مہاراجہ رنجیت سنگھ مشرقی پنجاب میں بحیثیت مجموعی اور مغربی پنجاب میں قوم پرستوں میں بہت مقبول ہے. اس کی تعریف و توصیف میں زمین و آسمان کے قلابے ملائے جاتے ہیں۔ اسے انصاف پسند سیکولر اور بہت کامیاب منتظم کے طور پر یاد کیا جاتا ہے.رنجیت سنگھ اس کی ریاست اور حکومت کی یہ تعریف بیسویں صدی میں ابھرنے والی قوم پرستی کی پیداوار ہے۔ انیسویں صدی کے آخری پچاس سالوں میں رنجیت کی شخصیت اس کے طرز حکمرانی بارے پنجابیوں کی لکھی ہوئی تحریریں بہت کم اور خال خال ہیں زیادہ تر اس بارے میں انگریز سیاحوں یا انتظامی افسروں کا لکھا ہوا ملتا ہے۔
بیسویں صدی میں قوم پرستی کے زیر اثر ہندوستان میں ماضی کے حکمرانوں کو ہیرو بنا کر پیش کرنے کا سلسلہ شروع ہوا تھا۔شیوا جی جس کے مقبرے پر کبھی نہیں جاتا تھا اسے مراٹھا قوم پرستی کا ہیرو بنا کر پیش کیا گیا اور اس کی بہادری جوانمردی اور انصاف پسندی کے قصے مشہور ہونے لگے۔ان قصوں میں حقیقت کم اور مبالغہ آرائی زیادہ تھی یہی حال رنجیت سنگھ کا بھی تھا۔
رنجیت سنگھ اپنے وفات کے بعد کتنا پاپولر تھا اس کا اندازہ دلیپ سنگھ کی زندگی سے لگایا جاسکتا ہے ۔ دلیپ سنگھ رنجیت سنگھ کی سب سے چھوٹی اور خوبصورت بیوی رانی جنداں کا اکلوتا بیٹا تھا۔ جب رنجیت سنگھ مرا تو دلیپ سنگھ بہت چھوٹا تھا۔ اس کی ماں نے اس کو چھپایا ہوا تھا کیونکہ اسے ڈر تھا کہ کہیں تخت کا وارث اسے قتل نہ کردے۔ لاہور دربار میں جاری اقتداری کشمکش میں ایک مرحلہ وہ آیا جب بادشاہ گروں کو کم سن دلیپ سنگھ کی ضرورت پڑی اور اس کی  جھاڑ پونچھ کر کے اسے  لاہور دربار کے تخت پر بٹھادیا گیا تھا۔کم سن دلیپ سنگھ تو محض نمایشی حکمران تھا اصل حکمران تو اس کی ماں رانی جنداں تھی۔ جب ایسٹ انڈیا کمپی نے اینگلو سکھ وارز کے نتیجے میںجب ایسٹ انڈیا کمپنی نے پنجاب پر قبضہ( مارچ1849) کیا مہاراجہ دلیپ سنگھ ابھی کم سن تھا۔ انگریز انتظامیہ نے کم سن مہاراجہ کو اس کی ماں جندکور سے علیحدہ کرکے ایک انگریزاہل کار لوگن کے حوالے کردیا جس نے اس کی تعلیم وتربیت کی تھی۔ دلیپ سنگھ نے لوگن کے زیر سایہ تعلیم پانےکے دوران مسیحیت قبول کرلی اور باقاعدہ بپتسما بھی لیا تھا۔مہاراجہ جب سولہ سال کا ہوا تھاتو انگریز سرکار نے اسے برطانیہ بھیج دیا تھا جہاں اس نے ایک انگریزعورت سے شادی کرلی تھ۔ دلیپ سنگھ فوٹو گرافی اور کرکٹ بہت شوقین تھا۔ملکہ وکٹوریہ نے اسے اپنا فرزند دلبند قراردیا اور اس کی پنشن دیگر راجوں مہاراجون سے زیادہ مقررکی تھی۔ مہاراجہ دلیپ سنگھ اس وقت کی برطانوی اشرافیہ میں بلیک پرنس کے نام سے اپنی شناخت رکھتا تھا۔مہاراجہ کافی زیادہ فضول خرچ تھا اور  غیر ضروری اخراجات کی بدولت اپنی ملنے والی پنشن ختم کردیتاتھااوراکثر مقروض رہتا تھا۔دلیپ سنگھ کی زندگی میں ایک وقت ایسا بھی آیا کہ وہ مالی طور پربہت زیادہ مقروض ہوگیا اور اس نے مالی پریشانیوں کے پیش نظر ملکہ وکٹوریہ کو خط لکھا کہ اس کی پنشن میں اضافہ کیا جائے ملکہ نے جواب دیا کہ اس کی پنشن دوسرے ہندوستانی راجوں کی نسبت پہلے ہی زیادہ ہے۔اور ویسے بھی ایسا کرنا اس کے اختیار میں نہیں ہے یہ اختیار برطانوی پارلیمنٹ اور کابینہ کے پاس ہے چنانچہ ملکہ نے اس کی یہ درخواست کابینہ کو بھیج دی تھی جس نے اس درخواست کو مستردکردیا تھا۔دلیپ سنگھ کو اس کے دوست احباب نے مشورہ دیا کہ وہ اپنی سلطنت برطانیہ سے واپس لینے کا مطالبہ کیونکہ جب ایسٹ انڈیا کمپنی نے پنجاب پر قبضہ کیا تھا تو اس نے تحریری طور پر وعدہ کیا تھا کہ ولی عہد دلیپ ابھی کم سن ہے جوں ہی یہ بالغ ہوجائےگاتواس کی سلطنت اس کو واپس کردی جائے گی۔ اب چونکہ تم بالغ ہو لہذا تمہیں اپنی سلطنت کی واپسی کا تقاضا کرنا چاہیے ۔اس مشورے کے تحت دلیپ سنگھ نے برطانوی اخبارات میں اپنے اس مطالبے کے حق میں خطوط لکھے۔مسیحیت چھوڑ کر دوبارہ سکھ مت قبول کرنے کااعلان کیا اور مقررہ تاریخ کو برطانیہ سے ہندوستان جاکر اپنی سلطنت حاصل کرنے کا اعلان کیا۔ انگریز سرکار کو دلیپ سنگھ کے اس اعلان پر تسویش ہوئی اور وہ نہیں چاہتی تھی کہ دلیپ سنگھ ہندوستان جائے اور اس کے لئے کسی پریشانی کا باعث بنے۔ چنانچہ دلیپ سنگھ کی ہندوستان واپسی کو روکنے کے لئے مختلف طریقے اور حربے استعمال کرناشروع کردیئے۔ پنجاب میں اس وقت متعدد تعلیمی ادارے قائم ہوچکے تھے جہاں سے ہندووں سکھوں اور کسی حد تک مسلمان میٹرک ایف اے اور گرایجوایشن کرچکے تھے اور جدید عہد کے حکومتی تصورات سے آشا ہوکر لوکل سیلف گورنمنٹ کا مطالبہ کررہے تھے انھیں رنجیت سنگھ اور اس کی فیوڈل حکومت کی دوبارہ واپسی سے کوئی غرض اور دلچسپی نہیں تھی چنانچہ سکھ ایجوکیشنل کانفرنس نے دلیپ سنگھ کے پنجاب کی سلطنت اسے واپس کرنے مطالبے سے  نہ صرف اظہار لاتعلقی کیا بلکہ رنجیت سنگھ کو عہد اقتدار بارے بھی کسی اچھی رائے کا اظہار نہیں کیا تھا اور انگریز سرکار سے اظہار یک جہتی کی قراردادیں منظور کی تھیں۔ دلیپ سنگھ اپنی سلطنت واپس لینےلے لئے برطانیہ سے روانہ ہوا جسے راستے میں انگریز اہلکاروں نے واپس بھیج دیا تھا۔ پیر س کے ہوٹل میں اس کی موت اس واپسی کے سفر میں ہوئی تھی۔
دلیپ سنگھ کی ایک بیٹی بمباسدر لینڈ کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج کے پتھالوجی کے پروفیسر سے شادی کرلی تھی اور پہلے جیل روڈ اور پھر ماڈل ٹاون میں رہتی تھی ۔ وہ ماڈل ٹاون بس جو میو ہسپتال لاہور سے ماڈل ٹاون جاتی تھی میںسفر کے دوران کرایہ بھی نہیںدیتی تھی اور کرایہ دینے کا جواز یہ دیتی تھی کہ وہ پنجاب کی شہزادی ہے وہ کیوں کرایہ دے۔۔ اس کی ایک بہن نے عورتوں کے ووٹ کے حق کے لئے بہت جدوجہد کی تھی اور اس حوالے سے اس کا کردار بہت شاندار تھا

 جب سماجی اور معاشی حالات بدلتے ہیں بہت سے سیاسی ادارے ماضی کا حصہ بن کر غیر متعلق ہوجاتے ہیں اور عوام اس سے اظہار لاتعلقی کردیتے ہیں۔ باقی اگر رہ جاتا ہے وہ ناسٹجلیا ہوتا ہے۔دلیپ سنگھ کی ہندوستان واپسی کے مخالف پڑھے لکھے سکھ تھے ۔
رنجیت سنگھ سے موجودہ محبت کےدو پہلو ہیں مشرقی پنجاب کے سکھوں کے لئے اس کا سکھ اور لاہور دربار کا حکمران ہونا جب کہ مغربی پنجاب کے پنجاب قوم پرستوں کے پاس کیونکہ کوئی مقامی ہیرو نہیں ہے لہذا وہ رنجیت سنگھ کو اپنا ہیرو بنا کر پیش کرکے خوش ہوتے ہیں