کسی بھی ملک اور قوم کا حقیقی سرمایہ اس کی نوجوان نسل ہوتی ہے ۔ اس قیمتی سرمائے کی مناسب نشو و نما اور دیکھ بھال ہر ملک اور معاشرے کی اوؔلین ترجیح اور ذؔمہ داری ہونی چاہیے ۔ زندہ قومیں اپنے اس قیمتی سرمائے کی حفاظت کے لئے تمام تر وسائل اور کوششیں بروئے کار لاتی ہیں ۔ آج کے دن پیدا ہونے والا بچؔہ ہی اس قوم کا حقیقی وارث ہے ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہم پچھلے ۷۵ سالوں میں ملک کو کوئی ایسا میکانزم دینے میں کامیاب ہو سکے ہیں ؟ جس کے تحت یہ نرسری خود بخود ہی تیار ہوتی رہے ۔ بدقسمتی سے جواب یقیناً نہیں میں ہے ۔
حقیقت یہ ہے کہ پچھلی سات دہائیوں سے اخلاقی اقدار بتدریج زوال پذیر ہیں ۔ملک کے معاشی حالات مسلسل دگرگوں ہی رہتے ہیں ،امن عامہ کی صورتحال کبھی بھی تسلؔی بخش نہیں رہی ۔ عوام تک بنیادی سہولتوں کی نارسائی ہے ، ملکی سلامتی پر وقتا فوقتا سوالیہ نشان اٹھتا رہتا ہے اور بین الاقوامی سطح پر ملک کا تشؔخص کبھی بھی صحیح طور پر اجاگر نہیں ہو سکا ۔ ان حالات میں یہ توقع کرنا بالکل بے سود ہے کہ ہم اس طرح کا کوئی میکانزم بنانے میں کامیاب ہو گئے ہوں جو ایک عمل مسلسل کے ذریعے ایسی نوجوان نسل کو ہر وقت تیار کرتا جائے جو ملک کی تعمیرو و ترقؔی کے لئے اپنا مؤثؔر رول ادا کرنے کی اہل ہو اور اس رول کو ادا کرنے کے لئے ہمہ وقت اور مناسب تعداد میں موجود بھی ہو ۔ لیکن اس ناکامی کا یہ مطلب بھی نہیں ہے کہ ہم ناامیؔد ہو جائیں اور ایسے ہی ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھے رہیں ۔
زندگی ایک مسلسل سفر اور جینا ایک مسلسل عمل کا نام ہے ۔ جب تک دریاؤں میں پانی بہہ رہا ہے ، ہوائیں چل رہی ہیں ، درختوں پر پھول اور پھل لگ رہے ہیں اور سورج باقاعدگی سے نکلتا اور غروب ہوتا ہے ، ناامیؔد ہونے کا کوئی جواز نہیں ہے ۔ امیؔد اور زندگی کی ناؤ نہ کبھی رکی ہے نہ ہی رکنی چاہیے ۔ قوموں کی زندگی میں اتار چڑھاؤ آتے رہتے ہیں ۔ جو ہوا ، وہ سمجھیں اتار تھا اب اس کو چڑھاؤ میں بدلا جا سکتا ہے ۔ صرف ارادے اور ہؔمت کی ضرورت ہے ۔ انسان کو اللہ تعالی نے بحالی کی بے پناہ صلاحیت عطا کی ہے ۔ آئیے ! اس صلاحیت کو بروئے کار لاتے ہوئے ایک زندہ قوم ہونے کا ثبوت دیں اور جو کام نہیں ہو سکا وہ کر کے دکھا دیں ۔ جب آپ کسی کام کا آغاز کرتے ہیں تو آدھا وہ اسی دن سرانجام پا جاتا ہے جس دن اس کو شروع کر دیا جائے ۔ جیسا کہ میں نے پہلے ذکر کیا ۔ آج کے دن پیدا ہونے والا بچؔہ ہی دراصل اس ملک کا حقیقی وارث ہے ۔

آئیے ! ہم اس اہم کام اور ذمؔہ داری کی کچھ جزئیات پر تھوڑی سی بات کر لیتے ہیں کہ اس کو کس طریقے سے سر انجام دیا جا سکتا ہے ۔
جب بچؔہ پیدا ہو تو سب سے پہلے اس کی صحت کا خاص خیال رکھا جائے اور اس کو گھر میں ایک اچؔھا اور صاف ستھرا ماحول دیا جائے ۔ اگر ماں کا دودھ میؔسر ہو تو نہایت ہی اچھی بات ہے ۔ ماں کا دودھ ایک مکمل غذا اور اینٹی باڈیز سے لبریز ہوتا ہے جو نہ صرف بؔچے کو صحتمند رکھتا ہے بلکہ یہ اینٹی باڈیز اسے مختلف بیماریو ں سے بھی بچاتی ہیں ۔ اگر یہ دودھ میسؔر نہ ہو تو بچے کو فیڈر سے دودھ نہ پلایا جائے بلکہ چمچ یا گلاس سے دودھ پینے کی عادت ڈالی جائے تاکہ وہ بیماریوں سے بچ سکے ۔ بؔچہ جتنا بیماریوں سے دور رہے گا اتنا ہی جسمانی اور ذہنی طور پر مضبوط اور توانا ہو گا ۔ جوں جوں بؔچہ بڑا ہوتا جائے اس کو غذا میں ابلا ہوا انڈہ اور گھر میں پکنے والے نرم کھانوں کی عادت ڈالی جائے ۔بؔچے کے ماحول کو صاف ستھرا رکھا جائے ، بؔچے کی اپنی صفائی کا بھی خاص خیال رکھا جائے اور اس کو Personal Hygiene کے اصول سکھائے جائیں ۔ جب وہ سکول جانے لگے تو اس کو انڈہ ، پراٹھا اور دہی کے ناشتے کی عادت ڈالی جائے ، صبح صبح بادام کھانے کی طرف راغب کیا جائے ، پھل اور ڈرائی فروٹ کھانے کا شوق پیدا کیا جائے اور جنک فوڈ سے بالکل دور رکھا جائے ۔سکول میں کھانے کے لئے لنچ گھر سے لے کر جائے ،سکول کی کنیٹین سے بالکل کچھ نہ کھائے ، پینے کے پانی کی بوتل بھی ساتھ ہی لے کر جائے ۔ پانی بہت سی بیماریوں کا سبب بنتا ہے اس لئے اس طرف خاص توجہ دی جائے کہ کون سا پانی اور کہاں سے پیا جا رہا ہے ۔ گھر کا اور سکول کا باتھ روم حفاظتی طریقے سے استعمال کرنے کے اصول خود بھی سیکھے جائیں اور بؔچے کو بھی سکھائے جائیں تاکہ وہ پیٹ کی بیماریوں سے بچا رہے ۔

پہلے دن سے ہی بچے کے کھیل کود اور جسمانی ورزش کا گھر میں ہی بندوبست کیا جائے ۔ اس کی ذہنی نشو و نما کے لئے اس کے ساتھ روزانہ مختلف قسم کے puzzles کی پریکٹس کی جائے ۔ ہر گھر میں روزانہ بؔچوں کے ساتھ معلومات عامہ ، سائنسی مضامین اور دیگر موضوعات پر ضرور بات چیت کی جائے ۔ گھر کے ماحول کو ہر وقت پرسکون رکھا جائے ۔ بچوں کے ساتھ دوستی کا رویؔہ اختیار کیا جائے نہ کہ ڈکٹیٹر والدین کا ۔ بؔچے کے سامنے چیخ و پکار ، شور شرابہ اور جھوٹ بولنے سے پرہیز کیا جائے ۔ بؔچے کو کبھی بھی کسی بھی چیز سے نہ ڈرایا جائے بلکہ اس کو ہر وقت بہادری کے قؔصے سنائے جائیں اور اس کی خوداعتمادی کو بڑھانے کے لئے اسے ہمیشہ یہ کہا جائے کہ تم بہت بہادر ہو ، تم ببر شیر ہو ۔ بؔچے کو کھیل کود سے کبھی بھی نہ روکا جائے چاہے اس میں اس کی پڑھائی کا ہی تھوڑا نقصان کیوں نہ ہو رہا ہو ۔ اس کو کبھی بھی فیل ہونے سے نہ ڈرایا جائے اور اس پر کسی بھی طرح کا پریشر مسلؔط نہ کیا جائے ۔ شروع سے ہی بچے کا رجحان اور دلچسپی دیکھی جائے ۔ اللؔہ تعالی ہر انسان کو ایک خاص ٹیلنٹ اور صلاحیؔت دے کر اس دنیا میں بھیجتا ہے اس ٹیلنٹ اور صلاحیؔت کی کھوج لگائی جائے اور بؔچے کی اس فیلڈ میں آگے بڑھنے کے لئے حوصلہ افزائی اور مدد کی جائے ۔ اس کو کبھی بھی ایسے فیلڈ میں جانے پر مجبور نہ کیا جائے جو اسے پسند نہیں ہے ۔ کبھی بھول کر بھی اپنے بچوں کو جسمانی     سرگرمیوں اور کھیل کود سے نہ روکیں پہلے دن سے ہی بچے کے کھیل کود اور جسمانی ورزش کا گھر میں ہی بندوبست کیا جائے ۔ اس کی ذہنی نشو و نما کے لئے اس کے ساتھ روزانہ مختلف قسم کے puzzles کی پریکٹس کی جائے ۔ ہر گھر میں روزانہ بؔچوں کے ساتھ معلومات عامہ ، سائنسی مضامین اور دیگر موضوعات پر ضرور بات چیت کی جائے ۔ گھر کے ماحول کو ہر وقت پرسکون رکھا جائے ۔ بچوں کے ساتھ دوستی کا رویؔہ اختیار کیا جائے نہ کہ ڈکٹیٹر والدین کا ۔ بؔچے کے سامنے چیخ و پکار ، شور شرابہ اور جھوٹ بولنے سے پرہیز کیا جائے ۔ بؔچے کو کبھی بھی کسی بھی چیز سے نہ ڈرایا جائے بلکہ اس کو ہر وقت بہادری کے قؔصے سنائے جائیں اور اس کی خوداعتمادی کو بڑھانے کے لئے اسے ہمیشہ یہ کہا جائے کہ تم بہت بہادر ہو ، تم ببر شیر ہو ۔ بؔچے کو کھیل کود سے کبھی بھی نہ روکا جائے چاہے اس میں اس کی پڑھائی کا ہی تھوڑا نقصان کیوں نہ ہو رہا ہو ۔ اس کو کبھی بھی فیل ہونے سے نہ ڈرایا جائے اور اس پر کسی بھی طرح کا پریشر مسلؔط نہ کیا جائے ۔ شروع سے ہی بچے کا رجحان اور دلچسپی دیکھی جائے ۔ اللؔہ تعالی ہر انسان کو ایک خاص ٹیلنٹ اور صلاحیؔت دے کر اس دنیا میں بھیجتا ہے اس ٹیلنٹ اور صلاحیؔت کی کھوج لگائی جائے اور بؔچے کی اس فیلڈ میں آگے بڑھنے کے لئے حوصلہ افزائی اور مدد کی جائے ۔ اس کو کبھی بھی ایسے فیلڈ میں جانے پر مجبور نہ کیا جائے جو اسے پسند نہیں ہے ۔ کبھی بھول کر بھی اپنے بچوں کو جسمانی سرگرمیوں اور کھیل کود سے نہ روکیں ۔ گھر میں بؔچے کی دلچسپی کی تمام چیزوں اور انڈور کھیلوں کا بندوبست کیا جائے تاکہ وہ باہر جانے اور آوارہ پھرنے سے بچ سکے ۔ بؔچے کو وقت کی پابندی اور ڈسپلن سکھایا جائے ۔ شروع سے ہی کھیلنے اور پڑھنے کے اوقات مقرؔر کر دئیے جائیںُ ۔ رات کو جلدی سونے اور صبح جلدی اٹھنے کی عادت ڈالی جائے ۔ اٹھنے بیٹھنے ، ملنے ملانے اور کھانے کے آداب بتائے جائیں ۔ روزانہ بؔچے کو وقت دیں , اس کے ساتھ گپ شپ لگائیں ، کھیلیں کو دیں اور ہنسی مذاق کریں ۔ بؔچہ جب بھی سکول سے آئے تو اس کو روزانہ کی بنیاد پر پوچھیں کہ اس کا سکول میں آج کا دن کیسا رہا ، کوئی مسئلہ تو نہیں ہوا کسی نے تنگ تو نہیں کیا اگر کسی طرح کا کوئی مسئلہ درپیش ہو تو سکول جا کر احترام اور وقار کے ساتھ فورا اس مسئلے کو ایڈریس کیا جائے تاکہ بؔچے کو تحفؔظ کا احساس ہو اور اس کی خود اعتمادی میں اضافہ ہو ۔بؔچے کو ہمیشہ بہادری کی ترغیب دیں لیکن لڑائی ، مارکٹائی اور گا لم گلوچ سے سختی سے منع کریں ۔
جب بؔچہ کالج یا یونیورسٹی جانا شروع ہو جائے تو جو مضمون یا فیلڈ اس کو پسند ہو اسی میں ہی اس کی حوصلہ افزائی کی جائے اپنی مرضی مسلط نہ کی جائے ۔ اگر وہ پڑھنا نہیں چاہتا بلکہ کوئی ہنر سیکھنا چاہتا ہے تو اسے پڑھائی پر مجبور نہ کیا جائے ۔ اگر اس میں کسی بھی کھیل کے بارے میں خداداد ٹیلنٹ موجود ہے تو اس کو اس کھیل میں آگے بڑھنے میں ہر ممکن مدد دی جائے اور اس کی حوصلہ افزائی کی جائے ۔ اگر بچؔہ کسی سال یا کسی مضمون میں فیل ہو جائے تو اس کو کبھی بھی نہ ڈانٹا جائے بلکہ اس کو تسلؔی دی جائے کہ کوئی بات نہیں اگلی دفعہ تم پاس ہو جاؤ گے تو آپ کا بچؔہ ہمیشہ کے لئے فیل ہونے سے بچ جائے گا ۔ جو بؔچے ذہین ہوں اور ان کو پڑھنے کا شوق بھی ہو ان کی اعلی تعلیم ( اندرون اور بیرون ملک ) کے لئے تمام تر وسائل بروئے کار لائے جائیں ، گھریلو سطح پر ، معاشرے کی سطح پر اور سرکاری سطح پر۔
جب بؔچے انٹرنیٹ استعمال کرنے کے قابل ہو جائیں تو ان کو اکیلے بیٹھ کر انٹرنیٹ استعمال کرنے کی اجازت نہ دی جائے ان کے پاس بیٹھا جائے یا ان کو اپنے پاس بٹھایا جائے ۔ جب بؔچے تھوڑے اور سمجھ دار ہو جائیں تو ان کو بیٹھ کر بتائیں کہ بیٹا اس انٹرنیٹ میں زندگی خراب کرنے والا مواد بھی موجود ہے اور زندگی بنانے والا بھی ۔ اب یہ تم پر منحصر ہے کہ تم کون سا راستہ اختیار کرتے ہو ، جیسا رستہ اختیار کرو گے ویسا ہی نتیجہ نکلے گا اپنے مستقبل کو بگاڑنا یا سنوارنا سب تمہارے ہاتھ میں ہے اور یہ نصیحت آموز کام روزانہ کی بنیاد پر کیا جائے تاکہ بؔچے خود بخود ہی با شعور اور ذمہ دار ہو جائیں ۔ ان پر بے جا پابندیاں نہ لگائی جائیں اس کا نتیجہ کبھی بھی اچؔھا نہیں نکلتا ۔

جب بچؔہ تھوڑا سمجھدار ہو جائے تو گھر کے اندر ہی اس کو روزانہ ایک صفحہ قرآن مجید کا ترجمہ ، سننے یا پڑھنے اور پھر اس پر سو فیصد عمل کرنے کی تلقین کریں ۔ یہ عمل اس کی ساری زندگی پر محیط ہو ۔زندگی کو سیدھا ، آسان اور کامیاب رکھنے کے لئے اس “ کتاب ہدایت “ سے بہتر کوئی رہبر نہیں ہے ۔ اگر بؔچہ روزانہ پانچ وقت کی نماز پڑھے تو بہت ہی اچھؔا ہے ورنہ اس کو تلقین کریں کہ صبح اور رات کی نماز زندگی میں کبھی بھی نہ چھوڑے۔

بؔچے کے لئے اردو اور انگریزی ، دونوں زبانیں سیکھنا بے حد ضروری ہے ۔ اردو اپنی تاریخ اور ثقافت سے جڑے رہنے کے لئے اور انگریزی ، زندگی کے میدانوں میں آگے بڑھنے کے لیے۔ اس کے اردو سیکھنے اور انگلش بولنے کی طرف خصوصی توجہ دی جائے۔
جہاں تک ہو سکے بچؔوں کو بنیادی سائنسی علوم ( کم از کم ایف ایس سی تک ) ضرور پڑھائیں ، چاہے آگے انہوں نے سائنس کی طرف جانا ہو یا نہیں ۔ ملک کا ہر بؔچہ کم از کم گریجوایشن تک ضرور تعلیم حاصل کرے ۔ اس کو سختی سے تلقین کریں کہ تعلیم مکمل کرنے تک سیاست میں حصؔہ نہیں لینا ۔ بچوؔں کو اپنی ثقافت سے روشناس کرانے اور جوڑے رکھنے کے لئے سماجی، معاشرتی اور حکومتی سطح پر ہر ممکن کوشش کی جائے۔
جن بچؔوں کے پاس تعلیم حاصل کرنے کے وسائل نہ ہوں ان کے لئے محلؔہ کی سطح پر نجی اور سرکاری سپورٹ سنٹر قائم کیے جائیں تاکہ اس قومی سرمائے کا ایک بھی فرد ضائع نہ ہو ۔ یہ ایک قومی فریضہ ہے ۔
  جہاں تک ممکن ہو سکے اپنے تمام بچوں (لڑکے اور لڑکی، دونوں ) کو جوڈو کراٹے کی تعلیم اور تربیت لازمی کروائیں یہ ان کی خود اعتمادی اور سیلف ڈیفنس کے لئے بہت ضروری ہے۔ کبھی بھول کر بھی بچوں میں فرق نہ کریں اور لڑکوں کو لڑکیوں پر ترجیح نہ دیں ، یہ بہت بڑی معاشرتی نا انصافی اور گناہ عظیم ہے بلکہ لڑکیوں کو زندگی کے ہر میدان میں آگے بڑھنے کے لئے لڑکوں سے بھی زیادہ سپورٹ کریں ۔ ایک پڑھی لکھؔی ، صحتمند اور ہنرمند لڑکی اور ماں معاشرے کے لئے زیادہ فائدہ مند ثابت ہو سکتی ہے۔
شروع سے ہی اپنے بچؔوں کو بتائیں کہ جھوٹ نہیں بولنا، کسی کو دھوکا نہیں دینا، کسی سے فریب نہیں کرنا، چوری نہیں کرنی، قانون نہیں توڑنا، کسی کو اپنی زبان اور ہاتھ سے تکلیف نہیں دینی، اپنی سوچ کو صاف اور نظر کو پاک رکھنا ہے، زبان کو گندہ نہیں کرنا، کسی کو گالی نہیں دینی ، ملاوٹ نہیں کرنی، کم نہیں تولنا، رشوت نہیں دینی اور نہ ہی رشوت لینی ہے، فضول خرچی نہیں کرنی، وقت ضائع نہیں کرنا، کسی کا حق نہیں مارنا، غصہ نہیں کرنا، غرور اور تکبؔر سے دور رہنا ہے۔ زندگی میں دوسروں کی مدد کے لئے ہر وقت تیار رہنا ہے۔