لاہور میں مقیم رہنے والے تمام مذاہب کے لکھاریوں کو شہرِ بے مثال سے بیحد لگائو رہا ہے تقسیم ہند کے موقع پر لاہور میں رہنے والے ہندو اور سکھ ادیبوں ، شاعروں ، صحافی دانشوروں کو شرنارتھی بن کر یہاں سے جانا پڑا تھا مگر وہ جتنی دیر زندہ رہے لاہور شہر سے محبت کرتے رہے ان میں سے گوپال متل ، پران نوائل ، سوم آنند ، سنتوش کمار اور خوشونت سنگھ نے تو لاہور کے بارے میں کتابیں لکھ دی تھیں مگر کرشن چندر ، راجندر سنگھ بیدی اور کنہیا لال کپور شہر لاہور کے حوالے سے کتاب نہ لکھ سکے تھے اور نہ ہی لاہور سے جدا ہونے کے بعد اس شہر سے دوبارہ مل سکے تھے تاہم ان کی تحریروں میں جگہ جگہ لاہور شہر سے محبت بکھری ہوئی مل جاتی ہے محمود الحسن نے ان تینوں کی شہرِ بے مثال سے محبت کے اظہار کو ” لاہور : شہرِ پُرکمال “کے عنوان سے کتابی صورت میں جمع کر دیا ہے جسے قوسین پبلشرز کے تحت ریاض احمد اور غالبا” محمد سلیم الرحمٰن نے 2001 ء میں سویرا آرٹ پریس سے طبع کروا کر فیصل ٹاؤن لاہور سے شائع کیا تھا جس کا انتساب مولانا صلاح الدین احمد کے علاوہ ناشر کے بزرگ نذیر احمد چوہدری کے نام کیا گیا ہے۔
کتاب کا سرورق محمد ابراہیم شہزاد نے تیار کیا ہے جبکہ پسِ سرورق پر مولف محمودالحسن کی تصویر کے ساتھ تحریر میں لکھا ہوا ہے کہ لاہور راوی کنارے ہی نہیں بستا مدتوں سے لوگوں کے دلوں میں میں بھی بستاچلا آیا ہے اسکی فضا میں سرشاری ، تازگی ، رنگ اور امنگ بھی پائی جاتی رہی ہیں جو یہاں رہا کبھی اسے فراموش نہ کر سکا اردو کے دو بڑے فکشن نگاروں کرشن چندر اور راجندر سنگھ بیدی کے علاوہ اہم مزاح نگار کنہیا لال کپور نے بڑی محبت اور حسرت سے لاہور کا ذکر کیا ہے اس کتاب میں ان کی یادوں کو یکجا کر دیا گیا ہے تقسیم ہند کے بعد ان تینوں کو لاہور سے جدا ہونا پڑا اور واپس آنا نصیب نہ ہوا اس کے باوجود لاہور ان کے دلوں میں بستا رہا !” محمود الحسن بنیادی طور پر صحافی ہیں ایم اے بلاغیات کے سلسلے میں انہوں نے انٹرن شپ روزنامہ خبریں میں کی تھی جس کے دوران ان سے تھوڑی سی شناسائی پیدا ہوگئی تھی اس کے بعد کبھی کبھار پریس کلب میں دکھائی دے جاتے رہے ہیں ۔
محمودالحسن “تعارف” کے عنوان سے پیش لفظ میں بتاتے ہیں کہ کرشن چندر اور بیدی ان کے پسندیدہ فکشن نگار ہیں دونوں کو پڑھنے کے بعد انہوں نے مزاح نگار کنہیا لال کپور کو پڑھا تو ان کی تحریر سے بھی متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے تینوں کی تخلیقات پڑھنے سے ان کے لاہور سے عشق کا پہلو آشکار ہونے پر محمودالحسن نے ان پر باری باری مضامین لکھے جو روزنامہ ایکسپریس اور بعدازاں ویب سائٹ “ہم سب ” پر بھی شائع ہوئے انہوں نے “کرشن چندر اور لاہور” کے عنوان سے پہلا مضمون لکھا تھا جسے انہوں نے کرشن چندر کے صد سالہ یوم پیدائش پر ان کی مادر علمی ایف سی کالج کی ایک مجلس میں پڑھا تھا اسے شمس الرحمٰن فاروقی نے خبرنامہ” شب خون” میں بھی چھاپ دیا تو پھر محمودالحسن نے “راجندر سنگھ بیدی اورلاہور ” کے بعد”کنہیا لال کپور اور لاہور” کے عنوان سے مضامین بھی لکھ ڈالے تھے محمود الحسن کے یہ مضامین ان تینوں ادیبوں کی لاہور سے جڑی یادیں تھیں پھر محمودالحسن نے انہی مضامین کو اضافے کے ساتھ کتابی صورت میں چھپوا لیا ہم نے ان کی کتاب اکتوبر 2021 ء کے پہلے ہفتے میں ہی خرید لی تھی لیکن اسے کتابوں کے ڈھیر میں رکھ کر بھول گئے تھے ۔
دیباچہ محمود الحسن نے معروف بھارتی نقاد اور مدیر شمس الرحمٰن فاروقی (مرحوم) سے لکھوایا تھا جنہوں نے “کمال کے شہر میں تین کمال” کے عنوان سے لکھا تھا کہ یوں تو ہمارے ادب کے مراکز متعدد ہوئے ہیں لیکن لاہور والی بات کسی میں نہ آئی ، محمد حسین آزاد اور الطاف حسن حالی کے زمانے میں بھی لاہور ادبی مرکز تھا ، جیسے عاشق لاہور کو نصیب ہوئے ویسے کم از کم ادب کے میدان میں دلی کو بھی نصیب نہ ہوئے ، محمود الحسن بھی ایک چھوٹے موٹے لاہور ہیں ، خاموش رہتے ہیں تو لگتا ہے کہ کسی کالج میں پڑھتے ہیں ، بولنا شروع کرتے ہیں تو متحیر کر دیتے ہیں ، انتظار حسین کے مداح ، ممدوح اور ہم مشرب دوست اور کبھی کبھی تو ان کے نفس ناطقہ نظر آنے لگے ، انتظار حسین ڈبائی سے اٹھے اور میرٹھ سے ہوتے ہوئے لاہور پہنچ گئے اور پھر لاہور نے ان کو اپنالیا کچھ ایسا ہی معاملہ کرشن چندر ، بیدی اور کنہیا لال کپور صاحبان کا تھا انہوں نے لاہور کو اپنے دلوں میں وہ رتبہ دیا جو میر نے اپنے معشوق کو دیا تھا ، محمود الحسن نے ان نابغہ روزگار عشاق لاہور کو لاہور میں رکھ کر ہمیں دکھا دیا کہ شہر ہو تو ایسا ہو عاشق ہوں تو ایسے ہوں ہم سب کو محمود الحسن کا شکر گزار ہونا چاہیے !”
ڈبائی ضلع بلند شہر کے انتظار حسین کی وفات کے بعد محمود الحسن پھر سہارن پور سے تعلق رکھنے والے محمد سلیم الرحمٰن کے نفس ناطقہ بن گئے تھے اور غالبا”اب محمد سلیم الرحمٰن کا فیس بک اکاؤنٹ بھی محمود الحسن چلا رہے ہیں دراصل یہ یو پی ، سی پی کے مہاجر اردو داں ادیبوں ، شاعروں ، نقادوں سے خصوصی لگاؤ رکھتے ہیں اور زیادہ تر انہی کے بارے میں لکھتے چلے آرہے ہیں ہمیں تو ادبی ذوق رکھنے والے اسلام آباد میں مقیم فیس بک فرینڈ محمد عمیر ناصر بھی محمودالحسن کے جڑواں بھائی ہی لگتے ہیں تفنن برطرف شمس الرحمٰن فاروقی پر محمود الحسن نے “جس کی تھی بات بات میں اک بات ” کے طویل عنوان سے کتاب بھی لکھی تھی جس کا دیباچہ انہوں نے ڈاکٹر خورشید رضوی سے لکھوایا تھا یہ کتاب شمس الرحمٰن فاروقی کے انٹرویوز پر مشتمل تھی جو انہوں نے روزنامہ ایکسپریس کیلئے کئے تھے تاہم اس میں شمس الاسلام فاروقی کے فن اور شخصیت پر محمودالحسن کا مضمون بھی شامل ہے محمود الحسن کی” گزری ہوئی دنیا سے” کے عنوان سے بھی کتاب شائع ہو چکی ہے جس کے سرورق پر جن بزرگ ادیبوں ، شاعروں کی تصاویر چھاپی گئی ہیں ان میں سے بیشتر دنیا سے رخصت ہو چکے ہیں ۔
کرشن چندر وزیر آباد میں پیدا ہوئے ، بچپن کشمیر میں گزرا لڑکپن میں پڑھنے کے لئے لاہور چلے آئے تھے اور ہندو ہاسٹل اور موہنی روڈ کے علاوہ اندرون شہر میں بھی مقیم رہے تھے “کرشن چندر اور لاہور” کے عنوان سے اپنے پہلے مضمون میں محمود الحسن لکھتے ہیں کہ کرشن چندر نے جس قدر محبت سے لاہور کو یاد کیا ہے شاید ہی کسی دوسرے لکھنے والے نے اتنی شدید محبت محسوس کی ہو ان کے ہاں مرنے سے قبل لاہور دیکھنے کی تمنا نے بہت شدت اختیار کر لی تھی اور اس سلسلے میں وہ احمد ندیم قاسمی کے نام کرشن چندر کے آخری خط کا حوالہ دیتے ہیں جس میں کرشن چندر نے لکھا تھا کہ لاہور کا ذکر تو کجا اس کافر ادا شہر کے بارے میں سوچتا بھی ہوں تو آنکھیں بھیگ جاتی ہیں اگلے صفحات میں ڈاکٹر آغا سہیل بتاتے ہیں کہ کرشن چندر کا پہلا افسانہ “سادھو ” تھا جو زمانہ طالب علمی کے دوران ایف سی کالج کے میگزین فولیو کے شمارہ 1929ء میں شائع ہوا تھا ان دنوں کرشن چندر ایف ایس سی میں پڑھ رہے تھے ، ایف سی کالج سے ہی انہوں نے بی اے اور ایم اے انگریزی کے بعد پنجاب یونیورسٹی لاء کالج سے قانون کا امتحان بھی پاس کیا تھا تاہم کرشن چندر نے کچہری میں وکالت نہ کی تھی ۔
راجندر سنگھ بیدی اندرون لاہور شہر ڈبی بازار میں رہتے تھے اور انہوں نے محسن لاہوری کے قلمی نام سے ڈی اے وی کالج کے میگزین میں لکھنے کا آغاز کیا تھا محمودالحسن “راجندر سنگھ بیدی اور لاہور ” کے عنوان سے اپنے دوسرے مضمون میں دلچسپ واقعہ بیان کرتے ہیں کہ راجندر سنگھ بیدی کے افسانوں کا پہلا مجموعہ “دانہ و دوام ” چھپا تو اوپندر ناتھ اشک کے کہنے پر بیدی نے ناشر سے رائلٹی کا مطالبہ کردیا جس پر نذیر احمد چوہدری نے کتاب کے مصنف کو صرف گنڈیریوں پر ٹرخانے کی کوشش کی مگر بیدی کے اصرار پر انہیں سوا سو روپے رائلٹی دینا پڑی تھی اس رقم سے راجندر سنگھ بیدی نے بھینس خرید لی تھی وہ ڈاکخانے میں کلرکی کرنے کے ساتھ ساتھ پنجابی رسالے “سارنگ” اور اردو جریدے “ادب لطیف” کے اعزازی مدیر بھی رہے تھے ڈاک خانے کی ملازمت چھوڑ کر بیدی لاہور ریڈیو اسٹیشن پر ملازم ہو گئے تھے اور ڈرامے بھی لکھتے رہے تھے انہوں نے ہندو دوستوں سریندر سہگل اور راج ہنس کرشن کے ساتھ مل کر ایبٹ روڈ پر دیال سنگھ لائبریری کے ساتھ اشاعتی ادارہ سنگم پبلشرز قائم کر کے اپنے ڈراموں کا مجموعہ “سات کھیل” بھی شائع کیا تھا جس کے بعد جلد ہی انہیں تقسیم ہند پر لاہور کی یادیں لے کر شملے جانا پڑا تھا جبکہ کنہیا لال کپور ڈی اے وی کالج سے بی اے کے بعد گورنمنٹ کالج سے ایم اے انگریزی کرکے ڈی اے وی کالج میں لیکچرار بن گئے تھے محمودالحسن بتاتے ہیں کہ کنہیا لال کپور کا پہلا مضمون “اخبار بینی” کے عنوان سے 1938ء کے دوران مولانا چراغ حسن حسرت کے جریدے ہفتہ وار شیرازہ لاہور میں چھپا تھا جبکہ کنہیا لال کپور کی پہلی کتاب “سنگ و خشت” مکتبہ جدید لاہور نے 1942ء میں شائع کی تھی تقسیم ہند پر فکر تونسوی اور کنیا لال کپور لاہور چھوڑنے والے آخری ہندو ادیب ، شاعر تھے ۔۔۔!”