آج ہم آپ کو عوام کی آواز ہم عوام ویب سایٹ پر خوش آمدید کہتے ہیں

 پاکستان کا فکری و سیاسی بحران، ادیب کیا کرے؟

 پاکستان کا فکری و سیاسی بحران، ادیب کیا کرے؟
   پاکستان کا فکری و سیاسی بحران، ادیب کیا کرے؟ ” کے موضوع پر حلقہ ارباب ذوق کا خصوصی اجلاس پاک ٹی ہاؤس میں ہوا۔ اجلاس کی صدارت ممتاز صحافی اور ڈرامہ نگار شاہد محمود ندیم نے کی جب کہ محرک بحث معروف
صحافی و دانش ورصاحب تھے۔
اظہار خیال کرنے والوں میں ڈاکٹر عالم خان، ڈاکٹر امجد طفیل، عابد حسین عابد، خواجہ جمشید امام، عثمان قاسمی اور ساشا جاوید شامل ہیں۔ بحث میں شرکاء محفل نے بھی حصہ لیا۔ وجاہت مسعود، عابد حسین عابد اور خواجہ جمشید نے دبنگ لہجے اور پرجوش انداز میں نہایت ہی مدلل اور فکر انگیز گفتگو کی۔
وجاہت مسعود کا کہنا تھا کہ پاکستان میں سرکاری موقف یا بیانیے کو خوف یا لالچ کے ذریعے نافذ کیا جاتا ہے اور سرکاری موقف کے متبادل بات کو وطن یا ریاست دشمنی قرار دے دیا جاتا ہے۔ تیسرا زاویہ یہ ہے کہ ان دونوں باتوں کے نتیجے میں لکھنے والا سیلف سنسر شپ کے تحت اپنے اوپر کچھ پابندیاں عائد کر لیتا ہے یا اپنے لیے کچھ حدود متعین کر لیتا ہے۔
عابد حسین عابد کا کہنا تھا کہ ریاست شروع سے ہی سیاسی فکر کی بجائے مذہبی فکر کے تحت آگے بڑھتی دکھائی دی ہے اور آج بھی مذہبی ٹچ کے ذریعے ہی ملک اور عوام کے مسائل کے حل کی باتیں کی جاتی ہیں۔
 خواجہ جمشید امام کی پرجوش تقریر کا لب لباب یہ تھا کہ پاکستانی ریاست11 اگست کی مسٹر جناح کی تقریر اور قرار داد مقاصد جیسے دو متضاد اور متصادم بیانیوں میں پھنسی ہوئی ہے۔ سیاسی بحران کی وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے لاجواب جملہ بولا کہ پیدا ہوئے تو ایک جرنیل تھا، چلنا شروع کیا تو دوسرا جرنیل تھا، ہوش سنبھالا تو تیسرا جرنیل تھا اور دنیا سے جانے کا وقت قریب آیا تو چوتھا جرنیل آ گیا۔ فکری بحران کے حوالے سے خواجہ جمشید کا کہنا تھا کہ بدقسمتی سے ہمیں ادب کے نام پر شہاب نامہ، داستان امیر حمزہ اور عمرو عیار کا طلسم ہوش ربا دیا گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ آزادی اظہار رائے کی قیمت چکانی پڑتی ہے لیکن بدقسمتی سے ہمارے ادیبوں کی اکثریت آزادی اظہار رائے کی قیمت چکانے کے لیے کبھی بھی تیار نہیں رہی
مقررین کے اظہار خیال کے بعد شرکاء محفل نے سوال یا تبصرے کی صورت میں بحث کو مزید آگے بڑھانے میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ راقم کا تبصرہ یہ تھا کہ ادب کی تاریخ میں صرف وہی لوگ زندہ رہتے ہیں جو اپنے عہد کی ترجمانی کرتے ہیں۔ اپنے عہد کے سماجی و مذہبی اور سیاسی و معاشی حالات پر لب کشائی کی جرات نہ رکھنے والے ادیبوں کی ادبی تخلیقات کی حیثیت ڈیکوریشن پیس سے زیادہ نہیں ہوتی۔ آخر میں بحث سمیٹتے ہوئے صاحب صدارت شاہد محمود ندیم نے نہایت ہی مدلل اور پرمغز گفتگو کی۔ 

About The Author

مظہر چوہدری

مظہر چودھری قومی سطح کے کالم نگار ہیں۔حقوق نسواں، حقوق اطفال اور محنت کشوں کے حقوق سمیت انسانی حقوق کے علمبردار ہیں۔ لائسیم سائنس کے نام سےایک تعلیمی ادارہ بھی چلا رہے ہیں۔ سیر و سیاحت اور کتب بینی کے فروغ میں خصوصی دلچسپی رکھتے ہیں۔

Leave a reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.