ذوالفقار علی بھٹو کی نجکاری کی بدولت عام آدمی کے لیے تعلیم ، ٹرانسپورٹ اور اشیاۓ صرف انتہائی کم نرخوں میں داتیاب تھیں

پیپلزپارٹی کے خلاف ہر وقت کوئی نہ کوئی قصہ کہانی زیرِ گردش رہتا ہے حالیہ دنوں سے ذوالفقار علی بھٹو کی نیشنلائیزیشن کی تباہی بتانے والی تحریر کے ساتھ کافی دفعہ سامنا ہو چکا ہے۔ یہاں تک کہ کچھ احباب نے وضاحت بھی طلب کی۔ اگرچہ اس موضوع پر پارٹی کے ایک جیالے اطہر شریف کے بیس اقساط پر مشتمل مضامین کا سلسلہ موجود ہے اور مجھے معیشت کے بابت بالکل ہی کوئی سد بد نہیں ہے تاہم کچھ عام فہم سی باتیں ایک عام فہم قاری کے حضور پیش کرنے کی جسارت کرتا ہوں۔
ذرائع پیداوار کی ملکیت کے دو بڑے انداز ہیں۔ ایک ذاتی ملکیت اور دوسرا ہے اجتماعی ملکیت اور اجتماعی ملکیت ہی ریاستی ملکیت بھی پے۔ جب کوئی منافع بخش پیداواری یونٹ ذاتی یا فرد کی ملکیت میں ہوگا تو اس کا منافع فرد کو ملے گا اور جب یہی منافع بخش پیداواری یونٹ اجتماعی / ریاستی/ قومی ملکیت میں ہوگا تو اس کے منافع کے مالک بھی باشندگان ریاست یا افراد قوم ہونگے، یہ منافع ایک فرد کے اکاونٹ میں تو بصورت کیش جائے گا لیکن اجتماعی منافع کیش کی صورت کے بجائے صحت، تعلیم، سیکیورٹی،  روزگار،  ذرائع رسل و رسائل کی شکل میں قوم کے افراد میں تقسیم ہوگا۔ مذکور بالا حقوق کی فراہمی  اسی صورت میں ریاست کی ذمہ داری ہوگی۔
اب ذرائع پیداوار پر قابض افراد تو ہرگز اس قبضہ سے دستبرداری اختیار کرنے کے روادار نہیں ہوتے۔ اس کے لیے وہ ہزاروں لاکھوں افراد کو ذبح کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے تاہم اگر یہ ذرائع پیداوار کسی حد تک ان سے چھن جائیں تو اس کو ناکام کرنے کا پہلا حربہ یہی ہوگا ان منافع بخش ذرائع پیداوار کو خسارے میں لے جایا جائے یا خسارے میں جاتا ہوا ظاہر کیا جائے
یہی وہ کھیل ہے جو ذوالفقار علی بھٹو کی نیشنلائیزیشن کے ساتھ کھیلا گیا۔ بڑے بڑے صنعتی یونٹوں کی بات کرنے کے لیے تو کوئی ڈیٹا درکار ہوگا۔ پھر ڈیٹا کا مصدقہ اور غیر مصدقہ کا سوال کھڑا ہو جاتا ہے اس لیے ایک عام سی مثال پیش خدمت کرتا ہوں جس کا مجھے اور میری عمر کے ہر بندے کو تجربہ ہے۔ وہ ہے شعبہ ٹرانسپورٹ میں گورنمنٹ ٹرانسپورٹ سروسز کی بسز کی مثال۔  جی ٹی ایس کا خاتمہ 1980ء کی دہائی میں اسی لیے ہوا کہ وہ خسارے میں جاتے جاتے اختتام پذیر ہوگئی جبکہ ستر  اور اسی کی دہائی کے اوائل میں مسافران بسوں میں سے صرف اور صرف جی ٹی ایس کا انتخاب کرتے تھے اور زیادہ تر پرائیویٹ ٹرانسپورٹرز اپنی پرائیویٹ بسوں کو جی ٹی ایس رنگ اور اس سے ملا جلا نام دے کر بھی مسافران کو دھوکے سے بھی اپنی طرف کھینچ نہیں سکتے تھے۔ اس طرح یہ بات عام مشاہدہ کی ہے کہ جی ٹی ایس کو آمدن کی کمی کا خسارہ لاحق نہیں تھا بلکہ پرائیویٹ ٹرانسپورٹرز کے ساتھ ملی بھگت کی کرپشن اور بد انتظامی کا خسارہ لاحق ہوا جو اس کی موت کا سبب بنا۔ جی ٹی ایس کی مثال کو ذرا بڑے سطح پر دیکھیں تو ریلوے اور پی آئی اے کی ناکامی کا سبب ان کا قومی ادارے کے طور پر نہیں بلکہ ان کے اندر ہونے والی منصوبہ بند بد انتظامی ہی  ہے،
اب ایک اور عام سی  مثال شوگر ملز کی  لے لیتے ہیں ۔ شوگر ملز اگر انفرادی کے بجائے اجتماعی ملکیت میں ہوں اور ان پر ریاستی نظم و نسق لاگو ہو تو آج کی طرح گنا پیدا کرنے والے کسان بلیک میلنگ نہیں کر پائیں۔ پیداوار کی ذخیرہ اندوزی اور سمگلنگ نہیں ہو پائے گی، قیمتوں کے تعین میں من مانی کی ضرورت ہی نہیں محسوس ہوگی چونکہ اس پیداواری یونٹ سے سرکار نے فرد کی طرح دن دگنی اور رات چگنی ترقی نہیں کرنی۔ یہی حال تمام اشیاء خورد ونوش اور روزمرہ کے استعمال کی مصنوعات پر ہوتا ہے۔ سرکاری ملکیت کے یونٹ کی پیداوار ہی سے کوالٹی کنٹرول بھی سہل ہو جاتا ہے۔ مثال کے طور پر ذوالفقار علی بھٹو کے دور  بناسپتی گھی کی پیداوار گھی کارپوریشن آف پاکستان کے زیر انتظام گھی فیکٹریوں سے ہوتی تھی۔ اس صورت میں عوام کو کوالٹی کی ضمانت اس آئیٹم کے نام سے مل جاتی تھی اور ہر گلی محلے اور گندے نالے میں حرام اور مردہ جانوروں کی ہڈیوں اور انتڑیوں سے بننے والے گھی کی ضرورت پیش نہ آتی تھی۔ ذولفقار علی بھٹو کے دور میں قائم کی گئی روٹی کارپوریشن آف پاکستان کی تیار کردہ پکی پکائی روٹی  ہے۔ افسوس کہ آج ملاوٹ شدہ مہنگے آٹے اور وزن کی گارنٹی کے بغیر روٹی کھاتے ہوئے اپنی مالی بوجھ کے علاوہ اپنے شکم کی بربادی کرنے کے باوجود ہمیں نیشنلائیزیشن کی تباہی کا سبق دلنشین اور پرائیویٹائزیش کی برکتیں ہر طرف بکھری نظر کیوں نہیں آتیں؟  فارمسوٹیکل انڈسٹری کا قومی کنٹرول میں ہوتے ہوئے کوالٹی کنٹرول اور پرائیس کنٹرول کے حوالے کہیں زیادہ اہم ہے۔
ذوالفقار علی بھٹو تعلیمی ادارے نیشنلائیز کیے جس پر سوال اٹھانا پرلے درجے کی جہالت ہے، پرائیویٹ تعلیمی ادارے جہاں طالبعلم کے لیے فیسوں کا ناقابل برداشت بوجھ بنتے ہیں، تھے وہاں  اساتذہ کی سروس کے حقوق کے بھی قاتل تھے، مطلب تعلیم حاصل کرنے والے بھی لٹ رہے ہیں اور تعلیم دینے والے بھی، دن دگنی اور رات چگنی ترقی کوئی اور کر رہا ہے۔
بینکنگ اور انشورنس کمپنیوں اور بڑے صنعتی یونٹوں کی نیشنلائیزیشن کے اثرات کو دیکھنے کے لیے مستند ریسرچر کیطرف رجوع کرنا مناسب ہوگا۔