پاکستان میں سیاسی افراتفری کے ماحول میں  میی کے وسط میں  یہ خوش کن خبر سامنے آئی کہ پاکستان اور ایران نے سرد خانے میں پڑے ہوئے اقتصادی معاہدوں پر ازسر نو پیش رفت کا آغاز کر دیا ہے۔سرد خانوں میں پڑے ہوئے پاک، ایران اقتصادی معاہدوں کی فہرست کافی طویل ہے، اس طویل فہرست میں سے جن دو معاہدوں پر پیش رفت ہوئی ان میں سے ایک ایران کے سرحدی شہر پولان سے پاکستانی بلوچستان کے علاقے گبڈ تک بجلی کی  ٹرانسمیشن لائن کی تنصیب کا ہے۔ پولان، گبڈ ٹرانسمیشن لائن کے ذریعے پاکستان، ایران سے 100 میگا واٹ بجلی درآمد کرے گا جس سے گوادر میں موجود بجلی کا بحران حل کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ جس دوسرے معاہدے پر پیش رفت ہوئی، اس کے تحت پاک ایران سرحد پر مختلف مقامات پر سات تجارتی منڈیاں قائم کی جائیں گی اس سلسلے میں ایرانی صدر ابراہیم رئیسی اور پاکستانی وزیر اعظم شہباز شریف نے پشین(ایران)  اور  مند (پاکستان) سرحدی علاقے میں پہلی منڈی کا افتتاح کیا۔اس موقع پر دونوں ملکوں کی حکمران قیادت نے زیر التوا اقتصادی معاہدوں پر دوبارہ کام کا آغاز کرنے کے ساتھ پاک، ایران فری ٹریڈ ایگریمنٹ کو جلد از جلد حتمی شکل دینے کے عزم کا اظہار بھی کیا۔
 یاد رہے کہ  قیام پاکستان کے بعد ایران نے سب سے پہلے پاکستان کو تسلیم کیا تھا۔ قیام کے فوراً بعد ایران نے پاکستان کے لیے جس رغبت کا مظاہرہ کیا اس کے تسلسل میں ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ دونوں ملک دنیا کے سامنے باہمی تعلقات کا بے مثال نمونہ ثابت ہوتے مگر بوجوہ ایسا نہ ہوسکا۔ پاکستان اور ایران کے تعلقات کبھی کشیدہ تو نہیں ہوئے مگر  ان میں مقامی اور بین الاقوامی حالات کی وجہ سے کبھی گرمجوشی اور کبھی سرد مہری کے ادوار ضرور ظاہر ہوتے رہے۔ پاکستان قائم ہوتے ہیں اس کا شمار امریکی کیمپ میں کیا جانے لگا تھا اور ایران بھی  1954 کے بعدامریکی اور برطانوی کیمپ کے زیر اثر آگیا۔ اس قدر مشترک کی وجہ سے دونوں ملکوں کے درمیان مختلف شعبوں میں ترجیحی بنیادوں پر تعاون کا آغاز ہوا۔ اس دوران اگر کبھی پاکستان کے مرحوم سوویت یونین یا چین کے ساتھ اقتصادی تعاون کے لیے زمین ہموار ہونے لگتی تو امریکہ کے زیر اثر ہونے کی وجہ سے ایرانی قیادت کے ماتھے پر شکنیں ابھر آتی تھیں۔ یہ سلسلہ ایران میں امام خمینی کا انقلاب برپا ہونے تک جاری رہا۔ امام خمینی کے انقلاب کی وجہ سے جب ایران، امریکہ کا بد ترین دشمن بن کر اس سے دور ہوا تو افغانستان میں روسی فوجوں کی آمد کے بعد پاکستان مکمل طور پر امریکی آشیر باد میں آگیا۔ یوں ایران اور پاکستان کے مابین اقتصادی تعاون کی راہیں تنگ ہوتی چلی گئیں۔ پاک، ایران اقتصادی تعاون کی راہیں تنگ ہونے کی وجہ صرف ایران کی امریکہ سے دوری اور پاک، امریکہ قربت نہیں بلکہ ایران، سعودی عرب تعلقات میں کشیدگی بھی تھی۔ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ پاک ایران تعلقات میں سرد مہری کی وجہ  امریکہ ایران دشمنی سے زیادہ سعودی، ایران کشیدگی بنی۔ پاکستان اور ایران کے درمیان کوئی وجہ نزاع نہ ہونے کے باوجود بیرونی اثرات دونوں ملکوں کے درمیان بہترین اقتصادی تعلقات قائم ہونے میں رکاوٹ بنتے رہے۔ اس دوران پاکستان میں مختصر عرصے کے لیے قائم ہونے والی کسی حکومت نے اگر آزاد پالیسی کے تحت  ایران کے ساتھ اقتصادی تعاون بڑھانے کی کوششیں کیں بھی تو اس کے بعد آنے والے حکمرانوں نے سعودی عرب سے اپنی قربتوں کے باعث ایسی کوششوں کو نتیجہ خیزثابت نہ ہونے دیا۔جس عرصہ کے دوران پاک، ایران اقتصادی تعلقات سردمہری کا شکار رہے اس عرصہ میں بھارت، ایران اقتصادی تعاون فروغ پذیر رہا۔ عجیب بات ہے کہ جن ملکوں کے زیر اثر ہونے کی وجہ سے پاکستان، ایران کے ساتھ اقتصادی تعاون بڑھانے سے گریز کرتا رہا بھارت کے ایران سے اقتصادی تعاون کے باوجود، ان ملکوں کے ساتھ بھارت کے اقتصادی روابط کسی طرح بھی متاثر نہ ہوئے۔پاکستان کی معاشی ترقی کے لیے ایران کے ساتھ اقتصادی تعاون کے جو دومنصوبے سب سے زیادہ معاون ثابت ہوسکتے تھے ان میں سے ایک منصوبہ پاک ایران گیس پائپ لائن کی تنصیب  اور دوسرا 100  میگا واٹ بجلی کی ٹرانسمیشن لائن کا  تھا۔ گیس پائپ لائن کے منصوبے پر کیوں عمل درآمد نہ ہو سکا اس کا ذکر کسی آئندہ کالم میں کیا جائے گا، فی الحال یہاں صرف یہ بتایا جارہا ہے کہ18 مئی کو بجلی  ٹرانسمیشن لائن کی تنصیب کے جس منصوبے پر کام کا آغازاب ہوا اس کا معاہدہ کب ہوا تھا۔
سی پیک کے جس منصوبے کے ساتھ پاکستان نے اپنے معاشی مسائل کے حل کی امیدیں وابستہ کر رکھی ہیں اس منصوبے  میں گوادر کی بندرگاہ کو مرکزی مقام سمجھا جاتا ہے۔ گوادر کا جو علاقہ سی پیک کا مرکزی مقام ہے وہاں ایک عرصہ سے ایران میں پیدا ہونے والی بجلی کی درآمد کے باوجود طلب کے مطابق بجلی کی فراہمی ممکن نہیں ہو رہی تھی۔ آصف علی زرداری نے صدر کا عہدہ سنبھالنے کے بعد جب گوادر کی بندرگاہ کو کارآمد بنانے کی کوششیں شروع کیں تو ان کے سامنے وہاں بجلی کی طلب سے کم فراہمی کا مسئلہ رکھا گیا۔ ان دنوں پورا پاکستان بری طرح سے بجلی کی کمی کے بحران کا شکار تھا۔ گوادر کی حد تک    بجلی کے بحران پر قابو پانے کے لیے دہشت گردی کی جنگ میں امریکہ کا اتحادی ہونے کے باوجود زرداری نے 2009 میں ایران کے ساتھ 100 میگا واٹ بجلی کی درآمد کا معاہدہ کیا۔  اس کے بعد مختلف حکومتوں کے دور میں اس معاہدے کی تجدید تو ہوتی رہی مگر ایران پر امریکی پابندیوں کو جواز بنا کر اس پر عمل درآمد نہ کیا گیا۔ موجودہ اتحادی حکومت کے قیام کے بعد جب بلاول بھٹو زرداری نے  جون 2022  میں بحیثیت وزیر خارجہ ایران کا دورہ کیا تو دیگر امور کے ساتھ ساتھ 100 میگا واٹ بجلی کی درآمد کے معاہدے پر بھی بات کی۔ واضح رہے کہ بلاول نے جب ایران کا دورہ کیا اس وقت پاکستان میں انتہائی زور و شور سے یہ پراپیگنڈہ کیا جارہا تھا کہ یہاں امریکی سازش کے تحت عمران خان کی حکومت گرا کر امریکی مقاصد پورے کرنے لیے اتحادی حکومت قائم کی گئی ہے۔ اس طرح کا پراپیگنڈہ کرنے والوں کے یوٹرن سے قبل بلاول ایران کا دورہ کرنے سے پہلے امریکہ کا دورہ بھی کر چکے تھے۔ امریکہ کے ایران سے ناخوشگوار تعلقات کے باوجود بلاول نے وہاں 2009 میں ہونے والے بجلی کی ترسیل کے معاہدے پر پیش رفت کی بات کی۔ بلاول کی بات چیت کو آگے بڑھانے کے لیے مارچ 2023 میں توانائی کے وفاقی وزیر خرم دستگیر نے ایران کا دورہ کیا۔ اس دورے میں جو معاملات طے ہوئے ان کے مطابق اب ایران کے صدر  ابراہیم رئیسی اور پاکستان کے وزیر اعظم شہباز شریف نے 18 مئی کو پولان، گبڈ 100 میگا واٹ بجلی ٹرانسمیشن لائن پر کام کا افتتاح کیا۔یہ کام مکمل ہوتے ہی گوادر کو ایران سے مزید 100 میگاواٹ بجلی کی فراہمی شروع ہو جائے گی۔ اس منصوبے پر کام کے آغاز کے بعد یہ کہا جاسکتا ہے کہ تبدیل شدہ بین الاقوامی صورتحال میں پاک ایران اقتصادی تعاون کے سرد خانے میں پڑے دیگر منصوبوں پر عملدرآمد بھی ممکن ہو سکتا ہے۔