اقلیت عام طور پر اکثریت کےکلچر تاریخ، ثقافت اور  میل جول کو اپنالیتی ہے۔ اگر ہم پاکستان کی مذہبی اقلیتوں کے رہن سہن پر نظر دوڑائیں تو معلوم ہوگا کہ ان کی روزمرہ کی زندگی حتی کے مذہبی عبادات اور رسوم و رواج پر اکثریتی کمیونٹی کے مذہب کے اثرات بہت گہرے ہیں۔انہی اثرات کی بدولت پاکستان کی مسیحی اقلیت نے  بھی پاکستان کی تاریخ کے اسی ورژن کو اپنا لیا ہے جسے عام طور ہر مطالعہ پاکستانی تاریخ کہا جاتا ہےاور وہی بیانیہ دوہراتی ہے جو رجعت پسندوں کو پسند ہے۔پاکستان کے مسیحی آئے روز یہ دعوی کرتےہیں کہ قیام پاکستان میں مسیحیوں کا بھی رول ہے پہلے توان سے یہ سوال پوچھنا چاہیے کہ مسلم لیگ کا رکن کوئی غیر مسلم نہیں بن سکتا تھا یقینا نہیں تو پھر غیر مسلموں کا اس کے قیام میں کیا کردار ہوسکتا تھا۔ حتی کہ قیام پاکستان کے بعد جب محمد علی جناح کو یہ تجویز دی گئی کہ اب پاکستان بن چکا ہے لہذا مسلم لیگ کی رکنیت کے دروازے بلالحاظ مذہب سبھی پاکستانی شہریوں پر کھول دینے چاہیں تو انہوں نے یہ کہہ کر انکار کردیا تھا کہ ابھی وہ وقت نہیں آیا۔
 پاکستان 1946 کے الیکشن کے نتیجے میں بنا تھااورمسلم لیگ نے کسی غیر مسلم کواس الیکشن میں امیدوار نامزد نہیں دیا تھا۔ ایک اور سوال یہ کہ جناح اور مسلم لیگ تو ایک اسلامی پاکستان بنانا چاہتےتھے کسی مذہبی  اقلیت کو اس کے قیام میں کیا دلچسپی ہوسکتی تھی؟
مسیحی پاکستان بنانے والوں میں ایس پی سنگھا کا نام شامل کرتے ہیں اور یہ نہیں بتاتے کہ پاکستان بنانے میں موصوف کا کیا رول تھا؟
مطالعہ پاکستان کی دوسری کہانیوں کی طرح ایس پی سنگھا کی کہانی بھی فرضی ہے۔
اقلیت ہوں یا اکثریت سبھی پاکستان کے شہری ہیں اور انھیں مساوی  آئینی اور شہری حقوق حاصل ہوناچاہیں۔ پاکستان کا آئین اور قانون اقلیتوں کے لئے مساوی شہریت کی نفی کرتا ہے۔پاکستان کے سب شہریوں کو بلا لحاظ مذہب مل کر ایک مساوی شہریت کا حامل سماج اور ریاست بنانے کی جدوجہد کرنا ہوگی۔