پاکستان یورپی اور امریکی ایما پر دہشت گردی کے خلاف جنگ کا حصہ تھا اس لیے آئی ایم ایف کے بورڈ اور اسٹاف نے متعدد اصلاحات نہ ہونے کے باوجود نہ صرف پورا قرض فراہم کیاتھا بلکہ اچھی معیشت کی تعریف بھی کی تھی۔
یاد رہے کہ آئی ایم ایف نے چند روز قبل یوکرین کے لیے 15.6  ارب ڈالر کے امدادی پیکیج کی منظوری دے دی ہے تاکہ روسی حملےسے متاثرہ ملک کی معاشی بحالی میں مدد کی جا سکے۔جبکہ یوکرین نے فو ڈاور ڈویلپمنٹ کی صورتحال کو بہتر بنانے کیلئے آئی ایم ایف سےچار ارب ڈالر کا  قرض مانگا تھا لیکن آئی ایم ایف نےکوئی انتظار کیے بغیر حیرت انگیز طور پر یوکرین کو 15.6  ارب ڈالر کا قرضہ جاری کر دیا۔جس کے بارے میں امریکہ کی وزیر خزانہ جینٹ ییلن نے کہا ہے کہ یوکرین کی اصلاحات کے لئے جاری کوششوں میں آئی ایم ایف پروگرام بھی کلیدی اہمیت رکھتا ہے۔  اور امریکہ اپنےاتحادیوں کی طرف سے یوکرین اور آئی ایم ایف میں سمجھوتے کی حمایت کی گئی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ آئی ایم ایف نے ایک خطیر رقم یعنی پندرہ ارب ڈالر سے زیادہ قرض  ایک ایسے ملک کودیا ہے جہاں جنگ چل رہی ہے جہاں سے اس قرض کی ادائیگی ہوسکےگی یا نہیں یہ تو بعد کی باتیں ہیں بلکہ اس کی بھی کوئی گارنٹی نہیں ہے کہ یہ ملک بھی باقی رہتا ہے یا نہیں لیکن اس کے باوجود یوکرین کو پندرہ ارب ڈالر کا قرضہ مل گیا۔ دوسری جانب پاکستان جیسے ملک  کے ساتھ آئی ایم ایف طے شدہ 6.5 ارب ڈالرکے معاہدے کے تحت قرض کی اگلی قسط کی ادائیگی کیلئے کئی ماہ سے  یہ کہہ کر زچ کررہاہے کہ آپ کے اقدامات ناکافی ہے ۔
 لیکن اصل بات آئی ایم ایف جیسے  ادارے  کی اپنے مفادات اور موقع پرستی کی ہے۔ جو بنیادی طور پر دولت مند اور طاقتور ترین سرمایہ دار ممالک کے مفادات کو پورا کرتا ہے۔  ان کے نزدیک ہمارے جیسے ملکوں یا دنیا کے سامنے اپنے معاملات کو صاف اور شفاف کر کے دکھانا نہیں ہے اور نہ ہی ان کا کوئی اصولی معیار ہے کہ وہ بحران زدہ معیشتوں کو استحکام دینے کیلئے ان کی مدد کرتے ہیں بلکہ ا ن کا صرف اور صرف اپنا سنگل پوائنٹ ایجنڈا دنیا بھر میں ا پنے مالیاتی مفادات کو حاصل کرنا  اور ہرطرح سے  ان کا دفاع کرنا ہے، یہی ان نام نہاد عالمی مالیاتی اداروں  کے بارے میں اصل سچائی ہے جن کا  دعوی ہے کہ وہ دنیا میں بھلے کے لیے کام کرتے ہیں۔ صحیح ، غلط اور سچائی کیا ہے ان ساری چیزوں سے ان کا کوئی لینا دینا نہیں۔