جو منتظمین ، افسران اور ٹھیکے دار سولہ لاکھ سے زائد رقم ادھر ادھر کر چکے تھے ، انھیں یہ خوف دامن گیر تھا کہ کسی بھی وقت آڈٹ ہوا تو اس رقم کا حساب دینا مشکل ہو جاے گا . سو بڑے سوچ بچار کے بعد انھوں نے اس کا حل یہ سوچا کہ اس منصوبہ کو ختم کر دینا ہی بہتر ہے . انھوں نے اس منصوبے پر مٹی ڈالنے کے لیے جو طریقہ ایجاد کیا وہ لاہور کی صحافتی تاریخ کا ایک دل چسپ واقعہ ہے. اس دور کے ایک کثیر الا شا عت اخبار میں یہ خبر شائع ہوئی کہ “ قلعہ گجر سنگھ کے ایک بزرگ کو خواب میں یہ بشارت ہوئی ہے کا اس پلاٹ میں پیر غائب علی شاہ دفن ہیں اور وہ نہیں چاہتے کہ ان کی آرام گاہ پر صحافیوں کا پریس کلب بنے “ ایک مزدور رہنما آفتاب ربانی نے ، جن کا حال ہی میں انتقال ہوا ہے ، اس خبر کی بنیاد پر کام رکوا دیا . وہ اس وقت ریلوے مزدور یونین کے صدر اور تانگہ بان یونین کے سر پرست اعلی تھے . پھر ایک روز شام کو سنکڑوں مزدور ساتھیوں ، تانگہ بانوں اور ڈھول تاشوں کے ساتھ ایبٹ روڈ پر واقع آدھے کھدے ہوے اس پلاٹ پر پہنچے اور اعلان کیا کہ “ یہاں پیر غائب علی شاہ کی قبر بنے گی . اب یہاں پریس کلب بننے کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہی “ اس کے ساتھ ہی ہوائی فائرنگ اور ڈھول کی تھاپ پر قبر بننا شروع ہو گئی . پھولوں کی چادر چڑھانے کے بعد پورے خشوع و خضوع سے دعا بھی مانگی گئی . یوں صحافیوں کے اس پلاٹ پر   پیر غائب علی شاہ کے نام پر قبضہ کر لیا گیا . بہت سے صحافیوں نے کہا بھی کہ اگر واقعی پیر صاحب یہاں دفن ہیں، تو ان کی میت کو پورے احترام کے ساتھ میانی صاحب قبرستان منتقل کر دیا جاے، لیکن ان کی کسی نے نہ سنی . قبر بناتے وقت یہ بھی مہشور کر دیا گیا کہ “ یہاں پریس کلب تعمیر کیا گیا تو پیر صاحب اسے گرا دیں گے “ چند ہی دنوں میں جب یہاں سے گزارنے والوں نے سلگتی اگر بتیوں ، قبر پر روشن دیے اور پھولوں کی چادروں کو دیکھا تو دعائیں اور منتیں مانگنے کا سلسلہ شروع ہو گیا جو آج بھی جاری ہے .
گزشتہ سے پیوستہ
روف ظفر  کے “ جنگ “ سنڈے میگزین کے فیچر سے اقتباس