مارکسزم کامطلب صرف معاشی مساوات یا لا طبقاتی معاشرے کی حد تک محدود نہیں – سوشلزم سے کیمونزم تو مارکسزم کی منزل ہے -اس منزل پر پہنچنے سے پہلے مارکسزم ایک طویل مسافت طے کرتا ہے – یہ کوئ سیدھی سڑک پر سفر نہیں – یہ سفر سماج کے مختلف راستوں کو نئ شکل دے کر منزل پر پہنچتا ہے – معاشی مساوات اور لاطبقاتی معاشرے کا,نظام پیش کر نے سے پہلے یہ مروجہ نظام کے تقریباً ہر پہلو کو زیر بحث لاتا ہے اور اس کی حقیقی شکل عوام کے سامنے پیش کرتا ہے – ان سماجی پہلؤں میں سب سے اہم مروجہ سرمایہ دارانہ نظام ہے – مارکسزم اس پر تفصیلی بحث کرتا ہے – -اس کے کام کرنے کا طریقہ اس کے اثرات اور اس کے نتائج کی مارکسی تشریح کرتا ہے- ریاست اور اس کے کردار کو زیر بحث لاتا ہے – صنعتی نظام جاگیر دارانہ نظام قبائلی نظام کو جس صراحت سے مارکسزم بیان کرتا ہے اس کا,مقابلہ کوئ دوسرا طرز استدلال پیش نا کر سکا – مارکسزم فرد اور ریاست کے تعلق کو واضح کرتا ہے – تاریخ کو نئے رخ سے دیکھنے کا طریقہ کار بتاتا ہے – جمہوری نظام پر بات کرتا ہے سرمایہ دارانہ جمہوریت اور حقیقی جمہوریت کی تفریق کرتا ہے – مارکسزم قوم پرستی پر بات کرتا ہے – اس کی حدود متعین کرتا ہے وجوہات پر روشنی ڈالتا ہے – وہ مذہب کے سماج پر اثرات کو اجاگر کرتا ہے – خواتین کی سماج میں حیثیت متعین کرتا ہے – تعلیمی نظام پر اپنا نکتہ نظر پیش کرتا ہے – ادب پراور فلسفہ آرٹ پر انسانی نفسیات پر بات کرتا ہے – انسانی رشتوں پر روشنی ڈالتا ہے – اور یہ سب کچھ علمی دنیا میں اپنی نوعیت میں سب سے مختلف تصورات بیان کرتا ہے – یہ علمی جدو جہد کارل مارکس اور فریڈرک انگلیز نے کم و بیش پچاس سال میں طے کی – جس دوران انہوں نے سینکڑوں مضامین اور بہت سی کتابیں لکھیں بے شمار سوالات کے تفصیلی جواب دئیے – انکے ساتھ مارکسی دانشوروں اس علمی خزانے میں بے پناہ اضافہ کیا – بنی نوع انسان کے دریافت کردہ علوم کو اگر ہم ایک خزانہ قرار دیں تو اس میں سب سے بڑا حصہ مارکسزم کا ملے گا – جو دو صدیوں سے دنیا کو اپنے سحر میں مبتلا کیے ہوئے ہے – مارکسی دانشور اور سیاسی کارکن ہمیشہ دنیا میں ممتاز مقام حاصل کرتے ہیں – سرمایہ دارنہ نظام کی ان کو نظر انداز کرنے کی دانستہ کوشش کے باوجود مارکسی دانشور اور سیاسی کارکن اپنے بل بوتے پر ہی اپنا وجود ثابت کرتے ہیں – دنیا انکی بات سننے پر مجبور ہوجاتی ہے – انسانی ترقی کے سرمایہ دارانہ معیار کے ساتھ ساتھ دنیا بھر کی سرمایہ دارنہ حکومتوں کو مارکسی معیار پر بھی اپنی کارکردگی پیش کرنی پڑتی ہے – استحصال کا شکار ہر قوم اور طبقہ اپنی جدو جہد کے لیے راہنمائ مارکسزم کے اصولوں سے ہی وضع کرنے پر مجبور ہوتا ہے – اس پس منظر کی موجودگی میں جب کوئ لبرل یا مذہبی طبقہ کا دانشور یہ کہتا ہے کہ مارکسزم ناکام ہوگیاہے تو اس کی مارکسزم کے متعلق سطحی واقفیت کا اظہار ہوتا ہے – حقیقت میں وہ مارکسزم پر تبصرہ اپنے مذہبی اور لبرل مطالعہ کے زیر اثر کر رہا ہوتا ہے – اسے مارکسزم کے متعلق کوئ واقفیت نہیں – اپنی منزل کے حصول سے پہلے مارکسزم نے عالم انسانیت کو نئے علمی خزانے سے متعارف کروایا جس کا فیض اگلے سو سال بھی ختم ہوتا نظر نہیں آتا – اب تک کے دریافت کردہ علوم میں اتنی لمبی عمر شاید ہی کسی علم کو حاصل ہوئ ہو,جو اپنی اصل حالت میں بھی کارآمد رہا ہو – ایسے علم کو ناکام کہنا سطحیت نہیں تو اور کیا کہیں گے – اسی طرح مارکس ازم کے جو دعویدار صرف معاشی مساوات حاصل کرنے کی حد تک دلچسپی رکھتے ہیں اور باقی سماجی معاملات کو سمجھنے کے لیے مارکس ازم کا استمعال نہیں کرتے وہ بھی اس عظیم علم کی عظمت سے ناواقف ہی سمجھے جائیں گے جو صرف وقتی جذبے یا ذہنی تفریح کے لیے اس میں دلچسپی لیتے ہیں – جب تک مارکسی اصولوں کو ہر سماجی معاملے میں استمعال نہیں کیا جاتا اس کی منزل کا راستہ ملنا ممکن نہیں –