آج کل آرٹیفیشل انٹیلیجینس پر تحقیق معطل کرنے کا بہت چرچا ہو رہا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ بنی نوع انسان کی مقامی سطح پر اور سمندر پار بھی غیر مادی اور غیر محسوس کہانیوں میں پابند رہنے اور اِن سے جُڑے رہنے کو مرکزی حیثیت حاصل رہی ہے۔ کہانی بُننے اور سنانے کے فن کی مہارت کو جو سب سے بڑا خطرہ درپیش ہے وہ ہے آرٹیفیشل انٹیلیجینس۔ کیوں؟ اس لئے کہ یہ تاریخ کی پہلی ٹیکنالوجی ہے جو از خود کہانیاں تراش سکتی ہے یا تخلیق کر سکتی ہے۔ 
اسرائیلی مورخ یوال نوح حراری کے خیال میں ایمان، مالیات اور اقوام پر مبنی کہانیوں نے اِس زیرِ بار کرۤہ ارض پر بنی نوع انسان کے تسلط کو ہوا دی ہے۔ مثال کے طور پر پیسے نے ہمیں پھلنے پھولنے کی اجازت اور شکتی دی ہے۔ اگر ہزار روپے کے نوٹ کو دکاندار یہ کہہ کر مسترد کردے کہ نیلے رنگ کے کاغذ کا یہ ٹکڑا بیکار ہے، اسے مسترد کردے تو آپ کی جیب میں رقوم کی کیا قیمت ہو گی؟
 اب خطرہ یہ ہے کہ AI بھی ایسے منتر پھونک سکتی ہے۔ اب تک تو ہم یہی سمجھتے رہے تھے کہ جابرانہ اور مطلق العنان استبدادی نظام چلانے کے لئے، Intangible کہانیاں اور بیانیے تخلیق کرنے کا کام بھارتیہ جنتا پارٹی، نسیم حجازی، شیر علی، انتہا پسند مذہبی جتھوں یا وزارتِ اطلاعات اور تاریخ کی کسٹم ٹیلرڈ درسی کتب تک ہی محدود تھا۔ مگر AI کی از خود کہانیاں گھڑنے کی صلاحیت عظیم نقصان اور عظیم فائدے دینے کی ایسی صلاحیت رکھتی ہے جس پر انسانی کنٹرول نہیں ہو گا۔ یہ صرف وہ مواد نہیں پھیلا رہی ہے جو انسان تخلیق کرتے ہیں بلکہ یہ از خود مواد کے علاوہ سیاق و سباق بھی تخلیق کر سکتی ہے۔ 
 میری پسندیدہ امریکی مصنفہ ربیکا سول نِٹ اپنی کتاب The Faraway Nearby میں کہانیوں کا سی ٹی سکین کچھ اس طرح سے کرتی ہیں: ” الف لیلیٰ جسے انگریزی میں ”دی عریبئین نائیٹس“  کے نام سے جانا جاتا ہے،  شہرزاد  سلطان کو ایک رات سے دوسری رات تک  کہانیاں سنا کر سسپنس میں رکھتی ہے تاکہ وہ اسے قتل نہ کر سکے۔ پس منظر یہ ہے کہ سلطان نے اپنی ملکہ کو غلام سے ہم آغوش ہوتے دیکھ لیا تھا اور اُس نے فیصلہ کیا کہ ہر رات وہ ایک کنواری کے ساتھ بسر کرکے صبح اسے قتل کر ڈالے گا تاکہ  دوبارہ کوئی اُسے دیوث نہ بنا سکے۔ 
 شہریار نے رضاکارانہ طور پر قتلِ عام کو ختم کرنے کی کوشش کی اور ایسی کہانیاں سناتی رہی جو ایک رات سے دوسری رات تک پھیلتی چلی گئیں۔  یہ راتیں برسوں  پر پھیل گئی تھیں۔  اُ س نے اس کے ارد گرد ایسی کہانیاں  بُنی جنہوں نے اسے  توقعات کے کوکون میں بند رکھا اور آخر کار وہ ایک کم قاتل آدمی میں تبدیل  ہوگیا۔  اس داستان گوئی کے دوران اس نے تین بیٹوں کو جنم دیا اور کہانی در کہانی  ایسی طویل بھول بھلیاں تعمیر کرڈالی تھیں جس میں  خواہش کی کہانیاں،فریب کی کہانیاں، جادو کی کہانیاں،تبدیلی اور کڑی جانچ کی کہانیاں،ایسی کہانیاں جہاں ایک کہانی کا ایکشن تھم جاتا ہے، وہاں  دوسری کہانی کا منہ کھل جاتا ہے۔ امید کی حامل کہانیاں،موت کو روکنے کی کہانیاں۔ 
 ہم سوچتے ہیں کہ ہم کہانیاں سناتے ہیں لیکن کہانیاں اکثر ہمیں  یہ بتاتی ہیں؛  کہ محبت کریں یا نفرت کریں،دیکھیں یا آنکھیں میچ لیں۔  اکثر کہانیاں ہم پر کاٹھی ڈالتی ہیں،ہم پر سوار ہوتی ہیں،کوڑے مارکر آگے بڑھاتی ہیں۔ ہمیں بتاتی ہیں کہ کرنا کیا ہے اور ہم سوال کئے بغیر کرتے چلے جاتے ہیں۔  آزادی سیکھنے کا تقاضا ہے کہ ہم ان کہانیوں کو سنیں،ان پر سوال اٹھائیں،توقف کریں اور خامشی کو سنیں۔  اور پھر کہانی کار بن جائیں۔ وہ سابق کنواریاں جو مر گئی تھیں،  وہ سلطان کی کہانی کے اندر تھیں۔؛ شہرزاد نے ایک  محنت کش طبقے کے ہیرو  کی طرح  پیداواری ذرائع پر قبضہ  کر لیا تھا اور باتوں سے اپنا راستہ نکال لیا تھا۔ ” ربیکا سول نِٹ
ماہرین کا خیال ہے کہ یہ آمرانہ حکومتوں سے زیادہ جمہوری حکومتوں کے لئے خطرناک ہے کیونکہ جمہوری حکومتیں مکالمے اور عوامی گفتگو سے پروان چڑھتی ہیں۔ لوگ ایک دوسرے سے بات چیت کرتے ہیں اور اگر AI نے مکالمے اور بات چیت کے سارے عمل کو ہی کنٹرول کر لیا تو جمہوریت ختم ہو جائے گی۔ آہستہ آہستہ AI میدان جنگ میں بھی گھس رہی ہے اور حالیہ روس یوکرین جنگ سے اس کے ہلکے پھلکے شواہد بھی مل رہے ہیں۔ اس سے روایتی جنگوں میں توپ و تفنگ لہرانے اور بعد ازاں تمغوں کی پریڈ بھی متاثر ہو سکتی ہے۔ عین ممکن ہے کہ فتح کا ڈھونگ رچانے کے لئے کوئی فریق زندہ ہی نہ بچے۔ 
 مگر ہمارے جیسے نیم قبائلی، نیم آمرانہ، نیم جمہوری، آدھے  تیتر آدھے بٹیر ھائبرڈ نظام کو AI  سے کیا خطرات درپیش ہوں گے؟ اس کا ابھی سے ٹھیک ٹھیک اندازہ لگانا بہت مشکل ہے۔ غیر مادی، غیر مرئی کہانیاں کوئی محکمہ تخلیق کرے یا AI، ہماری عوام مہنگائی اور غربت کے ہاتھوں پہلے ہی نفسیاتی اور سیاسی تباہی کے دہانے پر کھڑی ہے۔